تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-08-2015

وہ ضرور آئے گا

کوئی دن جاتا ہے کہ ہمارے در و بام پر وہ اجالا بن کے اترے گا، مالک کو اگر ہم اسے پکاریں۔ اگر پکارتے رہیں۔ 
کیسا انصاف، کہاں کا انصاف؟ دل کیسے شاد ہو کہ اس پر زخم ہی زخم ہیں۔ گھاس کے سبز قطعے پر پھولوں کے درمیان، میں بچّوں کو کھیلتے اور کھلکھلاتے دیکھتا ہوں۔ زندگی ہنستی ہے اور مسرت کی ایک لہر اٹھا دیتی ہے۔ پھر کہیں سے ایک سوال پھوٹتا ہے۔ آنے والا کل ان کے لیے کیا لائے گا؟ یہی اجڈ پولیس؟ یہی گھنائونی پٹوار؟ یہی کالی سیاست اور یہی کالے کوٹوں سے ڈرتی عدالت؟ یارب ان کا مستقبل کیا ہے؟ ان کے لیے ہم نے خوبصورت مکان بنائے اور گاڑیاں خریدیں۔ مہنگے سکولوں میں وہ پڑھتے ہیں، جن میں انگریزی اور مرعوبیت سکھائی جاتی ہے۔ توانائی سے بے چین، چھ سالہ عیشا سے میں پوچھتا ہوں: کیا تم قرآن پڑھتی ہو؟ ہاں دادا جان، سیپارہ! ایک استانی سے، جسے شاید معلوم ہے کہ نہیں کہ قرآن کریم ابدالآباد تک برقرار رہنے والا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ کتاب، جو بتاتی ہے کہ زندگی کیا ہے، آدم زاد کیا ہے، کائنات اور اس کا خالق کیا۔ بلال الرشید سے میں یہ کہتا ہوں: تم خود پڑھائو۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ عربی جانتا ہے، کچھ پارے حفظ بھی کر رکھے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آیات میں جگمگاتی روشنی پر غور کرنے کی ایک ذرا سی توفیق بھی شاید ارزاں ہے۔
پھر ایک اور خیال پھوٹتا ہے اور میں خود کو تھام رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جی چاہتا ہے، اس سے کہوں: ان بچوں کو بتانا کہ خیانت اور جھوٹ اصل گناہ ہیں۔ افتادگانِ خاک سے گریز اصل تکبّر ہے۔ توکل اصل ایمان ہے۔ ''اچھا کل سہی‘‘۔ زندگی اسی طرح بیت جاتی ہے۔ پروردگار نے سچ کہا: اولاد فتنہ ہے، مال فتنہ ہے۔ پھر دعا یاد آتی ہے: یارب انہیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنانا۔ ہاں! اگر انہیں اخلاق اور علم میں سے کچھ عطا ہو۔ اس مادیت میں مگر زندگی برگ و بار کیسے لائے گی؟ سب شجر بے ثمر رہ جائیں گے؟ بچّے محتاج ہوا کرتے ہیں کہ عمل اور مثال سے ان کی رہنمائی ہو۔ اگر مثال ہی مہیا نہ ہو؟ بارش برس کر تھم گئی، ہوا میں گویا گداز رچا ہے۔ 
اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو 
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی
خاموشی کہاں؟ دل سوزی کہاں؟ نئے لباس ہیں، عمدہ کھانے، سیر و تفریح اور ٹیلی ویژن کا بازاری تماشا... تب بی بی جی کا چہرہ اس دھند میں ابھرتا ہے۔ چھپّن برس ہوتے ہیں، رمضان المبارک کے یہی ایام، چک 42 جنوبی سرگودہا کی لو سے بھری گلیاں۔ صحن کی ابتدا میں کھانے پکانے کی وہ چھوٹی سی جگہ، جسے باورچی خانہ کہا جاتا۔ کھانا پک چکا تو برتن میں ڈالا اور رومال میں باندھا۔ دوپہر کی دھوپ میں، گلیوں سے گزر کر، تالاب کے پہلو سے آگے جا کر نہری پانی کا نالہ پار کر کے، اجڑے ہوئے اس باغ سے آگے، ویران مرغی خانے کے حاشیے پر ایک کمرہ ہے۔ 9 سال کا بچہ خاموشی سے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ دستک دی، گھبرائی ہوئی عورت نے کواڑ کھولا۔ ''لو یہ کھانا‘‘ میٹھی آواز میں انہوں نے کہا ''اپنے برتن میں انڈیل لو‘‘۔ کوئی درخت نہیں، لمحہ بھر سستانے کو سایہ تک نہیں۔ کچھ دیر حیرت اور انتظار کے ساتھ تیسری جماعت کا طالبِ علم مہربان ماں 
کے ساتھ حیران سا کھڑا رہا۔ رمضان المبارک میں بی بی جی کھانا لے کر یہاں کیوں آئیں؟ یہ لوگ روزے کیوں نہیں رکھتے؟
آخر اس نے پوچھ لیا۔ ''بیٹا، اس کا میاں بیمار ہے۔ بیمار پہ روزہ فرض نہیں ہوتا اور ان کے ہاں کھانے کو کچھ نہیں‘‘ رفتہ رفتہ کچھ اور سوال پھوٹے، جو عشروں بعد آسودہ ہوئے، جب عادات بگڑ گئی ہیں اور ان ہستیوں کی پیروی ممکن نہیں، جن کا علم بہت تھوڑا سا تھا، کردار بہت اجلا۔
بیس برس بیت گئے۔ صبح سویرے بہاولپور کے لیے گاڑی میں سوار ہونا تھا۔ جگائے گا کون؟ ''میں جگائوں گی بیٹا‘‘۔ تب یاد آیا تہجد کے لیے ہمیشہ ہر روز وہ جاگ اٹھتی ہیں۔ ''آپ کی آنکھ خود بخود کیسے کھل جاتی ہے؟‘‘ اپنے فرزند کی طرف انہوں نے دیکھا تک نہیں۔ کھوئی ہوئی آواز میں فقط یہ کہا ''اللہ جگاتا ہے‘‘ پھر آسمان کو تکنے لگیں اور دیر تک تکتی رہیں۔ خلائے بسیط میں وہ کیا دیکھتی تھیں۔ نیلے آسمان پر بیدار ہوتے ستارے؟ ان کے درمیان ابھرتا ہوا چاند؟ یا ان کے خالق کا جمال؟ وہ دکھائی نہیں دیتا مگر دکھائی دیتا ہے، انہیں کہ جن کے دلوں میں اجالا ہو... بیس برس اور بیتے۔ ایک دن عارف نے یہ کہا: کبھی میں شاعر تھا۔ دو مصرعے تمہیں سناتا ہوں ؎
جلتے ہر شب ہیں آسمان پہ چراغ 
جانے یزداں ہے منتظر کس کا؟ 
وہ کس کا منتظر ہے؟ شاید ایک بندے کا، جو صرف اس کا ہو۔ اظہارالحق کہتے ہیں، ایک شہسوار۔ کسی ہجوم کی تو اسے ضرورت نہیں۔ کردوں میں پیدا ہونے والا صلاح الدین، سلطان بن جانے کے بعد بھی مسجد کے فرش پر بیٹھتا، لائبریری میں وقت گزارتا اور استاد سے فقہ کا درس لیا کرتا۔ ہر احتیاج مند کا درد جس کے دل میں تڑپ اٹھتا تھا۔ نسیم احمد باجوہ صاحب کو ایک ای میل لکھنا تھی: سات سو سال بیت گئے، تاریخ کے ہر عہد میں اگر وہ چاند بن کر چمکتا رہا تو اب ایک محرّر کیونکر اسے گہنا سکے گا؟... نہیں، ہم مغرب کے ہاتھوں نہیں، اپنے کردار کی پستی سے پامال ہیں۔ 
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی 
نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا 
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا 
تعبیر بتانے والوں سے، ہیبت و عظمت رکھنے والے بل طشتنر نے کہا: خواب بتائو اور تعبیر بھی۔ وہ آدمی، یروشلم کو کھنڈر کرنے والے رومیوں کو جس نے مار بھگایا تھا، جس کے بعد بلادِ شام کے قبائل نے خراسان اور کشیر کی طرف ہجرت کی۔ خراسان جو بعد میں افغانستان ہوا اور کشیر جو کشمیر ہو گیا۔ شامی قبائل افغان کہلائے اور کشمیری ہو گئے۔ وہ عم زاد ہیں، جیسے کہ جاٹ اور گجّر۔ تمام بنی آدم عم زاد ہیں۔ ''تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے‘‘۔
دانیا ل ؑ کو طلب کیا گیا۔ اللہ کے پیغمبر کو۔ دربار میں ان کی واشگاف آواز نے یہ کہا: بادشاہ، دیوار پر تو نے لکھا ہوا دیکھا ''تجھے تولا گیا اور تو کم نکلا‘‘۔
اٹھارویں ترمیم کیا؟ اکیسویں ترمیم کیا؟ محمد علی جناح کے بعد ہم سب تولے گئے، ہم سب کم نکلے۔ ہمارا ہر قانون اور ہر قدم مصلحت سے پھوٹتا ہے۔ لیڈر جھوٹے اور دانشور جعلی۔ نسیم احمد باجوہ صاحب! چراغ بجھا کرتے ہیں، سورج نہیں۔ سب عمامے، سب جبّے اور سب دستاریں جناح کو پست نہ کر سکیں‘ تو ایک کتاب کیسے کرے گی؟ محمد علی سچا تھا۔ غیبت، وعدہ شکنی اور خیانت سے پاک۔ انگریزی میں قرآن پڑھتا مگر ایمان میں ان سے کہیں زیادہ محکم تھا، ''ح‘‘ اور ''ع‘‘ کی آواز جو حلق سے نکال سکتے ہیں۔ حسرت موہانی نے برہم ہو کر کہا تھا: آپ کی زبان اسلامی اور نہ لباس لیکن آخر کو اس پر فدا ہوئے۔ آخر وہ فقیر تھے۔ شاعر فقیر ہو جائے تو ستاروں پہ حکم چلاتا ہے۔ شاعروں کے اس شاعر اور فقیروں کے اس فقیر نے کہا تھا ؎ 
بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان
دوسرا دانائے راز کیا نہیں آئے گا؟ کیوں نہیں۔ چہار طرف تاریکی ہے۔ تمام کے تمام دل بے چین ہیں اور دعائیں ہونٹوں پر کانپتی رہتی ہیں۔ مالک کا وعدہ ہے کہ ہر مضطرب کی دعا وہ سنتا ہے۔
کوئی دن جاتا ہے کہ ہمارے در و بام پر وہ اجالا بن کے اترے گا، مالک کو اگر ہم اسے پکاریں۔ اگر پکارتے رہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved