کہتے ہیں اور کچھ رہے نہ رہے، تبدیلی کا عمل ضرور جاری رہے گا۔ اس بات کو علامہ نے خوب بیان کہا ہے ع
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
مگر کیا عجیب بات ہے کہ علامہ ہی کے خواب کی تعبیر بن کر دنیا کے نقشے پر رونما ہونے والی سرزمین تغیّر سے مستثنٰی ٹھہری ہے!
دنیا بھر میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بہت کچھ ہے جو کل تک تھا مگر اب نہیں ہے۔ اور جو کچھ آج دکھائی دے رہا ہے وہ کل تک نہیں رہے گا۔ مگر ہمارے ہاں شاید کچھ بھی نہ بدلنے ہی کو تبدیلی سمجھ لیا گیا ہے۔
سیاست ہو یا معاشرت، معیشت ہو یا سفارت ... ہر معاملے میں سُکوت اور جمود پنپتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک زمانے سے مملکتِ خداداد میں کچھ نہیں ہو رہا اور محسوس یہ ہو رہا ہے جیسے بہت کچھ ہو رہا ہے اور ہر طرف تبدیلیاں ہی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کچھ ہو ہی نہیں رہا تو پھر یہ تاثر کیوں موجود ہے کہ بہت کچھ ہو رہا ہے۔ سیدھا سا جواب ہے کہ اقتدار و اختیار کی دنیا کے سب یار لوگ مل کر یہی تو کر رہے ہیں۔ عوام کو یقین دلایا جارہا ہے کہ بہت کچھ ہو رہا ہے۔ ہر شعبے میں پائے جانے والے قطعی اور حتمی نوعیت کے جمود کو تحرّک بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ اگر کوئی سوال کرے کہ صاحب! اگر کچھ ہو رہا ہے تو دکھائی کیوں نہیں دے رہا، تبدیلی رونما ہوتی ہوئی نظر کیوں نہیں آرہی تو جواب ملتا ہے اس کے لیے دیدۂ بینا یعنی دل کی آنکھ درکار ہے! اور سند کے لیے علامہ ہی کا شعر پیش کردیا جاتا ہے ؎
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
اب کوئی دیدۂ بینا کہاں سے لائے؟ جن کے پاس ٹوٹا پھوٹا دیدۂ بینا تھا یا ہے وہ بھی نمک کی کان میں پہنچ کر نمک ہوگئے ہیں! عالم تاب تشنہؔ نے خوب کہا ہے ؎
ظلمت کو جو فروغ ہے، دیدہ وروں سے ہے
یہ کاروبارِ شب اِنہی سوداگروں سے ہے!
کچھ کرنے یا کر گزرنے پر زور دینے کے بجائے ساری محنت یہ تاثر قائم کرنے پر صرف کی جارہی ہے کہ بہت کچھ ہو رہا ہے مگر عوام کو دکھائی ہی نہ دیتا ہو تو کوئی کیا کرے۔
ترقیاتی منصوبوں ہی کا معاملہ لیجیے۔ سڑکیں کہیں دکھائی نہیں دیتیں اور منتخب ایوانوں میں کی جانے والی پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریریں سُنیے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ سڑکیں جو ہیں ہی نہیں، نہ صرف یہ کہ ہیں بلکہ اُن پر گاڑیاں فرّاٹے بھی بھر رہی ہیں! اسکولوں کا معاملہ کون سا مختلف ہے؟ جو اسکول ہیں نہ تعلیم دیتے ہیں وہ سرکاری دستاویزات میں نہ صرف یہ کہ ہیں بلکہ نئی نسل کو آنے والے زمانے کے لیے تیار بھی کر رہے ہیں!
گڈ گورننس کے دعوے بلا خوفِ تردید کئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی پوچھ بیٹھے کہ بھائی، دکھا تو دو کہ گڈ گورننس ہے کہاں تو ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ گڈ گورننس ہے تو سہی مگر صرف انہی کو نظر آسکتی ہے جو حکومت کے ہر کام میں کیڑے نکالنے کے عادی نہ ہوں! عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے اور حکمران ہیں کہ گڈ گورننس کے دعوے کرتے تھکتے ہیں نہ شرمندہ ہوتے ہیں! ع
اِک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
اب حال یہ ہے کہ جب کوئی تبدیلی کا نعرہ لگاتا ہے، اہل وطن کی ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔ جن کے ہاتھ میں ہر طرح کی تبدیلی یقینی بنانے کا اختیار ہے وہ تبدیلی کے نعرے لگاکر تماشا دکھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بات بات پر قوم کو یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بہت کچھ بدل چکا ہے اور مزید بہت کچھ بہت جلد بدلنے والا ہے۔ قوم بھی اُن کی باتوں پر یقین کرلینے کا تاثر دے کر مزے لیتی ہے! اور یوں خوش فہمی و غلط فہمی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
تبدیلی کا نعرہ لگانے اور تبدیلی لانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جوشیلی تقریروں سے کیا ہوتا ہے؟ عمل کی دنیا میں قدم قدم پر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اگر صرف باتیں بگھارنے سے سب کچھ ہوجایا کرتا تو ہمارے ہاں میڈیا پر بڑی بڑی ہانکنے والوں کے ہاتھوں کئی انقلاب برپا ہوچکے ہوتے!
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے لیے کوئی بھی ایسی تبدیلی کیوں لائی جائے گی جو ہمارے حق میں ہو؟ یار لوگ دن رات محنت کرکے معاملات کو اپنے حق میں یعنی جوں کا توں رکھے ہوئے ہیں اور ہم تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ تبدیلی کے واقع ہونے کا انتظار کرنے والوں کو ''نوید‘‘ ہو کہ کوئی بھی تبدیلی واقع ہوتی نہیں، لائی جاتی ہے!
حکمرانی کے نام پر ہم طرح طرح کے تجربات سے گزرتے رہے ہیں۔ حکمراں طبقہ اپنی طاقت برقرار رکھنے اور اس میں اضافہ یقینی بنانے کی خاطر اس امر کے لیے کوشاں رہتا ہے کہ معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے مگر دکھایا یہ جائے کہ بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ اپنی اس کوشش میں یہ طبقہ بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔
دس پندرہ برس کے عرصے میں پاکستانی معاشرہ آگے بڑھنے کے نام پر محض پسپائی کے شکنجے میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم اب پیش رفت کے تصور سے بھی محروم ہوچلے ہیں۔
جمہوریت یا کوئی اور (تجرباتی) طرزِ حکمرانی، ہر معاملے میں حالات کو جوں کا توں رکھنے کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ جن کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی تبدیلی رونما نہ ہو جس سے ان کا اقتدار خطرے میں پڑتا ہو۔
تبدیلی خواہ کسی شعبے اور کسی بھی سطح کی ہو، اُسی وقت رونما ہوسکتی ہے جب اپنے اذہان کو اُس کے لیے تیار کریں اور اس حوالے سے عمل کے میدان میں قدم رکھنے کو بھی تیار ہوں۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ لگتا تو نہیں۔ تو پھر کوئی بھی تبدیلی کیوں واقع یا رونما ہوگی؟
زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے۔ بہت سے ہیں جو ہم سے بہت پیچھے تھے مگر بہت آگے نکل گئے ہیں۔ ہم اب تک یہی طے نہیں کر پائے کہ ہمیں تبدیل ہونا بھی یا نہیں۔ ہر شعبہ مکمل جمود کی نذر ہوچکا ہے۔ مملکتِ خداداد میں وقت جیسے ٹھہر گیا ہے۔ ہر قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم کسی کنویں میں زندگی بسر کرنے کے نام پر وقت کی خلیج پاٹ رہے ہیں۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ ہم تعمیری نوعیت کا کچھ بھی کرنے پر ہمارا ایمان نہیں رہا۔ وقت گزرتا جارہا ہے اور ہمیں مستقل بنیاد پر پیچھے دھکیل رہا ہے۔ ہم اور ترقی یافتہ اقوام میں فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ فاصلہ علمی و فنی پیش رفت کے اعتبار سے بھی ہے اور مادّی ترقی کے لحاظ سے بھی۔ سب سے بڑا اور جان لیوا قسم کا المیہ تو یہ ہے کہ ع
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!
پیچھے بھی رہ گئے ہیں اور پیچھے رہ جانے کا غم بھی نہیں۔ یہ تو دو دھاری تلوار کا سا معاملہ ہوا!
کسی بھی تبدیلی کے لیے سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت یہ ہے کہ انسان کو کمی اور خامی کا احساس ہو۔ جب تک کوئی کمی محسوس نہیں ہوگی یا کسی خامی کا احساس نہیں ہوگا تب تک کچھ کرنے کی خواہش پیدا ہوگی نہ لگن۔ ہم اِسی منزل میں پھنس کر، الجھ کر رہ گئے ہیں۔ جب زیاں کا احساس بھی دلوں سے جاتا رہے تو کھوکھلے نعرے رہ جاتے ہیں جن کی مدد سے اپنے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جو کچھ ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے وہ یقیناً کسی بھی سطح پر اطمینان بخش نہیں۔ اور جو کچھ دیگر معاشروں میں ہو رہا ہے وہ ہمارے لیے تحریک ثابت ہونا چاہیے۔ جب تک ترقی کی منازل طے کرنے والوں سے تحریک نہیں پائیں گے تب تک مثبت سوچ اپنانے اور عمل کی دنیا میں کچھ کرنے پر مائل بھی نہیں ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved