بلا شبہ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح اور پارلیمان کے فیصلوں پر جوڈیشل ریویو (عدالتی نظرثانی) کا حق حاصل ہے مگر 18ویں اور 21ویں آئینی ترمیم کے خلاف مقدمات میں عدلیہ کو کانسٹی ٹیوشنل ریویو (آئین پر نظرثانی) پر مجبور کیا جا رہا تھا اور وہ بھی قاتلوں‘ بھتہ خوروں‘ اغوا کاروں اور سنگدل دہشت گردوں کے انسانی حقوق کے نام پر۔ سپریم کورٹ نے زمینی حقائق ‘ عوامی جذبات اور قومی مفاد کے مطابق فیصلہ دیا۔
چند ماہ پہلے تک یعنی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے قبل پاکستان اپنی سلامتی اور قومی یکجہتی کے حوالے سے بحران کا شکار تھا‘ اندرون و بیرون ملک ناکام ریاست کا طعنہ بار بار سننے کو ملتا اور نوجوان نسل اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں برملا شک و شبے کا اظہار کرتی ۔اس وقت ملک میں جمہوریت تھی‘ آزاد عدلیہ‘ فعال میڈیا اور متحرک سول سوسائٹی بھی موجود اور آئین کی بالا دستی و قانون کی حکمرانی کا نعرہ لگانے والی وکلا برادری کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی۔ صرف امن مفقود تھا اور دہشت گردی کا راج۔ اس کا علاج فوجی عدالتوں میں ڈھونڈا گیا۔ علاج بالمثل
آئین میں اکیسویں ترمیم سے قبل ہر ایک کو گلہ تھا کہ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد اور گروہ اول تو قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔ اگر آ جائیں تو ناقص تفتیشی نظام انہیں عدالتوں سے سزا دلانے میں ناکام رہتا ہے اور اگر کوئی سر پھرا پولیس افسر و اہلکار انہیں سزا دلانے پر تل جائے تو جج صاحبان ان مقدمات کو سننے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے ۔ گوجرانوالہ کے ایک پولیس افسر اشرف مارتھ اٹھارہ سال قبل سرعام قتل ہوئے‘ ملزم پکڑے گئے کبھی ایک جج مقدمہ سننے سے انکار کرتا کبھی دوسرا‘ گواہ منحرف ہوتے چلے گئے اور مقامی پولیس اپنے باس کے قاتلوں کو سزا دلانے میں ناکام رہی۔
اب یہ بات راز نہیں رہی کہ کالعدم تنظیموں سے وابستہ قاتلوں اور کراچی میں نسلی ‘لسانی عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کی کسی میں ہمت تھی نہ ان کے خلاف گواہی دینے کا یارا اور نہ ان کا مقدمہ سننے کا حوصلہ۔ صحافی ولی خان بابر قتل کیس کے گواہ اور تفتیشی مارے گئے۔ 1992ء میں ریاست کا ساتھ دینے والے دوسو سے زائد پولیس افسر و اہلکار قتل ہو گئے اور حکیم محمد سعید کے قاتل عدالتوں سے بری۔ گزشتہ روز رینجرز نے ایم کیو ایم کو 187ٹارگٹ کلرز کی فہرست ارسال کی ہے جو قانون کو مطلوب ہیں اور سنگین جرائم میں ملوث مگر تادم تحریرایم کیو ایم نے رسید تک نہیں دی۔یہ اب تک گرفتار کیوں نہ ہوئے کوئی سربستہ راز نہیں۔
ہمارا نظام انصاف اس قدر گنجلک ‘ مہنگا‘ سست رفتار اور کریمنل فرینڈلی ہے کہ کسی شریف شہر ی کو جبکہ وہ کمزور بھی ہو اپنا حق ملنے کی امید ہوتی ہے نہ کسی قاتل‘ ظالم‘ بھتہ خور‘ قبضہ گروپ اور اغوا کار کے قانون کے مطابق سزا یاب ہونے کا یقین۔ پیچیدہ اس قدر کہ مہنگے وکیل کے بغیر اپنا مدعا جج کے سامنے بیان نہیں ہو سکتا۔ سست رفتاری کا یہ عالم کہ دادا کے دائر کردہ مقدمے کا فیصلہ پوتے کے حق میں ہو جائے تو غنیمت سمجھئے اور کریمنل فرینڈلی یوں کہ بار اور بنچ کے علاوہ انسانی حقوق کی فارن فنڈڈ تنظیموں اور موم بتی جلا کر مقتولوں اور مظلوموں کے ورثا کے زخموں پر نمک چھڑکنے والی میموں کا سارا زور یہاں مجرموں کے حق میں صرف ہوتا ہے قاتلوں کے انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے ایسے ایسے دلائل گھڑے جاتے ہیں کہ انسان سن کر دنگ رہ جاتا ہے ۔سو معصوم انسان جرائم کی بھینٹ چڑھ جائیں کوئی پروا نہیں ایک مجرم کو سخت اورفوری سزا نہیں ملنی چاہئے کیونکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے اتفاق رائے سے کیا۔ اس اتفاق رائے میں تحریک طالبان پاکستان کے ہمدرد بھی شامل تھے اور کراچی میں عسکری پسندی کا جواز پیش کرنے والے بھی۔ مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے بھی کھل کر حمایت کی۔ یہ محض ملک میں قیام امن کی خواہش کا نتیجہ نہ تھا بلکہ قومی سلامتی اور ملکی آزادی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی واحد صورت بھی یہی نظر آئی کیونکہ ماضی میں فوجی عدالتوں نے کم وقت میں جرأت مندانہ فیصلے کر کے عوام کو انصاف فراہم کیا اور مجرموں کی حوصلہ شکنی کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں فوجی عدالتوں کے حوالے سے یہ بات زبان زد عام تھی کہ فوجی آمریت کے علاوہ ملٹری کورٹس کے مخالفین بھی اپنے مقدمات سول عدالتوں کے بجائے کسی کرنل اور بریگیڈیئر کی عدالت میں چلانے پر اصرار کرتے کہ یہاں تاخیر کا گمان تھا نہ مہنگے وکیل کی خاص ضرورت۔ گواہ خوفزدہ نہ جج جرم کی نوعیت کے بجائے مدعی اور ملزم کی حیثیت اور شخصیت دیکھ کر فیصلہ سنانے کا روادار۔ سیاسی مقدمات میں البتہ یہ جج صاحبان بھی دیگر جج صاحبان کی طرح اوپر کے احکامات پر عمل کرتے۔
سپریم کورٹ نے دوران سماعت ہر موافق‘ مخالف کو سنا۔ آئین کی ہر وہ شق زیر بحث آئی جس سے اس آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے میں آسانی ہو سکتی تھی‘ فاضل وکلاء نے دلائل و منطق کے دریا بہا دیئے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں نے بھی اسے ایک بے توقیر اور ماتحت ادارہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ 1990ء کے عشرے سے قائم انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے فضائل و مناقب تفصیل سے بیان کئے گئے‘ تفتیشی نظام کی خامیوں کو فیصلوں میں تاخیر کا سبب بتایا گیا اور عدلیہ کی مجبوریوں کا ذکر بھی ہوا مگر کسی نے یہ سوچا نہ کہا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اب تک یہ رکاوٹیں دور نہیں ہوئیں تو کس کا قصور ہے؟ عدلیہ نے اپنی اصلاح پر توجہ دی ؟تفتیشی نظام کو درست کرنے کے لیے واضح اور ٹھوس احکامات جاری کئے ؟اور عملدرآمد نہ کرنے والوں کو یوسف رضا گیلانی کے انجام سے دوچار کیا؟
عدالت عظمیٰ کے سامنے دو واضح آپشن تھے فوجی عدالتوں کو برقرار رکھنا یا پھر انہیں اور 21ویں ترمیم کو کالعدم قرار دے کر نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی کا راستہ ہموار کرنا۔ اس صورت میں فوج کا ردعمل کیا ہوتا؟ کوئی نہیں جانتا ۔جمہوریت کا مستقبل بھی اس فیصلے سے منسلک تھا۔ عدالت نے زمینی حقائق اور عوامی جذبات کے مطابق فیصلہ کیا اور عدلیہ کی آزادی کا نعرہ لگا کر ایک بار پھر عدلیہ کو طاقتور مجرموں کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے گریز کیاجو کسی جج کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق دیتے ہیں نہ پولیس کو آزادانہ تفتیش کا اور نہ گواہوںکو ضمیر کے مطابق گواہی دینے کا۔
فوجی آپریشن کے دوران انسانی حقوق اور نارمل قوانین کی پاسداری کا نعرہ لگانے والوں کو افغانستان‘ عراق اور گوانتانا موبے کے حوالے سے کبھی یہ باتیں یاد نہیں آئیں۔ ہمیشہ جارح امریکہ اور اس کے درندہ صفت فوجیوں کی وکالت کرنے والوں کو مگر پاکستان میں زمانہ امن کے ان مثالی قوانین کی فکر ہے جن پر عملدرآمد کی پاکستان میں کبھی نوبت ہی نہیں آئی۔ عدلیہ یہ دانا چگنے پر تیار نہیں ہوئی تو اب میڈیا پر صف ماتم برپا ہے حکومت اور فوجی قیادت کا فرض ہے کہ فوجی عدالتوں کو اپنا فرض آزادی سے ادا کرنے کا موقع فراہم کریں اور پراسیکیوشن کے مراحل میں کسی فریق کومن مانی نہ کرنے دیں۔
صرف دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد ہی نہیں بھتہ خور‘ اغوا کار‘ قومی وسائل کی کرپشن اور نجی املاک پر قبضہ کرنے کے علاوہ ذخیرہ اندوز‘ جعلی ادویہ فروش‘منشیات فروش اور سمگلنگ میں ملوث افراد اور گروہوں کا قلع قمع کرنے میں یہ عدالتیں موثر کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ یہ سارے جرائم بھی دہشت گردی سے جڑے ہیں اور ان کا قلع قمع کیے بغیر پاکستان میں قیام امن کی ضمانت مل سکتی ہے نہ انصاف کی توقع اور نہ محفوظ پاکستان کی کوئی امید ۔ سانحہ ماڈل ٹائون سے سانحہ ہزارہ ٹائون کوئٹہ تک اور سانحہ صفورا گوٹھ سے سانحہ یوحنا آباد تک ہر ایک میں ملوث اعلیٰ دادنیٰ مجرموں کو ان عدالتوں سے سزا ملنی چاہیے۔ یہی تقاضائے انصاف ہے اور پولیس مقابلوں سے بچنے کی واحد صورت۔