داعش کے خلاف جنگ میں ترکی کی شمولیت نے امریکی قیادت میں بننے والے کولیشن کو ایک طرف تو مضبوط کردیا مگر دوسری طرف کرد علیحدگی پسند گروہ ،PKK، کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے کمزورکردیا۔واشنگٹن کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت اتحادی فوج کے جنگی طیاروں کو جنوبی ترکی کے فضائی ٹھکانے، انکرلیک، سے پرواز کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس سے پہلے اُنہیں اپنے خلیج میں واقع ٹھکانوں یا سمندر میں تیرتے ہوئے جہازوںسے فضائی حملے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار تھا، لیکن اب اُن کا فلائنگ ٹائم کم ہو جائے گا۔
اس سہولت کو فراہم کرنے کے عوض ترکی کو یہ فائدہ پہنچے گا کہ اس کی سرحد کے نزدیک ساٹھ میل طویل ''داعش فری زون‘‘ قائم کیا جائے گا۔ بظاہر تو یہ زون شامی پناہ گزینوں کے لیے ہوگا جو اپنے جنگ زدہ علاقوںسے جان بچانے کے لیے فرار ہورہے ہیں، لیکن دراصل ترکی عراق جیسی کرد ریاست کی تخلیق کوروکنا چاہتا ہے۔ عراق میں PKK کے ٹھکانوں پر حملے کرتے ہوئے طیب اردوان نے اُس امن کے عمل کو نہایت موثر طریقے سے دفن کردیا جسے اُنھوں نے دوسال پہلے آگے بڑھایا تھا۔ شمالی عراق میں ترکی کے حملوں کے بعد، جیساکہ دکھائی دے رہاتھا، PKK نے فوج اور پولیس پر متعدد حملے کیے۔ اس کے رد ِعمل کے طور پرPKK اور ترکی میں داعش کے حامیوں کے علاوہ حکومت مخالف افراد کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے۔ داعش کی ویب سائٹس، جو کئی سالوں سے فعال تھیں، کو بند جبکہ جہادی نیٹ ورک، جو ریکروٹس کو بہت آسانی سے ترکی کی سرحد پار کرکے داعش کی صفوں میں شامل ہونے کی اجازت دے دیتا تھا، کو غیر فعا ل کردیا گیا ۔ فی الحال کرد جنگجو داعش کے خلاف سب سے موثر قوت ثابت ہوئے ہیں، ا س لیے مغرب نے ترکی کے PKK پر حملوں کو افسوس ناک قرار دیا، تاہم اردوان نے اسی قیمت پر نیٹو کے طیاروںکو ترکی کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ترکی نے بیک وقت دومحاذکیوں کھول دیے ؟PKK اور داعش ، دونوںترکی کے اندر کارروائی کرتے ہوئے اسے شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ شامی سرحد کے نزدیک قصبے، سورک(Suruc)،پر خود کش حملے سے پہلے داعش کے جہادیوں کے ترک انٹیلی جنس ایجنسی سے نرم تعلقات تھے، لیکن اب، ترکی کی طرف سے کارروائیوں کے بعد، وہ ایک دوسرے کے خلاف وحشیانہ طاقت استعمال کرتے دکھائی دیں گے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق PKK اور داعش کے خلاف بیک وقت جنگ کرنے کے فیصلے پیچھے ترکی کے داخلی سیاسی محرکات کارفرما ہیں۔ حالیہ عام انتخابات میں اردوان کی AK جماعت کو ایک عشرے کے بعد پہلی مرتبہ دھچکا لگا جب وہ واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پہلی مرتبہ کرد پارٹی HDP نے دس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں اپنی جگہ بنالی۔ اگر اب PKK نے پھر ترکی کے خلاف گوریلا جنگ کا راستہ اپنایا تو حکومت HDP کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ انتہائی دائیں اور بائیں بازو کے
گروہوں کوبھی داعش کی طرح کے پرتشدد گروہ بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے تاکہ اُن کے خلاف کارروائی کا جواز نکل سکے۔
اس طرح اردوان خود کو ہر طرح کے انتہاپسندوں کے خلاف واحد مزاحم رہنما کے طور پر پیش کرکے ترکی کانجات دہندہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہوں گے۔ ترکی میںچونکہ ابھی تک کوئی کولیشن قائم نہیں ہوا، اس لیے اردوان کے پاس اختیار ہے کہ وہ ضروری پیریڈ گزارنے کے بعد تازہ انتخابات کی طرف جاسکتے ہیں۔ اس کی AKP پارٹی نے وقت ضائع کیے بغیر متوقع شراکت داروں کے ساتھ مذاکرات کرنے شروع کردیے ہیں۔ دوبارہ انتخابات ہونے کی صورت میں AKP اکثریتی جماعت بن کر ابھرسکتی ہے، خاص طور پر اُس وقت جب HDP دس فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکے۔ اس صورت میں اس کے ووٹ تقسیم ہوکر AKP کومل جائیں گے۔
یہ صورت حال فی الحال مفروضہ ہی ہے ، لیکن حکومت مخالف صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس امکان کے پیچھے کچھ نہ کچھ ٹھوس عوامل موجود ہیں۔ اس میں سے سب سے واضح معروضہ ترکی کا ایک صدی پرانا کرد مسئلہ ہے۔ پہلی جنگ ِعظیم کے اختتام پر سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد Treaty of Versailles میں کردوں کی الگ ریاست کا ذکر موجودتھا، لیکن اس کی توثیق نہیں کی گئی۔اس دوران گاہے گاہے کردستان کے لیے آوازیں بلند ہوتی رہتی رہیں تو کچھ گروہ اس کے لیے عسکری جدوجہد کا راستہ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران، ترکی، شام اور عراق میں موجود کرد آبادی کے ساتھ ان ریاستوں سے نارواسلوک برتا۔ بعض اوقات انہیں کسی مفاد کے لیے استعمال بھی کیا گیا اور پھر ان کی سرکوبی بھی کی گئی۔ صدام حسین نے زہریلی گیس سے ہزاروں کردوں کو ہلاک کیا۔ ترکی میں اُنہیں سکولوں میں اور ریڈیو اور ٹی وی پراپنی زبان استعمال کرنے کی اجازت نہیں ۔ اُنہیں ''پہاڑی ترک‘‘ قراردیا گیا تاکہ وہ اپنی الگ نسلی شناخت کی بنیاد پرریاست کا مطالبہ نہ کرسکیں۔
تاہم جب 2003 ء میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو کردوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق کے شمال میں اپنی خود مختار ریاست قائم کرلی۔ اس نیم خود مختار ریاست میں کردوں نے ترقی کی اور خوشحالی کی طرف قدم رکھا۔ اس ترقی کی بنیاد پر اُنھوں نے اتنی طاقت حاصل کرلی کہ اب وہ داعش کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی عسکری قوت کی وجہ سے عیسائیوںاور یزیدی قبائل کو پناہ فراہم کرتے ہوئے داعش کے ظلم و ستم سے بچایا۔ شام میں ہونے والی خانہ جنگی نے کردوں کو ایسا ہی موقع فراہم کیا اور اُنھوں نے YPG کے تحت ایک الگ ریاست قائم کرلی۔ یہ گروہ PKK ک ساتھ وابستگی رکھتا ہے۔ جب داعش نے کوبانی کے سرحدی قصبے کا محاصرہ کیاتو یہ کردوں کے مسلح مرداور خواتین کے دستے تھے جنھوں نے صفیں بنا کر انتہاپسندوں کا مقابلہ کیا اور امریکی فضائی حملوں کی مدد سے داعش کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب رہے۔ اس دوران ترکی اپنے کردوں کو شامی کردوں کی مدد کے لیے آنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھا لیکن عالمی دبائو کی وجہ سے اسے چاروناچار ایسا کرنا پڑا۔ ترک اسٹیبلشمنٹ کی اس تمام پیش رفت پر نظر ہے کہ کس طرح ہمسایہ ممالک ، عراق اور شام، میں کردوںکی دو نیم خود مختار ریاستیں قائم ہوگئیں۔ اس پر مستزاد، حالیہ انتخابات میں HDP کی کارکردگی نے اس کے خدشات پر مہر ِ تصدیق ثبت کردی ۔
یہ علاقائی معروضات اپنی جگہ پر ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واشنگٹن ترکی کے کردوں پر حملوں پر خاموش کیوں ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس سے داعش کے خلاف مزاحمت کرنے والے کردگروہ کمزور ہوںگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے اندازہ لگالیا ہے کہ عراقی کردوں کے سامنے داعش سے لڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ،چنانچہ امریکہ اُنہیں ہتھیار اور مدد فراہم کرتا رہے گا۔ اس دوران ترکی میں کردوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اس سے صورت ِحال پر کوئی فرق نہیںپڑے گا ۔ امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ بہت جلدترکی کو بھی یہ جنگ لڑنی پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی عشروںسے کردوں کو مختلف جنگوں کا آلہ کار بنایااور دھوکہ دیا گیا ۔ چنانچہ ان پر ترکی کی طرف سے ہونے والے حملے عالمی برادری کے لیے افسوسناک ہوں گے لیکن کسی حیرانی کا باعث نہیں ۔