تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-08-2015

بخشو کو سرن کی رکنیت مل گئی ہے!

یورپی جوہری تحقیقی ادارے (سرن) میں پاکستانی رکنیت اپنے وطن کا تمسخر اڑانے، اس کی نفی کرنے والے سیکولر حضرات اور قائد اعظم کو انگریز کا ایجنٹ قرار دینے والی ملّائیت کے منہ پر تھپڑ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، عالمی نشریاتی اداروں میں جو پاکستان کے لیے ''بخشو‘‘ کا تضحیک آمیز استعارہ استعمال کرتے ہیں۔ گائوں کے بااثر افراد کا ہر جائز، ناجائز حکم بجا لانے والے بخشو کی طرح، پاکستان کو وہ عالمی برادری کا مجہول کارندہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ذہنی مفلس 68 برس قبل آزاد ہونے والے پاکستان کا موازنہ سینکڑوں برس کی تاریخ رکھنے والی عالمی قوتوں برطانیہ اور امریکہ سے کرتے ہیں۔ جس امریکہ کو وہ خدا مانتے ہیں، برطانیہ سے آزادی کے ایک صدی بعد 1861ء میں وہاں شمال اور جنوب کے درمیان بدترین خانہ جنگی ہوئی تھی۔ 4 سالہ جنگ میں چھ لاکھ سے زائد امریکی قتل ہوئے تھے۔ ان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ دنیا کی بہترین افواج، ایٹمی اور میزائل پروگرام رکھنے والا بخشو اب اسرائیل کے علاوہ دنیا کا واحد غیر یورپی ملک ہے، جسے جوہری تحقیق کے حوالے سے دنیا کے سب سے اہم ادارے کی رکنیت دی گئی ہے۔ 
سچ پوچھیے تو بخشو پاکستان نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔ عالمی اداروں میں کام کرتے ہوئے، وطن کی محبت پر ادارے کی خوشنودی غالب آ جاتی ہے، ہوسِ لقمہء تر۔ افغانستان میں پے در پے دو عالمی طاقتوں کی یلغار اور بھارت جیسے طاقتور اور موقع پرست دشمن کی موجودگی نے پاکستان کو عالمی برادری سے تعاون پر مجبور کیا۔ ''امیر المومنین‘‘ ملّا محمد عمر ''مجاہد‘‘ کی 
طرف سے القاعدہ کی پرورش نے بھی پاکستان کو عالمی استعمار کا اتحادی بنا دیا۔ برسبیلِ تذکرہ ملّا عمر کی موت پر پاکستانی سوشل میڈیا تنبو لگائے بین کر رہا ہے۔ اس کیفیت میں افاقہ ہو سکتا ہے، اگر انہیں چند ماہ اپنے اہل و عیال، بالخصوص اپنی قابلِ احترام مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ملا عمر کی حکومت میں زندگی گزارنے کا موقع ملتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ملّا کو جب بھی اقتدار ملا، اس نے سب سے پہلا حملہ اس آزادی اور اختلافِ رائے پر کیا، خدا نے اپنی مخلوق کو جس کا حق دیا ہے۔ خواتین معاشرے کا ایک کمزور طبقہ ہوتی ہیں۔ ان کے حقوق چھیننے والوں سے زیادہ بُزدل شاید کوئی نہیں ہو سکتا۔ امریکی افواج کے خلاف افغان طالبان نے جرأت آمیز جنگ لڑی‘ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں نہتے بے گناہ افراد کی قاتل القاعدہ کیا ملّا عمر کی آغوش میں براجمان افغانستان کو دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپ کے طور پر استعمال نہ کر رہی تھی؟ کیا پاکستان میں اسی القاعدہ نے بے شمار بے قصور افراد کو قتل نہیں کیا؟ جواب یہ ملے گا کہ القاعدہ تو سوویت یونین کے خلاف ایک امریکی ہتھیار تھا۔ سوال یہ نہیں کہ امریکہ نے کیا کیا؟ دشمن تو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ آزماتا ہے۔ امریکی ویت نام میں کودے تو سوویت یونین نے اسے زچ کرنے میں کون سی کسر چھوڑی 
تھی؟ سوال یہ ہے کہ ملّا عمر کی ناک تلے القاعدہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتی رہی اور وہ ''نفاذِ اسلام‘‘ میں مشغول رہے۔ 
