کسی کو ایچی سن کالج داخل کروانا کوئی مسئلہ نہیں‘ میں سپیکر ہوں... ایاز صادق
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ ''کسی کو ایچی سن کالج میں داخل کروانا میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں‘ میں سپیکر ہوں‘‘ کیونکہ سپیکر کے آگے میرٹ وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی‘ ویسے بھی ملکِ عزیز میں اور کون سا کام میرٹ پر ہو رہا ہے جو کالجوں میں داخلے بھی میرٹ پر ہونے لگیں کہ یہ تو قیامت کی صاف نشانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ کیسے ممکن ہے کہ سپیکر سفارش کرتا اور پوتے کا داخلہ نہ ہوتا‘‘ اور اگر ایسا ہو گیا ہے تو پرنسپل نے اس کا مزہ بھی چکھ لیا ہے‘ ہور چوپو! انہوں نے کہا کہ ''پرنسپل کی برطرفی مالی بے ضابطگیوں کی وجہ سے عمل میں آئی ہے‘‘ اور جونہی اس نے انکار کیا‘ اس کی مالی بے ضابطگیاں بھی فوری طور پر منظر عام پر آ گئیں کیونکہ ملک عزیز میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے کہ اگر کوئی افسر بات نہ مانے تو اس کی مالی بے ضابطگیاں اپنے آپ ہی اچھل کر سامنے آ جاتی ہیں جبکہ اس سے پہلے انہوں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تحریک پر وہی کروں گا جو آئین اور قانون کہتا ہے‘‘ اور آئین اور قانون بھی وہی کہتا ہے جو وزیراعظم صاحب کہتے ہیں۔ آپ اگلے روز سمن آباد میں ٹیوب ویل کے افتتاح پر میڈیا سے بات کر رہے تھے۔
سیاسی جماعتوں کو قومی اداروں کے لیے
متحد ہو جانا چاہیے... سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''سیاسی جماعتوں کو قومی اداروں کے لیے متحد ہو جانا چاہیے‘‘ جس طرح دھرنے کے دوران انہوں نے متحد ہو کر حکومت کی گلوخلاصی کروائی تھی ورنہ ہم تو لگے گئے تھے‘ اگرچہ اداروں کو اپنا تحفظ خود کرنا چاہیے کیونکہ کمیشن کی رپورٹ کے بعد حکومت بھی اس قابل ہو گئی ہے کہ اپنا تحفظ خود کر سکے‘ ماسوائے اس کے کہ ان کی توجہ ہماری طرف نہ مبذول ہو جائے جس کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے اور جوڈیشل کمیشن کی بلا سر سے ٹلنے کے بعد اس کالی آندھی کا خطرہ درپیش ہے جو کسی وقت بھی آ سکتی ہے جو سب کچھ اڑا کر رکھ دے گی جس کا مزہ ہم پہلے ایک بار چکھ چکے ہیں اور دوبارہ چکھنے کی کوئی خواہش نہیں ہے؛ تاہم خواہشیں گھوڑے نہیں ہوتیں جن پر سوار ہو کر اِدھر اُدھر جایا جا سکے ورنہ انجنوں کی کمیابی کی وجہ سے انہیں ٹرینوں کے آگے بھی جوتا جا سکتا تھا جبکہ عوام نے کھا کھا کر گدھے ویسے ہی ختم کر دیئے ہیں اور اب وہ گوشت کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں حالانکہ انہیں اب ہمارا رونا رونا چاہیے جو اب چند دنوں ہی کے مہمان نظر آتے ہیں۔ آپ اگلے روز ریلوے بوائز سکول پراجیکٹ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
سیلاب متاثرین کو ہر سہولت
دیں گے... بلال یٰسین
صوبائی وزیر خوراک بلال یٰسین نے کہا ہے کہ ''سیلاب متاثرین کو ہر سہولت دیں گے‘‘ اگرچہ غیر متاثرین کو کوئی سہولت نہیں دے سکے ہیں اور وہ اسی طرح نہ صرف لوڈشیڈنگ کا عذاب سہہ رہے ہیں بلکہ انہیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے جس سے وہ طرح طرح کی بیماریوں سے ہلاک ہو رہے ہیں کیونکہ ہسپتالوں کی صورت حال بھی ناگفتہ بہ ہے؛ تاہم جو زندہ رہ جائیں گے ان کے لیے میٹرو بس اور اورنج لائن ریلوے کی سہولت ضرور دستیاب رہے گی اگرچہ زیادہ دیر تک زندہ رہنا ان کے لیے بھی ناممکن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ''سیلاب متاثرین ہمارے مہمان ہیں‘‘ اگرچہ بن بلائے مہمان ہیں اس لیے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے جو بن بلائے مہمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں میاں شہباز شریف کی ہدایت پر پانی کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے یہاں آیا ہوں‘‘ جبکہ جائزہ لینے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پانی ہم نے نہیں بھیجا نہ ہی بارشیں ہم نے کروائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میڈیا کی طرف سے بہتر سہولیات کی فراہمی اور علاقوں کو محفوظ بنانے کی تجاویز پر عملی جامہ پہنانے کی بھی انہوں نے ہدایت فرمائی ہے‘‘ البتہ ان تجاویز پر عمل ہونا خود ان تجاویز کی سردردی ہے۔ آپ اگلے روز کوٹ متھن میں قائم ریلیف کے معائنہ کے بعد میڈیا سے بات کر رہے تھے۔
صوفیہ بیدار
صوفیہ بیدار ایک روایت پسند شاعرہ ہیں اور یہ کتاب ''ماورا‘‘ پبلی کیشنز نے چھاپی ہے چنانچہ حسب معمول اس کا فلیپ بھی اس ادارے کے مالک اور شاعر خالد شریف نے تحریر کیا ہے اور قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ اس طرح کی شاعری کو پسند کرنے والے آج بھی کثرت سے موجود ہیں کہ اس میں وہ مال موجود ہوتا ہے جس کی انہیں تلاش اور ضرورت بھی ہوتی ہے اور انہیں ایسی شاعری سے کوئی شکایت بھی نہیں ہوتی؛ چنانچہ ایسی شاعری پر زیادہ لکھنا نہ تو ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی یہ شاعری اس کی طلبگار ہوتی ہے۔
امید ہے کہ اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا کیونکہ اگر یہ کسی کا کچھ سنوارتی نہیں تو بگاڑتی بھی کچھ نہیں ہے اور اپنا متین اور شریفانہ لب و لہجہ بھی برقرار رکھتی ہے۔ خواتین کی شاعری یوں بھی خواتین ہی کو زیادہ مرغوب ہوتی ہے اور ہمارے ہاں خواتین کی تعداد بھی مردوں سے کچھ زیادہ ہی ہوگی‘ اور اظہار کی سادگی کی وجہ سے اس کی مقبولیت کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا جبکہ شاعرہ کی محزونیٔ طبع اس کتاب کے نام ہی سے ظاہر ہے جبکہ اس مجموعے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آپ کو کسی ذہنی مشقت سے بھی نہیں گزرنا پڑتا۔ میں نے اس میں سے اپنی پسند کے یہ شعر نکالے ہیں جبکہ تجزیے کی بجائے ایسی شاعری کی تعریف ہی کی جا سکتی ہے:
اب کوئی بات نئی بات نہیں میرے لیے
اب کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
ایک تو سایہ نہیں سر پہ ہمارے کوئی
اُس پہ حالت بھی یتیموں سی بنا رکھی ہے
صوفیہؔ دل میں بچھ گئی ہیں صفیں
اور شہر سُخن میں ماتم ہے
دل میں چڑھ جاتا ہے دریائے محبت یکدم
اور آنکھوں سے اُتر جاتا ہے پانی بن کر
تری رفتار کو اس عمر کا زینہ ضروری ہے
مرا مرنا ضروری ہے‘ ترا جینا ضروری ہے
تمہارے عشق میں حد سے گزر جانا بھی اچھا تھا
تو اُلٹے پائوں گھر کو لوٹ کے آنا بھی اچھا تھا
نظر آنکھوں میں سب آنے لگا ہے
مجھے سہما دیا ہے اس خبر نے
حالِ دل کیا بتائیں لوگوں کو
کیا بتائیں کہ کوئی حال نہیں
میں کہ اثبات میں نہیں زندہ
میں تو ممکن ہی انحراف میں ہوں
صرف دل ہی کو خبر ہے جس کی
کام ایک ایسا بھی کر رکھا ہے
آج کا مقطع
کٹی ظفر عمر جن کی ساری مسافرت میں
انہی کے ناموں کے سامنے گھر لکھے ہوئے تھے