بچوں کی ایک مشہور کہانی میں ایک پراسرار کردار پائیڈ پائپر(Pied Piper) اپنا جادوئی پائپ بجاتا ہوا ہمالین بچوں کوتباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قرونِ وسطیٰ کے دور کے اُس پراسرار پائپر کا کردار عمران خان نے ادا کرتے ہوئے نہ صرف بڑی تعداد میں شہری نوجوانوں کوبھٹکایا بلکہ غل غپاڑا مچاکر میڈیا کی رونق بڑھائے رکھنے والے صحافی دوستوںکو بھی اپنی دھن پر مست کرلیا۔ جب اسلام آباد کامشہور دھرنااپنے نقطۂ عروج پرنغمہ و موسیقی ، دھونس اور دھمکی سے حاضرین کا لہو گرما رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ٹی وی کی کچھ مشہور شخصیات خوشی سے ہاتھ مل رہی تھیں جبکہ منہ میں پانی بھی آرہا ہوگا کہ صورت ِحال فوجی مداخلت کے لیے ناگزیر دکھائی دیتی تھی۔ بھاری بوٹوں کی دھمک دل کی دھڑکن کے ہم قدم تھی۔ کئی ماہ کی ہنگامہ آرائی اورفساد کشی اور منظم دھاندلی اور سازش کے تحت 2013ء کے انتخابات چرانے کے الزامات کی اس رات دن بوچھاڑ نے کہ وزیر ِاعظم اور ان کے اہم افراد نے نتائج تبدیل کرکے پی ٹی آئی کو یقینی کامیابی سے محروم کردیا، ملک کو مفلوج کیے رکھا؛ تاہم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے عمران خان کو آئینہ دکھادیا ہے۔ بلند بانگ دعووں کے باوجود پی ٹی آئی کی ٹیم کمیشن کے سامنے منظم دھاندلی اور سازش کے تحت الیکشن چرانے کے کوئی ثبوت نہ رکھ سکی۔
لوگ عمران خان کے غیر ذمہ دار رویے اور بطور سیاست دان طفلانہ ضد کے مظاہرے سے حیران کیوں ہیں؟ کئی برسوں تک خان صاحب نے طالبان کی غیر مشروط حمایت کی اور ان کی طرف سے پڑنے والے دبائو کی وجہ سے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے ناگزیر فوجی ایکشن التوا کا شکار رہا جبکہ وہ درندے انسانی خون سے ہولی کھیلتے رہے۔ طالبان کے لیے اپنی بے لچک حمایت کی وجہ سے وہ''طالبان خان‘‘ کہلائے۔ اُنہی دنوں عمران خان کی طرف سے امریکی ڈرون حملوں کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ حملے روکنے کے لیے عمران خان اور ان کی جماعت نے بھرپور مہم چلائی۔ اس کے نتیجے میں کئی ہفتوں تک اتحادی افواج کی سپلائی معطل رہی۔ سپلائی لے کر جانے والے ٹرک ڈرائیوروںکو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مبینہ طور پر زدوکوب کیا اور حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر کیے گئے عالمی معاہدوں کو طاقت سے روند کر رکھ دیا۔ باقی دنیا اتنی احمق نہیں،اس لیے ڈرون حملے ان قاتلوں کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچاتے رہے اور اب بھی اُنہیں نشانہ بناتے ہیں لیکن اب خان صاحب کی طرف سے احتجاج توکیا اُونچی سانس تک نہیں لی جاتی۔
2013ء کے انتخابات سے پہلے عمران خان نے اپنی جماعت کے دروازے اُن افراد کے لیے کھول دیے جنہیں وہ ''بدعنوان اور موقع پرست‘‘ کہہ کر تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ اس سے پہلے وہ انقلابی نعرے لگا لگا کر نوجوانوںکے دلوں میں نئے سیاسی امکانات کی جوت جگاچکے تھے۔ مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دینے اور اس کے لیے رات دن ایک کردینے والے مخلص نوجوان کارکنوں نے کچھ اور قسم کے لوگوں کو جوق در جوق پی ٹی آئی کی صفوں میں شامل ہوکر اعلیٰ عہدے سنبھالتے دیکھا تو ان کا مایوس ہونا فطری بات تھی۔ عمران خان کے عزائم نے اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں اور اُن اصولوں کی بنیاد پر استوار ہونے والی امیدوں کو روند کر رکھ دیا ۔ انتخابات سے پہلے بھی یہ سوال سوچ سمجھ رکھنے والے طبقے کے ذہن میں اٹھنا شروع ہوگیا تھا کہ آخر کپتان اور دوسرے روایتی سیاست دانوں میں کیا فرق ہے؟ جب اُنہیں موقع ملا کہ وہ خیبر پختونخوا میں اچھی حکومت قائم کرکے ثابت کردیں کہ وہ دوسری جماعتوں سے بہتر ہیں تو وہ اس آزمائش میں بری طرح ناکام رہے۔ پہلے تو صوبے کو بھول کر تمام صوبائی حکومت اسلام آباد دھرنے میں خیمہ زن ہوگئی اور اہم رہنما کنٹینر پر رقص کناں بھی دکھائی دیے۔ پشاور انتظامیہ‘ جو کبھی اچھی کارکردگی دکھانے کی شہرت نہیںرکھتی تھی‘ پہلے سے بھی زیادہ مفلوج دکھائی دی۔ مقامی حکومتوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں پُرتشدد واقعات اور بدعنوانی کے الزامات نے پی ٹی آئی کے حامیوں کو دفاعی قدموں پر لا کھڑا کیا۔
اسلام آباد دھرنے میں جارحانہ رویہ دکھاتے ہوئے عمران خان جمہوریت کے لیے اپنی بیزاری کا برملا اظہار کرچکے تھے۔ انتخابات سے پہلے کیے گئے سروے پی ایم ایل (ن) کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مقامی اور غیر ملکی ناقدین کو بھی انتخابات میں کوئی اتنا بڑا سقم دکھائی نہیں دیا تھاجس سے نواز حکومت کی آئینی حیثیت پر کوئی حرف آتا۔ پی ٹی آئی کے بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ دھرنے دراصل فوجی مداخلت کو دعوت دینے کے لیے تھے ؛ تاہم خان صاحب کی کاوش رائیگاں گئی۔ اس کی ایک وجہ حکومت کی طرف سے مظاہرین کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال سے حتمی گریز کی پالیسی تھی تو دوسری طرف آرمی چیف کی سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی دانائی۔ اس پالیسی نے پی ٹی آئی کے غبارے میں سے ہوا نکال دی۔ اس کے ساتھ ہی قوم نے سکون کا سانس لیا۔ دھرنے ختم ہوگئے لیکن ان کی وجہ سے ملک و قوم کو پہنچنے والے نقصان کا مداوا فوری طور پر نہ ہوسکا۔ دو دوست ریاستوں، چین اور سری لنکا کے سربراہان کو اپنے دورے ملتوی کرنا پڑے ، معیشت کواربوں کا نقصان پہنچا، ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے، دیہاڑی دار مزدوروں کی روزانہ کی آمدنی متاثر ہوئی‘ ان کے خاندانوں کو کٹھن حالات سے دوچار ہونا پڑا اور اسلام آباد کے مقامی شہری ایک طر ح سے تین ماہ تک نظربند رہے۔
ان غلطیوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے باوجود عمران خان کی طرف سے کبھی معذرت نہیں کی گئی۔ رپورٹ آنے کے بعد بھی پی ٹی آئی کے قائد اور ان کے حواریوں کی طرف سے دھیمے لہجے میں یہی کہا جا رہا ہے کہ کمیشن نے اپنا کام ادھورا چھوڑ دیا اور یہ کہ ان کے پاس اب بھی دھاندلی کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ عقل حیران ہے کہ پھر اُن مبینہ ثبوتوںکوکمیشن کے سامنے پیش کرنے سے کس نادیدہ طاقت نے روکے رکھا؟جن افراد پر عمران خان رات دن کیچڑ اچھالتے تھے، وہ اب تک اُن کی طرف سے رسمی معذرت طلبی کے منتظر ہیں ؛ تاہم عمران خان جیسے افراد کبھی ''سوری‘‘ کہہ کر اپنی شائستگی کا ثبوت نہیں دیتے۔ اگر اُنہوں نے کسی اور ملک، فرض کریں انگلینڈ، میں اپنے حریفوں پر اس قبیل کے بے بنیاد الزام لگائے ہوتے تواُنہیں شاید ہتک ِعزت کے ہرجانے ادا کرنے کے لیے اپنا بنی گالہ کا وسیع و عریض بنگلہ فروخت کرنا پڑتا مگر پاکستان میں تحریک انصاف کے ساتھ ایسا انصاف ہونا دشوار ہے۔کم از کم میرے علم کے مطابق، ہماری عدلیہ اس طرح کیچڑ اچھالنے پر کسی سے پوچھ گچھ نہیں کرتی۔
میں ذاتی طور پر عمران خان کو اُن کی کرکٹ کی صلاحیت اور فلاحی کاموں کی وجہ سے پسندکرتا تھا اور اب بھی کرتا ہوں، لیکن میں بطور سیاست دان ان کے بیانات کے بودے پن پر حیران نہیں ہوں۔ دراصل خود کو درست سمجھنے اور کسی کی رائے کو خاطر میںنہ لانے والے متکبر اور ہٹ دھرم افراد سیاسی مفاہمت کے میدان کے لیے ناموزوں ہوتے ہیں۔ جو لوگ اُنہیں ایک مسیحا سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کومشکلات کے گرداب سے نکالیں گے، احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ افسوس کہ روایتی سیاست سے بیزار پاکستان کے لاکھوں نوجوانوں کے لیے وہ امید اور اصلاح کی کرن بن کر ابھرے تھے، ہو سکتا ہے وہ ذاتی طور پر ایماندار ہوں لیکن وزیر اعظم بننے کے لیے معقولیت، افہام و تفہیم ، لچک، عاجزی اور دوسروں کی بات سننے کی عادت بھی ضروری ہوتی ہے۔