تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-08-2015

شیر اور بندر

زمانہ یُوں بدلا ہے کہ جانور بھی حیران ہیں۔ جو کچھ کل تک حیوانات کی دنیا کا خاصہ تھا وہ اب انسانوں کی دنیا کا لازمہ بن کر رہ گیا ہے۔ حیوانات اور بالخصوص درندوں کی خصوصیات اپناکر انسان اپنی اصلیت بھولتے جارہے ہیں۔ کل تک بوٹیاں نوچنا درندوں کا کام تھا۔ اب انسان یہ کام ایسے ڈھنگ سے کر رہے ہیں کہ درندے بھی دیکھیں تو شرمسار ہوں! انسانوں کا کمال یہ ہے کہ جب اپنے جیسوں کی بوٹیاں نوچنے پر آتے ہیں تو کہیں خون خرابہ دکھائی نہیں دیتا اور کام ہوچکتا ہے! یہ سب دیکھ کر حیوانات بھی سوچتے تو ہوں گے کہ ع 
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو! 
بہت پہلے کی بات ہے کہ کراچی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں سرکس باقاعدگی سے لگا کرتے تھے۔ سدھائے ہوئے جنگلی جانوروں کو دیکھنے لوگ شوق سے جایا کرتے تھے۔ سدھائے ہوئے جنگلی جانور دیکھ کر بہت سے لوگ آزمودہ شوہروں سے اُن کا موازنہ بھی کر گزرتے تھے! اور دل خراش حقیقت یہ ہے کہ سرکس کے سدھائے ہوئے جانوروں کو گھریلو سرکس کے سب سے بڑے آئٹم یعنی شوہر سے سخت مقابلہ درپیش رہتا تھا! 
اب کیسا سرکس، کہاں کا سرکس؟ قدم قدم پر اِتنے کرتب ہیں کہ لوگ باضابطہ سرکس کے محتاج نہیں رہے۔ اب اگر کہیں سرکس لگ جائے تو لوگ محض یہ دیکھنے جاتے ہیں کہ سِدھائے ہوئے جانوروں نے انسانوں سے کوئی کام کا آئٹم سیکھا یا اب تک اُنہی گِھسے پٹے تماشوں سے کھا کما رہے ہیں! اور سچ پوچھیے تو اب سرکس دیکھ کر اندازہ ہوگیا ہے کہ جنگل کے معصوم جانور کرتب بازی میں ہم سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں! اگر جانوروں کو شعور کی دولت عطا ہو تو وہ یہ سوچ سوچ کر ہی مر جائیں کہ جن کاموں کے لیے انہیں پیدا کیا گیا تھا وہ تو اب انسانوں نے سنبھال لیے ہیں۔ مگر صاحب، شعور کی بات نہ کی جائے تو اچھا۔ جانوروں سے شعور رکھنے اور اس کا مظاہرہ کرنے کی کیا توقع رکھی جائے کہ اب تو ہم میں سے بھی بیشتر شعور کی دولت سے بہرہ مند نہیں رہے! 
ایجادات، اختراعات، فیشن، علمی رجحانات ... تقریباً تمام ہی معاملات میں ہم اب ترقی یافتہ دنیا کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے سِحر سے آزاد ہونا سرِ دست تو تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے اور ان کے درمیان پایا جانے والا تضاد اب کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ ترقی یافتہ دنیا کے حیوانات بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے معاملے میں ہمیں آئینہ دکھانے لگے ہیں۔ 
جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے ایک ریسٹورنٹ میں دو بندروں نے ویٹر کی ڈیوٹی سنبھال کر بہت سوں کو حیران کر رکھا ہے۔ دونوں بندر اپنے مالک کے گھر میں پلتے تھے اور کبھی کبھی ریسٹورنٹ بھی آتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ گاہکوں کی خدمت بھی انجام دینے لگے۔ ان کی سروس اتنی اچھی تھی کہ مالک نے دونوں کو ویٹر کی ڈیوٹی سونپ دی۔ اور یہ ڈیوٹی انہوں نے ایسی سنبھالی کہ گاہک نہال ہوگئے۔ 
ان بندروں نے ایسی سروس دی ہے کہ گاہک یقین ہی نہیں کر پاتے کہ ان کی ٹریٹمنٹ کسی حیوان کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ جیسے ہی کوئی گاہک ریسٹورنٹ میں داخل ہونے کے بعد منہ ہاتھ دھوتا ہے، ایک بندر تولیہ لے آتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ میں مینو ہوتا ہے۔ مینو والا بندر کچن میں جاتا ہے تو پہلا والا بندر آرڈر کے مطابق ٹرے لے کر گاہک کی میز پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنی دیر گاہک کھانا کھاتا ہے، دونوں بندر ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں اور گاہک کو دیکھ کر مسکراتے رہتے ہیں۔ جب گاہک کھانا کھا چکتا ہے تو ایک بندر برتن سمیٹ کر کچن میں لے جاتا ہے اور دوسرا بندر بل لے آتا ہے۔ بل وصول کرنے کے بعد وہ باقی رقم گاہک کے حوالے کرتا ہے، اسے دروازے تک لے جاتا ہے اور ہاتھ ہلاکر رخصت کرتا ہے! 
آپ کچھ سوچ رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ بندروں کی اتنی شاندار سروس کے بارے میں پڑھ کر یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارے ہاں وہ زمانہ کب آئے گا جب ''خالص انسانی ویٹر‘‘ خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاہکوں کو خوش آمدید کہیں گے اور مثالی خاطر مدارات کے بعد انہیں مسکراتے ہوئے رخصت کیا کریں گے! اگر آپ واقعی ایسا سوچ رہے ہیں تو ہمیں حیرت ہے کہ آپ نے قیامت کے بعد کے زمانے کا کیسے سوچ لیا! سیدھی سی بات ہے۔ جاپانی ریسٹورنٹ میں بندر جس خلوص سے ویٹر کا کام کر رہے ہیں وہ خلوص ہمارے ہاں کے ویٹرز میں کم از کم قیامت تک تو پیدا نہیں ہوسکتا ! اور جس دن انہیں اِتنے خلوص کا مظاہرہ کرنا پڑ جائے تو سمجھ لیجیے اُس دن قیامت آہی گئی! 
ہم نے جب ٹوکیو کے ریسٹورنٹ میں ویٹر کی حیثیت سے کام کرنے والے بندروں کا ذکر کیا تو مرزا تنقید بیگ نے ہمیں خاصی خشمگیں نظروں سے گھورا۔ ہم کچھ سہم گئے کیونکہ ہمیں ان کی آنکھوں میں تھوڑی سی ''نگاہِ بندرانہ‘‘ محسوس ہوئی! ہمیں سہما ہوا دیکھ کر مرزا نے تھوڑی سی گھن گرج والے لہجے میں کہا: ''جاپانیوں کو کیا معلوم کہ ویٹر کا کام صرف شیر کرسکتے ہیں؟‘‘ 
''شیر؟‘‘ ہم حیران ہوئے۔ ویٹر کے کام سے شیر کا کیا تعلق؟ 
مرزا نے کہا: ''ارے بھائی! پاکستان میں ہوٹل جس انداز سے بھرے رہتے ہیں اور جو چیخ پکار مچی رہتی ہے اُس کی روشنی میں دیکھیے تو وہی ویٹر کامیاب رہتا ہے جو شیر کا جگر رکھتا ہو۔ تھوڑی سی دیر میں درجنوں گاہکوں کے آرڈرز کی تکمیل اور بل کا درست حساب رکھنا ہما شما کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام وہی انسان کرسکتا ہے جو اپنے سینے میں شیر کا جگر، بلکہ جگرا رکھتا ہو۔‘‘ 
ہم نے بتایا کہ ٹوکیو کے ریسٹورنٹ میں تو بندر شاندار سروس کے بعد ٹپ بھی نہیں مانگتے۔ مرزا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا: ''اسی لیے تو وہ اب تک بندر ہیں! انہیں اپنے حقوق کا کچھ خیال ہی نہیں۔ اللہ نے انسان کو شعور بھی عطا فرمایا ہے اور شعور کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بھی۔ ہمارے ہاں معمولی سی سروس پر بھی ویٹرز بیس تیس روپے ٹپ چاہتے ہیں۔ اگر وہ گاہک کے ہاتھ دُھلائیں، تولیہ لاکر دیں، کھانے کے دوران انہیں مسکراکر دیکھیں اور رخصت کرنے گیٹ تک آئیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گاہک کے پاس کیا بچے گا! اگر کبھی ایسا ہوا تو گاہک بے چارے چڈی بنیان میں ریسٹورنٹ سے نکلا کریں گے!‘‘ 
ہم نے عرض کیا کہ ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے ہم اگر اپنے بیشتر معاملات میں ٹوکیو کے بندروں والی خوش مزاجی اپنالیں تو کیا ہرج ہے۔ اچھا ہے کہ ہر کام ہنستے، مسکراتے ہوئے کیا جائے۔ مرزا نے ایک بار پھر ہمیں خشمگیں نظروں سے گھورتے ہوئے کہا: ''ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ہر طرف شیر گھوم رہے ہیں۔ بچہ تھوڑی سی بہادری دکھائے یعنی کسی کی گت بناکر گھر آئے تو باپ فخر سے سینہ پُھلاکر کہتا ہے آگیا میرا شیر! ایسے میں تم جیسے سہمے ہوئے 'بندر پسند‘ لوگ چاہتے ہیں کہ ہر معاملے میں 'رہ و رسمِ بندرانہ‘ عام ہوجائے! خود ہی سوچو۔ کیا اچھا لگے گا کہ بچہ پورے خلوص سے کسی کی خدمت کرکے گھر آئے اور باپ فخر سے کہے آگیا میرا بندر!‘‘ 
اب ہم مرزا کو کیا سمجھائیں کہ ہر معاملے میں شیر بننے کی کوشش ہی تو ہمیں کسی کام کا نہیں رہنے دیا۔ گدھے بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ گھوڑے سواری بنے ہوئے ہیں۔ مور ناچ کر لوگوں کا دل بہلا رہے ہیں۔ گائے اور بیل ہل بھی چلا رہے ہیں اور بعد میں گلے پر چُھری پھرواکر لوگ کو شکم سَیر ہونے کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔ کتے بھونک بھونک کر چوکیداری کر رہے ہیں۔ اور انسان؟ وہ شیر اور چیتوں کا لقب پاکر مفت کی روٹیاں توڑنے کے فراق میں رہتے ہیں! اگر معاشرے کی خدمت ممکن ہوتی ہو تو ''رہ و رسمِ بندرانہ‘‘ اپنانے میں کیا ہرج ہے! شیر کہلانے کا کیا فائدہ اگر ہم کسی کے کام ہی نہ آسکیں۔ ایسے میں وہ بندر بھلے جو خوش مزاجی کا مظاہرہ کرکے ماحول کو خوشگوار تو رکھتے ہیں۔ ہم اپنے اندر سے انسانوں والی بہت سی خصوصیات کو دیس نکالا دے چکے ہیں۔ ایسے میں یہ آپشن رہ گیا ہے کہ سِدھائے ہوئے جانوروں سے کچھ سیکھ لیا جائے۔ کیا خبر کل کو یہ آپشن بھی نہ بچے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved