تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-08-2015

اللہ کا کنبہ

افغانستان کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے؟ عام آدمی کی پامالی۔ فرمان یہ ہے: اللہ کی مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ خلقِ خدا کو ناشاد کر کے شاد کون رہ سکتا ہے۔ 
طالبان کے نئے امیر کا ارشاد یہ ہے: اسلامی نظام کے قیام تک جدوجہد جاری رہے گی۔ بجا ارشاد، مگر یہ فرمائیے کہ قیامِ امن کے بغیر آپ یہ عظیم مقصد کس طرح حاصل کر پائیں گے؟ امید کی کوئی کرن ہے تو مذاکرات۔ بات چیت چلتی رہی تو کوئی حل سامنے آ سکتا ہے۔ بالآخر ایک اتفاقِ رائے کہ افغان عوام کی امنگوں کے مطابق ترجیحات طے کی جائیں۔ عام آدمی امن کی زندگی گزار سکے۔ اس کے بچے تعلیم پائیں۔ اس کے بیمار ہسپتالوں میں علاج کی سہولت سے بہرہ ور ہو سکیں اور اس کے محنت کش رزقِ طیب سے آسودہ ہوں۔ 
متوازی طور پر کشمکش کے دو عدد دائرے ہیں۔ ایک طرف اندرونی قوتیں ہیں، جو ایک دوسرے سے الجھی رہتی ہیں۔ ثانیاً وہ ممالک، جن میں سے بعض اس کے پڑوسی ہیں اور بعض پڑوسی بننے پر مصر ہیں، مداخلت کار۔ 
امن ظاہر شاہ کے دور تک رہا۔ تب روسیوں نے سوشلزم نافذ کرنے کا خواب دیکھا۔ ایک قبائلی معاشرے میں سوشلزم! جنگ کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔ سردار دائود کو بجا طور پر ''لوِنّا ‘‘کہا گیا، ایک دیوانہ سردار۔ روسیوں کی مدد سے اس نے بادشاہت کو اکھاڑ پھینکا۔ رسّی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، جو افغان اتحاد کی ضامن تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سلجھانے کی کوشش کی مگر کریملن نے ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے نہ دیا۔ ساڑھے تین سو سال سے اپنی سلطنت کو توسیع دیتے ہوئے، وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کو ہڑپ کر لینے والے روسی قوم پرست گرم پانیوں کے آرزومند تھے۔
شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو، جب پاکستانی میڈیا میں اس موضوع پر معلومات کے دریا نہ بہائے جاتے ہوں، فکرونظر کے موتی نہ لٹائے جاتے ہوں‘ کسی کو مگر یاد ہی نہیں کہ روسی یلغار نے اس دیار کے ساتھ کیا کیا؟ ہزاروں سال سے آباد چلے آتے، دیہات تباہ کر دیے گئے۔ تیرہ لاکھ افغان قتل اور تیرہ لاکھ اپاہج کر دیے گئے۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں سے 80 لاکھ کو ہجرت کرنا پڑی۔ اکثر نے پاکستان کا رخ کیا۔ تقریباً پندرہ لاکھ ایران میں داخل ہو گئے۔ ایک بہت بڑی تعداد نے کابل سمیت ان شہروں کی طرف ہجرت کی، جو بمباری سے محفوظ تھے۔ 
افغانستان کی کبھی کوئی مرتّب معیشت نہ تھی۔ صنعت تو رہی ایک طرف، زراعت کا حال یہ تھا کہ دریائوں کا پانی پڑوسی ممالک استعمال کرتے۔ نہریں تک نہ کھودی گئیں۔ انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ حکمران رعایا سے لاتعلق اور رعایا حکمرانوں سے۔ چند شہروں کے سوا حکومت کا وجود شاید ہی نظر آتا۔ قبائل کو ان کے رسم و رواج اور سرداروں پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ تعلیم کو فروغ دینے کی کبھی کوشش نہ کی گئی۔ خراسان کی یہ سرزمین کبھی ایران کا حصہ رہی، کبھی وسطی ایشیا سے اٹھنے والے فاتحین غالب آ جاتے؛ تاآنکہ احمد شاہ ابدالی نے تسخیر کی اور افغانستان کا نام دیا۔ 
روسی فوج کی مداخلت کے ساتھ ہی وہ بندوبست تمام ہو گیا جو اڑھائی سو سال سے چلا آتا تھا۔ جولائی 1992ء میں کابل جانے کا موقعہ ملا تو واپسی پر عرض کیا کہ آبادی اور علاقوں کے درمیان برپا عمرانی معاہدہ ختم ہو چکا۔ ایک نئے سمجھوتے کی ضرورت ہے اور دور دور تک اس کے آثار نہیں۔ 
افغان مجاہدین کی چھوٹی بڑی سات تنظیموں میں چار نکات پر اتفاق رائے تھا۔ صدارتی نظام، شرعی قوانین، چھوٹی سی فوج اور غیر ملکی قرضوں سے گریز۔ بدقسمتی یہ تھی کہ قبائلی وحشت کے ساتھ وہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تلے تھے۔ کسی ایک کو بھی احساس نہ تھا کہ اس طرزِ عمل کے ساتھ وہ اپنے وطن کو تباہ کر ڈالیں گے۔ پیہم خانہ جنگی کے بعد ملّا عمر کی قیادت میں طالبان ابھرے۔ وقتی طور پر امن قائم ہو گیا‘ لیکن وہ ادراک نہ کر سکے کہ بیسویں صدی میں ساری دنیا سے کٹ کر کوئی نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی ملک چلایا جا سکتا ہے۔ پشتونوں، ازبکوں، تاجکوں اور ترکمانوں، شیعہ اور سنی آبادی میں کشمکش تھی اور غیر ملکیوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ پاکستان، ایران، بھارت، روس اور امریکہ مختلف دھڑوں کی حمایت اور امداد کرتے رہے۔ نتیجہ ایک بے کراں خانہ جنگی کی صورت میں نمودار ہوا، جو اب تک جاری ہے۔ زندہ رہنے کے لیے قوموں کو ایک کم از کم اتفاقِ رائے درکار ہوتا ہے۔ مزاجوں میں ہیجان تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ باہمی تصادم نے افغانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا یا غیر ملکی مداخلت نے۔ کسی لیڈر اور نظام پر وہ متفق بہرحال کبھی نہ تھے۔ ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کو موقعہ ملا کہ وہ ازبکوں، تاجکوں، ترکمانوں اور ہزارہ قبائل کے ساتھ مکالمے کی راہ ہموار کرتے۔ بالکل برعکس مذہبی مدارس کے تعلیم یافتہ لیڈروں نے ان سب کو روند ڈالنے کی کوشش کی۔ بر سبیلِ تذکرہ جو سوشل میڈیا ملّا عمر کے سوگ میں ہلکان ہو رہا ہے، وہ شمالی وزیرستان آپریشن کا سخت ترین مخالف بھی تھا۔ طالبان کے طرزِ عمل کا نتیجہ امریکی مداخلت کی صورت میں برآمد ہوا۔ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد جو اپنا جھنڈا گاڑنے کا آرزومند تھا۔ غلبے کی قدیم انسانی جبلّت کی حشر سامانیوں کے علاوہ افغان مزاج کی ایک اور خرابی کو اس میں دخل تھا۔ اسلام آباد میں مقیم ایک معروف پشتون اخبار نویس نے ان الفاظ میں جسے بیان کیا تھا: وہ ٹینک کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں مگر ڈالر کے مقابل نہیں ؎
ایشیا کو ابھی معلوم نہیں ہے شاید 
بھوک پھیلے تو غلامی کی بلا آتی ہے 
افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا، جب تک اس کے لیڈروں اور دانشوروں میں ایک نظام پر متفق ہونے کی آرزو جنم نہیں لیتی۔ جب تک افغانستان کے راستے وسطی ایشیا سے حصہ بٹورنے کے آرزومند ممالک کو ادراک نہیں ہوتا کہ امن کے بغیر کسی کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ انکل سام افغانستان میں ایک ہزار بلین ڈالر برباد کرنے کے بعد شرمسار ہے۔ ایرانی حکومت اپنے حامی قبائل پر کم از کم سات ارب ڈالر لٹا چکی۔ بھارتیوں نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری افغانستان میں کی اور زخم چاٹ رہے ہیں۔ پاکستان کئی عشروں کے بعد سمجھ سکا کہ جب تک خود افغان قیادت بروئے کار نہ آئے گی، خون بہتا رہے گا۔
خواہی نخواہی، ہم افغانستان میں مداخلت کے مرتکب ہوئے اور ہم نے قیمت ادا کی۔ مساجد، مارکیٹوں اور مزارات میں بے گناہوں کے چیتھڑے اڑانے والے پاکستانی طالبان کبھی نمودار نہ ہوتے، اگر ہم نے شہریوں کو مسلّح کرنے کی غلطی کا ارتکاب نہ کیا ہوتا۔ افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کی آرزو میں، خود اپنا وطن ہم نے تباہ کر لیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بالآخر پاکستان میں قیامِ امن کے امکانات ہیں اور بالآخر افغانستان میں بامعنی مذاکرات کی امید بھی۔ ایک ایک قدم ہمیں احتیاط سے اٹھانا چاہیے۔ اپنی اعلان کردہ پالیسی کے مطابق کسی فریق کی حمایت یا مخالفت سے گریز کرنا چاہیے۔ پاک افغان سرحد 2460 کلومیٹر کو محیط ہے۔ ایک ہزار برس سے ہماری تاریخ مشترک ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ عارضی کامیابیوں کی بجائے دیرپا مفاد پر ہمیں نظر رکھنی چاہیے۔ سب سے بڑا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اس سرزمین کو قرار اور سکون عطا ہو۔ لوگوں کا، بے بس عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا خون بہا کر اس مقصد کا حصول ممکن نہیں۔ 
افغانستان کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے؟ عام آدمی کی پامالی۔ فرمان یہ ہے: اللہ کی مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ خلقِ خدا کو ناشاد کر کے شاد کون رہ سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved