تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-08-2015

طالبانی طرز کے مذاکرات

افغانستان میں صورتحال نے جس طرح یک لخت پلٹا کھایا ہے‘ اس کی توقع کوئی بھی نہیں کر رہا تھا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کے لئے ایک مدت سے رابطے ہو رہے تھے‘ لیکن کرزئی فیکٹر سے جان نہیں چھوٹ رہی تھی۔ تینوں پارٹیاں یعنی طالبان‘ پاکستان اور امریکہ جب بھی ایک دوسرے کے قریب ہونے لگتے‘ بیچ میں کرزئی کی لات آجاتی اور طے ہوتے ہوئے معاملات ‘اچانک پھر بگڑ جاتے۔ اس مرتبہ بھی جب صدر اشرف غنی کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا‘ تو کرزئی کے لوگ‘ جو طالبان کی صفوں میں بھی گھسے ہوئے تھے‘ قبائلی رشتوں کی بنیاد پر مذاکرات کو سبوتاژ کرتے رہے اور بات کسی بھی مرحلے پر بڑھتی ہوئی نظر نہیں آئی۔ایک وہ بھی دور تھا‘ جب قطر میں طالبان کو دفتر بنانے کا موقع دیا گیا اور وہاں پر طالبان اور امریکی اتحادیوں کے مابین غیررسمی رابطے بھی ہوئے‘مگر ان کا فائدہ کسی کو نہ پہنچ سکا‘ کیونکہ حامد کرزئی ہر موڑ پر اپنی چودھراہٹ دکھانے کی کوشش کرتے‘ جبکہ حقیقت میں افغانستان کے منظر سے کرزئی کا اثر و رسوخ ختم ہو چکا تھا۔ عملی طور پر افغان عوام نے کرزئی کو الگ تھلگ کر کے رکھ دیا تھا‘ لیکن وہ پھر بھی ہاتھ پائوں مارنے میں لگے رہے‘ مگر جیسے ہی کرزئی مذاکرات میں فریق بننے کے قریب آتے‘ فریقین میں سے کوئی نہ کوئی انہیں دھکیل کے باہر کر دیتا اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہتا۔ صدر اشرف غنی کی حکومت قائم ہونے کے بعد انہوں نے براہ راست پاکستان کے ساتھ رابطہ کیا اور ان دونوں نے مل کر ایک موقف اختیار کیا اور مذاکرات کو اصل کرداروں تک محدود رکھا‘ یعنی طالبان کے وہ عناصر جنہوں نے باقاعدہ لڑائی میں حصہ لیا تھا لیکن ان کے انفرادی مقاصد کچھ نہیں تھے۔ یہ لوگ‘ افغانستان میں دیرپاامن کے خواہشمند تھے اور ان کی کوشش تھی کہ بنیادی سفارتی پیچیدگیوں کے بارے میں ایک وسیع تر اتفاق رائے پیدا کر لیا جائے اور پھر آہستہ آہستہ بات آگے بڑھے۔ اس طریقہ کار کی سب سے زیادہ تکلیف حامد کرزئی کو تھی۔ اس تیزطرار سیاستدان نے بھانپ لیا تھا کہ مذاکراتی ٹیمیں ایک دوسرے کو دھوکا دے رہی ہیں۔ وہ خود بھی ابہام اور غیرواضح تصورات کی روشنی میں کوئی نتیجہ خیز صورتحال پیدا کرنے سے قاصر تھے۔ ان مذاکرات کے ذریعے فیصلہ افغان عوام کی قسمت کا تھا‘ لیکن اس پر اتفاق رائے کرنے والوں کے مقاصد اور اہداف یکساں نہیں تھے۔ اشرف غنی کا گروپ اور پاکستان اور امریکہ تینوں اس کوشش میں تھے کہ اس قضیے کو ختم کر کے باہمی رابطے بڑھائے جائیں‘ لیکن طالبان کسی بڑی تنظیم کا نام نہیں اور نہ ہی ہم خیالوں کا کوئی اجتماع ہے۔ یہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے‘ مختلف گروہ ہیں‘ جن کے مقاصد اور نظریات الگ الگ ہیں۔ پوری جنگ کے دوران سوائے ملا عمر کی ذات کے اور کسی بات پر وہ مجموعی اتفاق نہیں کرتے تھے۔ ملاعمر کے بعد صورتحال بدل گئی ہے۔ طالبان کے درمیان مرکزیت پیدا کرنے والا کوئی عنصر موجود نہیں۔ اگر اب مذاکرات شروع کر دیئے گئے‘ تو میں نہیں سمجھتا کہ خود طالبان کے درمیان بھی کوئی اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے اور وہ کسی ایک رائے یا حل پر متفق ہو کر کسی قسم کا معاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے پاکستان اور افغانستان کی حکومت کو پہلے طالبان کے درمیان باہمی مذاکرات کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ضروری نہیں کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت یا پاکستانی نمائندوں کا کوئی عمل دخل ہو ۔ بہتر یہی رہے گا کہ ان کے درمیان مذاکرات کا کوئی سلسلہ شروع ہو ‘ جس میں وہ بحث مباحثے کے ذریعے اپنے اپنے موقف کی روشنی میں کسی ایک خیال پر ڈھیلاڈھالا اتفاق کر لیں۔ اسی میں سے ایک اجتماعی ایجنڈا تلاش کیا جائے۔ مذاکرات کا سلسلہ اسی ایجنڈے اوراتفاق کی روشنی میں آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے طالبان کے مابین ہم خیالی یا اتفاق پیدا کرنے کی کوئی کوشش ہی شروع نہیں کی گئی۔طالبان کو مشورہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اپنے معاملات خود حل کر کے‘ وسیع پیمانے پر مذاکرات کا ایک مختصر ایجنڈا تیار کریں اور پھر اسی کی بنیاد پر آگے بڑھ کر ایک وسیع تر ایجنڈے کی طرف پیش رفت کی جائے‘ جس پر طالبان کے تمام گروہ اتفاق رائے کر سکیں۔ 
وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔ طالبان کی زندگی میں کوئی بہائو یا روانی نہیں ہے۔ وہ قبائلی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں‘ جہاں معاملات ایک ہی دائرے کے اندر گھومتے رہتے ہیں۔ ہم ان کا تصور نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہیں مشورہ دے سکتے ہیں۔بہتر یہی ہو گا کہ جو فارمولا وہ طے کریں‘ اس پر پہلے ان کی اجتماعی قیادت سے افغان حکومت مذاکرات کرے اور ایک ممکنہ ایجنڈا تیار کیا جائے اور پھر اس ایجنڈے پر دونوں فریقوں یعنی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوں‘ جن میں پاکستان کو بطور مبصر شریک کیا جائے۔ جسے صرف رائے دینے کا حق ہو‘ لیکن ایک فریق کی حیثیت سے وہ مذاکرات کا حصہ نہ بنے۔ ہم نے بارہا اس طرح کے مذاکرات اور سمجھوتوں کے انجام دیکھے ہیں۔ ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ طالبان کو اتفاق رائے کے کسی مرکز پر لا کر جمع کرنا ‘دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ وہ یکجا بھی ہوں گے‘ تو آخری مرحلے تک ایک دوسرے سے لڑتے بھی رہیں گے اور مفاہمت کی راہیں بھی تلاش کریں گے۔ قبائلی نظام کے تحت یہی طریقہ کار قابلِ عمل ہوتا ہے۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے‘ طویل جنگ اور برسوں پر محیط وقت کی وجہ سے بہت سے معاملات کے وہ ازخود کئی حل تلاش کر چکے ہوں گے۔ اب انہیں صرف یہ کرنا ہے کہ مذاکرات کے مقاصد ‘ باہمی سمجھوتے کے ذریعے متعین کر لئے جائیں اور پھر انہی مقاصد کی روشنی میں بات چیت کو آگے بڑھایا جائے۔ پاکستان چونکہ دونوں فریقوں کے مزاج کو سمجھتا ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کس گروپ کے کیا اہداف ہیں‘ اور مختلف گروپوں کے درمیان کتنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے‘ کن نکات پر وہ متفق ہو سکتے ہیں‘ اور کونسے ایسے مسائل ہیں ‘جن پر ان کا اتفاق رائے ممکن نہیں۔ قبائلیوں کے باہمی مذاکرات اور مفاہمت کی کوششیں اپنا ایک انداز رکھتی ہیں۔ ان سب کی مزاج شناسی کا دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا۔ ان کے تبادلہ خیال کے لئے صرف سہولت کاری ممکن ہے۔ 
صدر اشرف غنی کی حکومت اور پاکستان‘ دونوں کے لئے حامدکرزئی اور بھارت کا مسئلہ بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دونوں مذاکرات سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ کرزئی کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں جبکہ بھارت اپنی ایک علیحدہ حکمت عملی بھی رکھتا ہے اور اس کے مقاصد بھی جداگانہ ہیں۔ جب مذاکرات آگے بڑھیں گے‘ تو یہ دونوں عناصر بہت سے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ کرزئی نے طالبان کی صفوں میں اچھا خاصا اثرورسوخ پیدا کر رکھا ہے۔ کرزئی کے حامی تمام گروپ‘ بھارت کی طرف جھکائو رکھتے ہیں۔ وہ سمجھوتے کے بعد یا دوران مذاکرات‘ کسی بھی طرح کا ایسا سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے‘ جس میں بھارت اور کرزئی کا عمل دخل نہ ہو۔ قطر اور چین میں مذاکرات کی جو ابتدائی نشستیں ہوئی ہیں‘ ان کے نتائج زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ اسی لئے میں نے تجویز کیا ہے کہ پہلے طالبان کے باہمی مذاکرات کرائے جائیں۔ جن میں وہ آزادی سے اپنے اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار کریں اور پھر باہمی مفاہمت کی راہیں نکالیں۔ جب یہ وسیع تر مفاہمت ہو جائے‘ تو اس کے بعد ایک وسیع تر ایجنڈے پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے۔ اس مرحلے پر بھارت اور کرزئی کی مداخلت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں طاقتیں‘ طالبان کے مختلف گروہوں میں کافی اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور یہ کسی بھی مسئلے پر پیدا ہونے والی مفاہمت کو سبوتاژ کر سکتی ہیں۔طالبان کے درمیان مذاکرات کے ذریعے کوئی حل ڈھونڈنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ان کے لئے جنگ سے مسائل حل کرنا‘ بات چیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان ہے۔ قبائلی طرز کے یہ لوگ معاملات طے کرنے کے اپنے ہی طور طریقے رکھتے ہیں اور یہ انہی پر چل کر کوئی نہ کوئی مشترکہ حکمت عملی تلاش کر سکتے ہیں۔ایسا کرنے کے لئے انہیں مکمل آزادی ہونا چاہیے۔ کسی دوست یا خیرخواہ کی مداخلت کو یہ نہ صرف اچھا نہیں سمجھتے بلکہ اسے اپنی آزادی و خودمختاری میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔ فی الحال تو مذاکرات معطل ہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دوبارہ کب شروع ہوں؟ انہیں ممکن بنانے کے لئے افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو بڑے مشکل مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved