تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     02-08-2015

افغان بحران

افغان طالبان اپنے مرکزِ ثقل سے محروم ہو گئے۔ ملا عمر کی وفات کب اور کن حالات میں ہوئی ؟چند افراد کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ بھی کسی کو علم نہیں کہ ملا عمر طبعی موت مرے یا افغان رواج کے مطابق غلبے کی جنگ میں کھیت رہے۔جس معاشرے میںبزعمِ خویش روشن خیال‘ ترقی پسند اور انقلابی حکمرانوں نور محمد ترکئی‘ حفیظ اللہ امین اور ببرک کارمل کو بھی طبعی موت نصیب نہ ہوئی وہاں طاقتور اور خونخوار مخالفین میں گھرے کسی دوسرے شخص کے بارے میں خوش گمانی کی گنجائش کہاں؟
کراچی کے کسی ہسپتال میں البتہ زندگی کے آخری ایّام گزارنے کی اطلاع افسانہ ہے۔ کراچی کا کوئی ہسپتال کیا‘ کوئی محلہ بھی امریکہ کو مطلوب عالمی شہرت یافتہ شخص کی پناہ گاہ نہیں ہو سکتا۔ کراچی پاکستان کے شہروں میں سے ایک ہے جہاں امریکہ‘ بھارت اور برطانیہ نے ہیومن انٹیلی جنس پرسب سے زیادہ سرمایہ کاری کی‘ ان ممالک کے وظیفہ خوار ہر جگہ موجود اور اپنا فرض ادا کرنے میں مستعد۔ ملا عمر‘ تیمار دار اور محافظ مخبروں سے اوجھل رہیں؟ مشکل بلکہ ناممکن ہے مگر پاکستان مخالف بھارتی اور افغان انٹیلی جنس کو افسانہ طرازی سے کون روک سکتا ہے ع
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
ملا عمر اور جلال الدین حقانی کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملنے کا انکشاف عین اس وقت کیا گیا جب پاکستان کی کوششوں سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک دور کامیاب اور دوسرا دور ہونے والا تھا۔ ملا عمر اور جلال الدین حقانی وفات کے انکشاف کے لیے جولائی کے آخری ہفتے کا انتظار کیوں کیا گیا اور اس بریکنگ نیوز کو اب تک چھپایا کیوں گیا؟ یہ اہم سوال ہے۔ ملا عمر اور حقانی کی موت کو ایک دو سال تک چھپانے والے اسے مزید ایک ڈیڑھ ہفتہ راز کیوں نہ رکھ سکے؟وغیرہ وغیرہ۔
امکان یہ ہے کہ افغان حکومت سے مری میں مذاکرات کرنے والے طالبان وفد کے کسی رکن نے پاکستانی حکام کو اعتمادمیں لیا کہ امریکہ کی طرف سے مطلوب افراد کی لسٹ پر نظرثانی کے بعد ملا عمر کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ شدومد سے کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اب اس دنیا میں موجود ہی نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عیدالفطر کے موقع پر ملا عمر کے مبینہ آڈیو بیان پر امریکی شک و شبہ نے باخبر پاکستانی یا افغان حکام کو اصل صورت حال سے پردہ اٹھانے پر مجبور کیا ہو اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ مذاکرات کی کامیابی سے پریشان حلقوں نے موقع غنیمت جانا تاکہ طالبان دھڑے بندی کو ہوا ملے اور مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکے۔ افغانستان میں قیام امن اور طالبان واشرف غنی حکومت کا ملاپ بہت سی قوتوں کو گوارا نہیں۔
اگر ملا عمر واقعی دو سال اور جلال الدین حقانی ایک سال قبل اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور افغان طالبان پھر بھی متحد رہے‘ بلکہ گزشتہ ایک سال کے دوران ان کی کارروائیوںمیں مزید شدت پیدا ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملا عمر کا تشکیل کردہ شورائی و امارتی ڈھانچہ فعال‘ مضبوط اورمستحکم ہے۔ مقامی کمانڈروں کے مابین رابطوں کا نظام اس قدر موثر ہے کہ اسے بالائی رہنمائی اور روز مرہ کارروائیوں میں منظوری کی ضرورت نہیں۔ طالبان نے یہ بھی ثابت کیا کہ رازداری کے باب میں ان کا کوئی ثانی نہیں اور دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور اربوں ڈالر کی لاگت سے تربیت یافتہ ہیومن انٹیلی جنس بھی ان کے اندرونی معاملات کا پتہ چلانے کی صلاحیت سے محروم ہے۔
ایک سازشی تھیوری یہ بھی ہے کہ پاکستان کی پرائم ایجنسی نے اپنی ضرورتوں کے تحت جب تک مناسب سمجھا ملا عمر کو زندہ رکھا اور افغان طالبان کو شوریٰ کے نظم میں پرو کر انہیں محاذ جنگ پر داد شجاعت دینے کا موقع فراہم کیا مگر جب بعض طالبان کمانڈروں کی طرف سے امن و مفاہمت اور مذاکرات کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش ہوئی تو ملا عمر کی وفات کی خبر افغان انٹیلی جنس کے ذریعے لیک کر کے ملا اختر منصور کو آگے کر دیا کیونکہ وہ طالبان میں سب سے زیادہ طاقتور، موثر اور پیش آمدہ حالات میں مفید ہیں۔ اب شائد زندہ ملا عمر اور جلال الدین حقانی کی ضرورت نہیں رہی۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق ملا اختر منصور کے انتخاب کے مرحلہ پر ملا عبدالقیوم ذاکر نے جو طالبان حلقوں میں انتہائی قابل احترام اور طاقتور تصور کئے جاتے ہیں‘ ملا اختر منصور کے بجائے ملا عمر کے صاحبزادے مولوی یعقوب کی امارت پر اصرار کیا اور مذاکرات کے حوالے سے ان کے کردار پر بھی زبردست تنقید کی مگر ملاّ حسن اخوند‘ اور کوئٹہ شوریٰ کے مبینہ سربراہ ملا ہیبت اللہ کی جانب سے حمایت کے سبب فیصلہ ملا اختر منصور کے حق میں ہوا جبکہ ملا حسن اخوند نے ملا اختر منصور کے ہاتھ پر سب سے پہلے بیعت کی اور ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق انہیں امیر المومنین کا خطاب بھی دیا۔
طالبان شوریٰ کے کئی ارکان اگرچہ اب بھی اختر منصور کے مخالف ہیں جن میں سرفہرست مری مذاکرات میں شریک قندھار کے سابق گورنر ملا حسن رحمانی‘ ملا عبدالرئوف‘ ملا عبدالرزاق ہیں جبکہ ملا عمر کے بھائی عبدالمنان‘ صاحبزادے محمد یعقوب‘ ملا داد اللہ منصور اور ملا نجیب اللہ شوریٰ کے رکن نہیں ۔ یہی دھڑا اختر منصور کی مخالفت کی اطلاعات میڈیا میں اجاگر کر رہا ہے۔ توقع یہ کی جا رہی ہے کہ ملا عبدالرزاق اور مولوی عبداللطیف جلد ہی اختر منصور کی بیعت کر لیں گے کیونکہ یہ دونوں اپنا نام ان رہنمائوں کی صف میں نہیں لکھوانا چاہتے جنہیں کسی دوسرے ملک سے رابطوں کی بنا پر مشکوک اور ملاعمر سے منحرف سمجھا جاتا رہا ہے۔ سراج الدین حقانی اور ملا ہیبت اللہ کی صورت میں اختر منصور کو جو نائب ملے ہیں وہ بھی اپنی جاندار شخصیت اور اثرورسوخ کی بنا پر طالبان میں بڑی تقسیم نہیں ہونے دیں گے؛ تاہم فیلڈ کمانڈروں کا موڈ کیا ہے اور لڑائی جاری رکھنے کی صورت میں داعش مالی وسائل فراہم کرنے کی جوپیشکش کر رہی ہے وہ طالبان شوریٰ کے اہم ارکان اور فیلڈ کمانڈروں پر کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے ؟اس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
ملا عمر کے انداز فکر اور طریق سیاست و حکمرانی سے اختلاف اور بشری کمزوریوں اور سیاسی غلطیوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے مجاہدانہ‘ درویشانہ اور دلیرانہ زندگی بسر کی۔ پختون ولی اور مسلم روایت کے مطابق ایفائے عہد کی قابل رشک مثال قائم کر کے اقتدار کو تج دیا۔ اصولوں کے بجائے ہر معاملے کو نفع و نقصان کی کسوٹی پر پرکھنے والے عملیت پسندوں کے طعنے سنے‘ امریکہ کو للکارنے پر ہوچی منہ‘ چی گویرا ‘ فیڈل کاسترو اور ہوگو شاویز کے قصیدے پڑھنے والوں نے انہیں بخشا‘ نہ جدید دور میں خوئے غلامی‘ لوٹ مار‘ ظلم واستبداد اور نمود و نمائش کے عادی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ہجوگو ان کے طرز حکمرانی سے مطمئن ہوئے ۔افغان عوام نے البتہ حقیقی امن‘ انصاف اور مساوات کا مشاہدہ طالبانی دور میں کیا۔ اس سے پہلے نہ بعد۔
یو این رپورٹ کے مطابق اسی دور میں پوست کی کاشت سو فیصد ختم ہوئی اور کابل کے بازاروں میں سونے کے علاوہ ڈالر‘ پونڈ ‘ دینار اور ریال کے تبادلے کا کاروبار کرنے والوں کو چوری‘ ڈاکے کا خوف تھا‘ نہ کسی دوشیزہ کو راہ چلتے لفنگے ‘ بدمعاش کی فقرے بازی اور چھیڑ چھاڑ کا ڈر۔ گراں فروشی‘ ذخیرہ اندوزی اور منشیات فروشی سنگین جرم۔ چار درجن ممالک کی فوجی قوت و مالی کمک کے ساتھ امریکہ طالبان کو زیر کر سکا نہ افغانستان پر قبضہ مستحکم۔ ملا عمر کی قیادت میں افغان عوام کی مزاحمت کے سبب برطانیہ اور سوویت یونین کی طرح امریکہ کو بھی افغانستان سے ناکام و نامراد پسپا ہونا پڑا اور وہ مذاکرات کی کامیابی کا خواہاں ہے۔
ملا اختر منصور اگر طالبان کو متحد رکھنے میں کامیاب رہے اور اپنے دانا دشمنوں کے علاوہ نادان دوستوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار نہ ہوئے تو مری مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں پائیدار امن کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کر کے اپنے مخالف رہنمائوں اور کمانڈروں کے دل جیتنے کی کوشش کی‘ خاص طور پر ان کمانڈروں کے‘ جو مذاکرات کو امریکہ اور پاکستان کی طرف سے بچھایا ہوا جال اور جہاد افغانستان کے ثمرات کو ضائع کرنے کی چال سمجھتے ہیں۔
داعش نے شرق اوسط میں امریکہ اور اس کے ہمنوا رہنمائوں کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں۔ اگر امریکہ‘ پاکستان اور افغان حکومت نے طالبان سے پائیدار مفاہمت میں تاخیر کی اور ملا عمر کے علاوہ جلال الدین حقانی کی وفات کو طالبان میں پھوٹ ڈالنے کا سنہری موقع جانا تو داعش کو افغانستان میں گھسنے اور ایک نئی طرز کی عسکریت پسندی شروع کرنے کا موقع مل سکتا ہے جس کے منفی اثرات لازماً پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ بہتر یہی ہے کہ پاکستان طالبان کے کسی ایک دھڑے سے اپنے آپ کو منسلک کرنے کی سابقہ غلطی کا اعادہ نہ کرے۔ یہ اپنی اور دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا بہترین موقع ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved