اس بات کی تصدیق کی جا چکی ہے کہ ملا محمدعمر اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ دو برس پہلے جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے، لیکن ان کی وفات کی خبر کو خفیہ رکھا گیا۔ ان کے نائب ملا اختر منصور اور ان کے تین چار معتمدین کے علاوہ کسی کو اس کی خبر نہیں ہونے دی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں انتہائی خاموشی کے ساتھ اور عین ممکن ہے رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا ہو۔جس شخص کے ہاتھ پر ہزاروں علمائے کرام اور لاکھوں عوام نے اطاعت کی بیعت کی تھی اور 1994ء میں افغانستان کا باقاعدہ امیر المومنین قرار دیا تھا، اس کے جنازے میں گنتی کے افراد شریک ہوئے اور اسے انتہائی خاموشی (یا رازداری) کے ساتھ قبر میں اتار دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ شوگر کے مریض تھے اور انہیں بے ہوشی کے دورے بھی پڑتے تھے، ان کی موت انہی امراض کے ہاتھوں ہوئی۔ ان کی وفات کو کسی حادثے یا سازش کا نتیجہ قرار دینے والے بھی موجود ہیں اور انہیں شہید کے طور پر یاد کررہے ہیں۔ ان کے بیٹے ملا یعقوب (اور ان کی تین بیویوں) سے بھی معاملہ اوجھل رہا تھا، اس لئے ان کے حوالے سے اضطراب انگیز اطلاعات آئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مصدقہ اطلاعات ان کو فراہم کی جائیں۔ ملا مرحوم کی چاربیویاں تھیں اور غالب امکان یہی ہے کہ ایک ان کے ساتھ رہ رہی ہوگی اور اسے بھی ان کے آخری ایام کی تفصیل سے آگاہی ہوگی۔ مرحوم کے جانشین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ان کی وفات پاکستان کے کسی ہسپتال میں نہیں ہوئی، افغانستان ہی میں انہوں نے آخری سانس لیا اور یہیں کی مٹی اوڑھ لی۔ کراچی کے آغا خان ہسپتال کی طرف سے باقاعدہ اعلامیہ جاری کرکے تردید کی گئی ہے کہ ملا محمد عمر وہاں زیر علاج رہے تھے، جبکہ بعض غیر ملکی ذرائع یہ گرد اڑا رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ یہ بحث ایسی ہے جو طالبان کی اندرونی سیاست پر تو کسی نہ کسی حد تک اثر انداز ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں کسی کی طاقت کم یا زیادہ ہو سکتی ہے ، لیکن ملا محمد عمر اس سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ وہ وہاں پہنچ گئے، جہاں ان کے جانشینوں کو بھی ایک دن پہنچ جانا اور اپنی کارگزاریوں کا حساب دینا ہے۔ وہاں کوئی پریس ریلیز کام آئے گی نہ کسی آڈیو کیسٹ سے دھوکہ دیا جا سکے گا۔ ہر شخص کا باطن اس کے ظاہر کی طرح واضح ہو چکا ہوگا اور اس کے ساتھ دو دو ہاتھ کر گزرے گا۔
ہمارے ہاں افغان امور کے ایسے ماہرین موجود ہیں جو اپنی ہر بات کو پتھر کی لکیر قرار دیتے اور حالات کی ایک ایک کروٹ سے آگاہی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں کیا، دنیا بھر میں افغانستان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ اس کے باوجود وہ اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکے کہ ملا عمر کے نام پر ملا اختر منصور کا سکہ چل رہا ہے۔ ... یہ خبر ایک خاص لمحے میں سامنے لائی گئی اور اندازہ یہی ہے کہ طالبان سے اشرف غنی حکومت کے مذاکرات کو صدمہ پہنچانے کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا۔ بی بی سی نے اسے افغان انٹیلی جنس کے ذرائع سے نشر کیا، لیکن ظاہر ہے افغان انٹیلی جنس کو بھی کسی ذریعے سے پہنچی ہوگی اور یہ ذریعہ ان چند افراد کے قریب تر ہوگا جن کے پاس یہ راز محفوظ تھا۔ اس کا یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا (یا نکل سکتا) ہے کہ طالبان کی ہائی کمان میں مذاکرات کی مخالفت موجود ہے اور ملا اختر منصور کے اردگرد افراد بھی سب کے سب یکسو نہیں ہیں۔ افغان انٹیلی جنس اور اسٹیبلشمنٹ میں تو پاکستان مخالف عناصر کی کمی ہے نہیں ، اشرف غنی بھی ان کی نگاہ میں کھٹکتے ہیں، اس لئے انہوں نے اپنے طور پر یا اپنے سرپرستوں سے مشاورت کے بعد اسے عام کر دیا۔ یوں مذاکرات کی جو میز سجی ہوئی تھی اسے سمٹنا پڑا۔ مذاکراتی طالبان جس نئی صورت حال سے دوچار ہو گئے تھے، اس کے بعد ان کے لئے اپنی صفوں کو نئے سرے سے مرتب کرنا ضروری تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملا عمر کی طرف سے مذاکرات کے حق میں تائیدی بیان بھی چند روز پہلے منظر عام پر آیا تھا۔ ان کی قائدانہ حیثیت مسلم تھی اور امیر المومنین کے طور پر طالبان کے کسی حلقے کو اس کے سامنے چون و چرا کی ہمت نہ ہو سکتی تھی، اس لئے سوچا یہ گیا ہو گا کہ مذاکراتی عمل کو کسی فیصلہ کن مرحلے تک پہنچانے کے بعد ملا عمر کے جانشین باقاعدہ طور پر یہ منصب سنبھال لیں گے۔ پاکستان کے حساس ادارے بھی اس حکمت عملی کے موید (یا محرک) ہوں گے لیکن حالات کا رخ دوسرا ہوگیا۔
آنے والے دِنوں میں واضح ہو گا کہ ملا اختر منصور اور ان کے ڈپٹی سراج الدین حقانی سرکش گھوڑے پر کس طرح کاٹھی ڈالتے ہیں۔ افغان جہاد کے عظیم کمانڈر(اور سراج الدین کے والد) جلال الدین حقانی کے ایک برس پہلے دُنیا سے رخصت ہو جانے کا راز بھی فاش کر دیا گیا ہے، گویا نئے رہنما اپنے بزرگوں کی اوٹ میں نہیں کھیل سکتے، انہیں اپنے دست و بازو پر انحصار کرنا ہو گا۔ پاکستان اور افغانستان کے امید پرستوں کی نظریں ان پر لگی رہیں گی۔
ملا محمد عمر مجاہد نہ تو افغان جہاد کے کوئی بڑے کمانڈر تھے ، نہ کوئی بہت ممتاز عالم دین۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے باقاعدہ تعلیم کہاں سے اور کہاں تک حاصل کی تھی۔ مولانا سمیع الحق کے دعوے کے مطابق چند اسباق دارالعلوم حقانیہ میں پڑھے تھے، لیکن وہاں سے باقاعدہ سند حاصل نہیں کی۔ ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مولانا سمیع الحق نے انہیں دارالعلوم کے جلسہ تقسیم اسناد میں درس نظامی کی اعزازی ڈگری مرحمت فرمائی، جو پشاور میں افغان قونصل جنرل اور افغان کابینہ کے ایک رکن نے ملا محمد عمر کی طرف سے وصول کی تھی۔ اس تقریب کی تفصیل اور تصویر مولانا سمیع الحق کی ایک کتاب میں شائع ہو چکی ہے۔ افغان مجاہدین نے جب سوویت فوجوں کے دانت کھٹے کر کے اُنہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا، تو عام خیال یہی تھا کہ اب افغانستان ایک مستحکم اسلامی ریاست کے طور پر اُبھرے گا، لیکن آپس کی لڑائیوں نے اس امید پر پانی پھیر دیا۔ ملا محمد عمر اور ان کے نوجوان رفقا (طالب علموں یعنی طالبان) سے یہ صورتِ حال برداشت نہ ہو پائی، انہوں نے آگے بڑھ کر ''بزرگوں‘‘ کو پیچھے دھکیل دیا اور ان کی حرکتوں سے نالاں عوام اس پر سجدہ شکر بجا لائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک موثر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بعدازاں اپنے مرّبی اور مہمان اسامہ بن لادن کی حرکات و سکنات نے انہیں آزمائش سے دوچار کر دیا۔ نیویارک میں ٹریڈ سنٹر پر حملے کی ذمہ داری اسامہ پرڈالی گئی تو سیکیورٹی کونسل نے اسے انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو افغانستان پر حملے کی اجازت دے دی۔ ملا عمر اُس وقت اگر حکمت سے کام لیتے تو حالات کا رخ بدلا جا سکتا تھا۔ انہوں نے حکمت کو بے اصولی قرار دے کر اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ سوویت یونین کے خلاف جدوجہد میں تو ان کا کردار پچھلی صفوں میں دادِ شجاعت دینے والے کا تھا،لیکن امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف و ہ اپنی سپاہ کے ''سپریم کمانڈر‘‘ تھے۔ ان کی اِس مزاحمت کے بارے میںمختلف نقطہ ہائے نظر کا اظہار کیا جاتا رہے گا۔ وہ جو بھی تھے،افغانستان کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو گی۔ عصری اور دینی علوم پر اُن کی نظر ہوتی، تو آج افغانستان ہی نہیں، اس پورے خطے کا منظر مختلف ہوتا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان ‘‘میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)