سوشل میڈیا کو سنجیدگی سے لینا چاہیے بھی نہیں کہ یہی ملالہ یوسفزئی پر حملے کو شمالی وزیرستان آپریشن کا بہانہ قرار دیتے ہوئے پاک فوج کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کر رہا تھا۔ پھر زخم لگے تو آنکھیں کھلیں اور اب وہی شمالی وزیرستان آپریشن کرنے والی فوج کو خراجِ عقیدت پیش کر رہا ہے اور درست طور پر۔ لطیفہ یہ ہے کہ میرے جیسے لوگ اس وقت فوجی کارروائی کی حمایت پر غدّار کا خطاب پا رہے تھے۔ اب شیخ اسامہ بن لادن کی خاطر ہزاروں افغانوں کا قتل عام کروانے والے ملّا عمر پر تنقید بھی انہیں گوارا نہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خواتین اس سارے معاملے میں نسبتاً زیادہ باشعور نظر آرہی ہیں۔ 
کٹھ ملا قیامِ پاکستان کا مخالف تھا۔ بظاہر اسلام کا علمبردار، عملاً اپنے اساتذہ کی پوجا کرنے والا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کا مذاق اڑانے کی اپنی سی کوشش کر تے رہے، جنہوں نے ان سب کو شکستِ فاش سے دوچار کیا تھا۔ یہ آپ کو طالبان کے سیاسی بازو کے روپ میں نظر آئیں گے۔ فوجی کارروائی کے خلاف وہ اتنی کنفیوژن پیدا کریں گے کہ دہشت گرد قیادت افغانستان فرار ہو سکے۔ وہ خود کو بابائے طالبان کہلوائیں گے۔ امریکی نفرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شدّت پسندی کی تبلیغ کریں گے۔ یہ آج بھی پاکستان کے خلاف اپنے اکابرین کے فتوے گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں ''پاکستان بن نہیں سکتا، بن جائے تو چل نہیں سکتا‘‘۔ معاشی ابتری، لوٹ مارکرنے والی اشرافیہ کا عدم احتساب اور ناانصافی کو بنیاد بناتے ہوئے، یہ پاکستان کے جواز ہی کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ترکی جیسے کئی ممالک اور خود امریکہ و برطانیہ جیسی عالمی طاقتیں انہی ادوار سے گزر کر عروج تک پہنچیں۔ بظاہر کٹھ ملا اور کٹھ سیکولر دو الگ طبقات ہیں۔ بظاہر وہ ایک دوسرے کا مذاق اڑتے ہیں‘ لیکن ہدف ایک ہے۔ ہدف پاکستان ہے۔
کٹھ ملا اور کٹھ سیکولر سرن میں پاکستانی رکنیت پر خوشی کا اظہار تو کجا، اس کے ذکر ہی سے گریزاں نظر آئیں گے۔ صرف ایسی خبروں کی تلاش میں سرگرداں، جن میں اپنے ملک کی تضحیک کا کوئی پہلو ہو۔ برما میں روہنگیا کے قتلِ عام کا ذکر ہو تو وہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا اس سے مضحکہ خیز موازنہ شروع کر دیں گے۔ جب رینجرز دہشت گردوں کو موت کی نیند سلائیں گے تو آپ انہیں خاموش دیکھیں گے۔ 
سرن کے تحت ایٹمی ذرّات پر تحقیق کے ضمن میں دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری لارج ہیڈرن کولائیڈر کے تجربات میں پاکستان پہلے ہی اپنا حصہ ڈال چکا ہے۔ یہی وہ تجربہ گاہ ہے، جہاں توانائی کو مادے کی شکل دینے والے، بالفاظِ دیگر کائناتی تخلیق کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے خدائی ذرّے کی دریافت ہوئی تھی۔ یہاں ذرّات کو روشنی کی رفتار سے آپس میں ٹکرایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مصنوعی طور پر ابتدائے کائنات کا ماحول، جب ایک دھماکے کے بعد ہر کہیں توانائی ہی توانائی تھی۔ خدائی ذرے نے توانائی کے ان عظیم الشان مجموعوں کو مادے کی شکل میں ڈھالا اور ہائیڈروجن کے بادل وجود میں آئے۔ یہ ہائیڈروجن کھرب ہا کھرب سورجوں میں ڈھلی۔ انہی سورجوں میں کائنات کو تشکیل دینے والے تمام بھاری عناصر اور خود وہ، جن سے ہمارا یہ جسم بنا ہے، وجود میں آئے۔ ایٹمی ذرّات پر تحقیق اور نظریاتی فزکس میں ڈاکٹر عبدالسلام کا نام بھی سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے، جنہیں اس میدان میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ ایٹمی ذرات پر تحقیق کائنات، زندگی اور خود اپنے آپ کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ کوئی دیدہ ور ہو تو یہ اسے خدا تک لے جا سکتی ہے۔ سرن کی رکنیت سے بہرحال پاکستانی سائنسی اذہان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved