ایک ایسا شخص جو بہت بولتا ہے اور ایسی سخت آرا رکھتاہے جو دوسروں کو پسند نہیں آتیں، اسے آپ کیا کہیں گے؟ یقیناً ڈونالڈ ٹرمپ! رائے عامہ کے لحاظ سے سر فہرست یہ موصوف ایک رئیل اسٹیٹ ٹائکون ہیں اور اب امریکی صدارت کے امیدوار بھی۔ جنابِ ٹرمپ نمائندگی ری پبلکن پارٹی کی کرتے ہیں لیکن خود اس کے لئے ان کی حیثیت کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ ان کی پارٹی چاہتی ہے کہ وہ منظر سے ہٹ جائیں،کہیں غائب ہو جائیں، دفعان ہو جائیں لیکن جب سے ان صاحب نے 2016ء کے امریکی صدارتی انتخاب کے لئے نامزدگی کی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے، ریڈیو اور ٹی وی پر جیسے انہی کا راج ہے۔ ان کی عمر 69 برس ہے، چہرہ سوجن زدہ سا ہے اور بالوں کا انداز بھی بڑا عجیب و غریب ہے۔
وال سٹریٹ جرنل میں پیگی نونن لکھتی ہیں: ''ڈونالڈ ٹرمپ کی شکل میں بے ثباتی کا عنصر بے یقینی کی شکار فضا میں داخل کر دیا گیا ہے، جلد یا بدیر اس کا ایک دھماکے دار ثبوت بھی سامنے آجائے گا‘‘۔ ہمارا خیال ہے ہو سکتا ہے یہ دھماکہ آج ہی سنائی د ے جائے کیونکہ آج ہی فاکس نیوزکے مباحثے میں ری پبلکن پارٹی کے دوسرے نو امیدواروں کے ساتھ جنابِ ٹرمپ کا ٹاکرا ہونے جا رہا ہے۔ ممکن ہے خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کی باتیں مبہم ہوں یا سلامتی کے امور پر بات کرتے ہوئے ان کی زبان لڑھک جائے یا پھر ریاستی معاملات کے بارے میں ان کی نا تجربہ کاری طشت ا ز بام ہو جائے۔ لیکن ٹرمپ کو یقین ہے ایسا قطعاً نہیں ہو سکتا! ظاہر ہے وہ یہی کہیں گے کیونکہ اپنے مد مقابل امیدواروں کو تو وہ کھلم کھلا احمق ٹھہراتے ہیں۔ وہ دوسروں کے بارے میں جتنا
بے رحمانہ تبصرہ کرتے ہیں، اتنی ہی میڈیا کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ آج کل وہ پوسٹر بوائے بنے ہوئے ہیں۔ وہ ایک شو مین ہیں اورکیوں نہ ہوں؟ آخر وہ اسی ملک کے شہری ہیں جہاں 'ٹی وی شوز‘ بے حد شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے ملک میں تو اب سیاست کو شوبز ہی سمجھا جاتا ہے، تمام سیاستدان اپنی اہلیت کے لحاظ سے لوگوں کے لئے'' تفریح کاروں‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیگی نونن کہتی ہیں: '' ڈونالڈ ٹرمپ کم ازکم اس حوالے سے تو ایماندار ہیں‘‘۔ اس سے امریکی ووٹروں کی ذہنی سطح کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ارب پتی بڑبولے کو ہلیری کلنٹن اور جیب بش پر ترجیح دیتے ہیں۔ ٹرمپ کہتے ہیں ہلیری کلنٹن صدر بنیں تو وہ نہایت بے کار صدر ہوںگی کیونکہ امریکہ کی بد ترین وزیر خارجہ رہی ہیں اور پوری امریکی تاریخ میں ان جیسی ناکام وزیر خارجہ کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے دور میںپوری دنیا ہم سے اکتا گئی تھی۔ موصوف جیب بش کے بارے میں کہتے ہیں کہ میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے والوں سے ہمدردی کی وجہ ان کی بیوی ہے جو ایک میکسیکن خاتون ہیں۔ وہ میکسیکن تارکین وطن کے بارے میں پہلے بھی کہہ چکے ہیں ان لوگوں کی وجہ سے امریکہ میں کافی مسائل پید ا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہمراہ منشیات لا رہے ہیں، جرائم میں اضافہ کر رہے ہیں اور زنا بالجبر میں ملوث ہیں۔ امریکہ میںآج 54 ملین سے زائد میکسیکن آباد ہیں، اتنی بڑی آبادی کو دشنام طرازی کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں دقت محسوس نہیں ہوتی۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ آخروہ چارارب ڈالرکے مالک ہیں! لگتا ہے آج کل اپنی نرگسیت کا جشن منانے نکلے ہیں۔ انہوں نے تین شادیاں کیں اوران کے پانچ بچے ہیں۔ سب سے بڑے بیٹے ایرک ٹرمپ کی عمر 37 برس جبکہ سب سے چھوٹا بیرن ٹرمپ 9 سال کا ہے۔ ان کی تیسری بیوی میلینیا ان سے 24 سال چھوٹی ہے۔ اسی کم سن بیوی اور اپنی بے تحاشا دولت کے بل پر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکہ کو ہمیشہ کے لئے بدل دیں گے۔ مثال کے طور پر صدارتی محل میں قدم رکھتے ہی ان کا پہلا کام یہ ہوگا کہ اپنی انتظامیہ کو ایک بہت بڑے تعمیراتی پراجیکٹ میں جوت دیںگے اور ساتھ ہی بڑے پیمانے پرمجرموں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو جائے گی۔ یہ دونوں کام ہنگامی بنیاد پر ہوںگے کیونکہ وہ بالکل برداشت نہیں کر تے کہ میکسیکو سے کوئی مجرم غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہو۔ وہ ایک طویل دیوار تعمیر کروائیں گے جسے عبورکرنا ممکن نہیں ہوگا۔ امریکہ میں شکست و ریخت کے شکار انفراسٹرکچر پر بھی ان کی توجہ مرکوز رہے گی۔
گویا موصوف تعمیراتی کاموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیں گے۔ ذرا سوچئے، یہ صاحب ہمیں پاکستان میںکس کی یاد دلا رہے ہیں؟ وہ صاحب جنہیں موٹر وے، ایکسپریس وے، پل اور زیر زمین گزرگاہوں کی تعمیر اور میٹرو بسیں متعارف کرانے کا بڑا شوق ہے، چاہے اس کے لئے نصف اسلام آباد کھود ڈالنا پڑے یا راستے ہموارکرنے کے لئے درخت کیوں نہ کاٹنا پڑیں۔ میاں صاحب کی رائے میں ان کے تعمیراتی شوق کے لئے پیسہ محصولات کی اس معمولی رقم سے مہیا ہوتا ہے جو تنخواہ دار طبقے سے وصول کیا جاتا ہے کیونکہ بڑے بڑے پیسے والے کاروباری افراد ، جاگیر دار اور پارلیمان میں بیٹھنے والے تو بڑی آسانی سے ٹیکس چوری کرلیتے ہیں۔
ٹرمپ صاحب کاروباری ذہنیت رکھتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے برعکس ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اپنا تعمیراتی شوق وہ چین اور میکسیکو کے خرچ پر پورا کریںگے۔ چین نئے محصولات کے لئے رقم فراہم کرے گا جبکہ میکسیکو اس نئی امریکی دیوارکا خرچ اٹھائے گا۔ کیا ہمارے وزیر اعظم سن رہے ہیں؟ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ میاں صاحب اپنے سیکرٹریٹ کے لوگوں سے کہہ کر کسی طرح ڈونالڈ ٹرمپ کی وہ منی لائبریری ہتھیا لینی چاہیے جس میں کاروبار میں کامیابی کے طریقے سکھانے والی کتابیں پڑی ہیں۔ جنابِ ٹرمپ کی اپنی تحریر کردہ کتابیں مثلاً :
The Art of the Deal; Think BIG and Kick Ass in Business and Life; ;
Think Big:Make It Happen in Business and Life اورThe Way to Success جیسی کئی کتابیں۔ لیکن ہمیں تو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ ہمارے وزیر اعظم مطالعے کے شوقین نہیں ہیں، انہیں تو بس خوراک کا شوق ہے۔ ویسے خوش خوراکی میں کوئی قباحت نہیں، لیکن زندگی میں آلوگوشت کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتاہے، خاص طور پر اس وقت جب انسان کے کاندھوں پر ایک ایسے ملک کی قیادت کا بوجھ ہو جہاں دہشت گردی ، غربت اورکرپشن کا راج ہے۔
خیر، بات ہو رہی تھی ڈونالڈ ٹرمپ کی۔ کسی شومین جیسے اطوار اور واشنگٹن والوں کے علاوہ غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف ان کی شعلہ بیانیاں انہیں میڈیا میںکافی مقبولیت دلا رہی ہیں۔ تین ہفتوں سے امریکہ میں پرائم ٹائم کے ٹی وی پروگراموں میں ڈونالڈ ٹرمپ کے سوا کسی دوسرے موضوع پر بات نہیں ہو رہی۔ جب بھی ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آئندہ امریکی صدر کے طو ر پر وہ امریکہ کے لئے کیا سوچ رکھتے ہیں یا وضاحت کر یں کہ وہ بظاہر ناممکن کام کیسے کر پائیں گے تو جواب کے طور پر وہ اپنی ذات کو پیش کر دیتے ہیں ۔ یہی ٹرمپ ازم کی بنیاد ہے یعنی اس سارے ایجنڈے کو جوڑے رکھنے کی واحد دوا...! خود اعتمادی ان کی آسمانوںکو چھوتی ہے۔ان کے یہ دعوے ان عمارتوں کی طرح بلند و بالا ہیں جو وہ امریکہ بھر میں موجود ہیں۔ وہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ زندگی بے شک مشکل ہے لیکن امریکہ کو سدھارنا قطعی مشکل نہیں۔ بقول ان کے ''یقین کیجئے، آپ خوش رہیں گے‘‘۔ ایسی میٹھی میٹھی باتیں تو ہم اپنے پی پی پی اور پی ایم ایل والوں سے بھی بہت سنتے آئے ہیں۔ ہمیشہ اپنے ووٹروں کو وہ یہی کہہ کر بے وقوف بناتے ہیں کہ منتخب ہونے پر وہ پاکستان میں دودھ اور شہدکی نہریں بہا دیںگے۔ ووٹر بے چارے ان کے زورِ خطابت کے شکار ہو جاتے ہیں۔
سترہ ماہ بعد امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وہاں کسی کا یہ خیال نہیں کہ اس بار وائٹ ہاؤس ڈونالڈ ٹرمپ کا مسکن بن سکے گا کیونکہ یہ موصوف بھلے اربوں کمانے کا گر جانتے ہوں لیکن دنیا کے طاقت ور ترین ملک کا انتظام چلانے کے لئے مطلوبہ صلاحیت ان میں بہرحال معدوم ہے۔ سوال ہمارے ذہن میں یہ آتا ہے کہ آخرپاکستانی ووٹرزکب آصف زرداری اور نواز شریف کا فرق سمجھیں گے؟ زرداری صاحب کی باتیں محض سطحی ہوتی ہیں اور طاقت ہتھیانے کے لئے انہوں نے بے نظیر بھٹوکی شہادت کو اپنا زینہ بنایا تھا جبکہ میاں صاحب کی دولت اور ان کے محلات چونکہ بیرون ملک ہیں اس لئے کروڑوں پاکستانیوں کی خدمت کے لئے جن عزائم کا وہ اظہارکرتے رہتے ہیں، ان کے سچے ہونے کا سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ دونوں جب تک اپنی ساری دولت پاکستان واپس نہیں لاتے اور یہ عہد نہیں کرتے کہ سرکاری دوروں کے سوا پاکستان سے باہر قدم نہیں رکھیں گے،ان کی کسی بات پر اعتبارکیسے کیا جا سکتا ہے؟