تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     06-08-2015

کراچی سے لاہور

بلونت سنگھ کا افسانہ 'نہال چند‘ ہم سفروں سے مسکراہٹوں اور گاہے قہقہوں کا تبادلہ، تھوڑی سی نیند اور تھوڑا ساکھانا۔۔۔۔۔اس رختِ سفر کے ساتھ کراچی سے لاہور تک کا سفر ، یوں سمجھیے کہ پلک جھپکنے میں گزر گیا۔ سفر آپ جانتے ہیں کہ مسافت سے زیادہ کیفیت کا نام ہے۔ یوں آپ چاہیں تو فضا میں بھی شجر ہائے سایہ دار تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
کراچی سے نکلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک بے آب و گیاہ سر زمین ہے جو تا حدِ نظرپھیلی ہوئی ہے۔ پنجاب میں داخل ہوتے ہیں تو سبزہ آنکھوں میں سما جاتا ہے۔ ان دنوں تو سیلاب کا سماں ہے ۔سبز کھیت اور پانی میں ڈوبی بستیاں، یہ منظر پہلے نقش کو بھلا دیتا ہے۔ ہم ایک نیا پاکستان دیکھتے ہیں ۔لاہور اترتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے ایک ترقی یافتہ شہرمیں قدم رکھ دیا ہے۔ اب ایک اورپاکستان ہمارے سامنے ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ خوب صورت منظر آپ کی نگاہوں میں بسا رہے توکوشش کیجیے کہ ایئرپورٹ سے نکلنے کے بعد کینٹ سے ہوتے مال روڈ کے کسی بڑے ہوٹل میں قیام پذیر ہو جا ئیں۔ اگر کسی مجبوری سے باہر قدم نکالیں بھی تو یوحنا آباد جیسے علاقوں میں مت جائیں۔ اگرآپ چاہتے ہیں کہ نازک آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے اور آپ سوال نہ اٹھائیں کہ کیا یہ بھی لاہور ہے، میرا مشورہ ہے کہ ایسے علاقوں سے گریز بہتر ہے۔
پاکستان بہت سے رنگوں کا مجموعہ ہے۔ بہت سے رنگ وہ ہیں جو قدرت نے بکھیرے ہیں۔ یہ تنوع ، حسن کا اظہار ہے۔ ان میں موجود افادیت کا پہلو اضافی ہے۔ پہاڑ ہیں تو معدنیات کے ذخیرے اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں۔ آپ ان میں جھانکیںتونگاہیں خیرہ ہو جائیں۔ میدان ہیں تو زرخیزی کو اپنے بطن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ ایک دانہ اُن کے حوالے کرو تو بے شمار دانوں میںبدل کر لوٹا دیتے ہیں۔ پھر جنگل ہیں جو زمین کے موسموں کو تھامے ہوئے ہیں۔ یہ کٹ جائیں تو بارش روٹھ جا تی ہے۔ بارش نہ ہوتو گرمی بڑھ جاتی ہے۔ یہ تنوع،اس لیے اپنا حسن اورافادیت رکھتا ہے۔ایک تفریق لیکن وہ ہے جو ہمارے اعمال کا صلہ ہے۔ یہ رنگ وہ ہے جو ہم نے لگائے ہیں۔'رنگ لگانا‘ پنجابی کا محاورہ ہے۔ اگر آپ اس سے واقف ہیں تو رنگ بکھیرنے اور رنگ لگانے کا فرق آپ پر واضح ہو جا ئے گا۔ قدرت رنگ بکھیرتی ہے، ہم رنگ لگاتے ہیں۔
کراچی میں دو دن گزارے تو معلوم ہوا کہ پان کا رنگ سارے شہر میں پھیلا ہوا ہے۔ میں کیماڑی گیا۔ دوست مجھے ایک بوٹ میں بٹھا کرمنوڑا لے گئے۔کیماڑی ہی کیا، پورے شہر میں پان کے رنگ کا راج ہے۔ میں نے ایک جگہ لکھا ہوا دیکھا:'پان تھوکنے پر دو سو روپیہ جرمانہ‘۔ میں نے دیکھا کہ اس جملے پر لوگوں نے سب سے زیادہ تھوکا ہوا تھا۔کراچی جس طرح زندگی سے مملو ہے،اس کی مثال تلاش کرنا محال ہے۔ دنیاکا شاید ہی کوئی شہرایسا ہو جہاں زندگی زخم کھانے کے بعد بھی اپنی مسکراہٹ سے دست بردار ہونے پر آ مادہ نہیں۔ اگر اس شہر کو صاف رکھا جا ئے تو اس کی دلکشی میں کہیں اضافہ ہو جائے۔ میرا احساس ہے کہ یہ کام حکومت کا نہیں، شہریوں کا ہے۔ حکومت نے پل بنادیئے۔انہیں صاف تو ہم نے رکھنا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔ یہ مناظر دیکھ کر انہوں نے رائے دی کہ کراچی میںپان کھانے کے خلاف بھی ویسی ہی ایک سماجی تحریک اٹھنی چاہیے جیسی تمبا کو نوشی کے خلاف اٹھائی گئی۔ انسانی صحت پر اس کے جو مضر اثرات ہیں، وہ اپنی جگہ، سماج پر بھی اس کے بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان اثرات میں سب سے اہم ماحولیات سے متعلق ہے۔ پان کھانا ایک کلچرہے۔ یہ ایسا عمل ہے جو دکھائی دیتا ہے۔ انسانی دانت ہی نہیں، سڑکوں پر بھی اس کے نقش و نگاربکھرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر انسان کا جمالیاتی ذوق زندہ رہے تو یہ مناظر اس کی طبیعت میں تکدر پیدا کر تے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جمالیات ذوق مر جائے توانسانی بستیاں اپنی خوب صورتی کھو دیں۔ ہمیں اس معاملے میں اپنے سماج کو حساس بنانا چاہیے۔ اگر کراچی میں رہنے والے اپنے شہر پر جمالیاتی نگاہ ڈالیں تو انہیں اندازہ ہو کہ پان کا کلچر کس طرح اس شہر کے حسن کو پا مال کر رہا ہے۔ اس تجویز پر یقیناً غور کیا جا ئے کہ کراچی میں اگر پان کھانے کے خلاف کوئی مہم چلے تو کیا اچھا ہو!
کراچی کے حسن کا ایک مظہر منوڑا میں بھی دیکھا۔ سمندر کی شفاف اور پر جوش لہریں جب ساحل سے ٹکراتی ہیں توجلترنگ بج اٹھتا ہے۔ لہریںساحل کی طرف بڑھتی ہیں تونظروں کو بہت بھلی لگتی ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ دوسرے ممالک میں یہ مناظرساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں ۔ا نسانی کوشش ساحلوں کی اس طرح تنظیم کرتی ہے کہ قدرت کا یہ حسن مزید نکھر جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہم اپنے ہم وطنوں کے لیے بھی انہیں پُر کشش نہیں بنا سکے۔ اگر یہاں بھی ہمارے جمالیاتی ذوق کا ظہور ہو توکراچی کا امن زیادہ تیزی سے بحال ہو۔ جو معاشرہ جمالیاتی احساس سے محروم ہو جا تا ہے وہاں امن کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ پھر وہاں وحشت کا راج ہوتا ہے جس طرح ہمارے ملک میں ہے۔
یہ معاملہ حکومتوں سے متعلق ہے۔ سماج کی ذمہ داری اپنی جگہ اور حکومت کی اپنی جگہ۔ میں نے لاہور کے یو حنا آباد کا ذکر کیا۔ یہ حکومت کی مجرمانہ غفلت کا مظہر ہے۔ لاہور شہر کا ایک حصہ جس طرح زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، میرے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ اسی طرح ساحلوں اور تفریح گاہوں کی تعمیر و تنظیم حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ کراچی میں پان کے رنگ سماج کی دَین ہیں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ سماجی اداروں کو متوجہ ہونا چاہیے۔ میڈیا بھی اگر ایسی تحریک چلائے تو میرا خیال ہے کہ اس کے بہترنتائج نکل سکتے ہیں۔کراچی سے لاہورکی طرف آتے ہوئے، میں اسی پر غور کر تا رہا اور مجھے خیال ہوا کہ میں آپ کو بھی شریک کروں۔ اگر سماجی تنظیمیں اس جانب توجہ دیںتو اس کے نتائج بہتر نکل سکتے ہیں۔
اس باب میں ایک کردار علما کا بھی ہے۔ اگر شہر کو خوب صورت بنانا ہے تو لازم ہے کہ زندگی کاجمالیاتی پہلو خطبہ جمعہ کا مو ضوع بنے۔ اس حوالے سے علما کو بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ علما اگر چہ اپنے لیے کسی تربیت کی ضرورت نہیں سمجھتے مگر میرا احساس ہے کہ یہ معاملات ان کی تعلیم کا حصہ نہیں رہے۔ لازم ہے کہ جب کسی مسجد کا ممبر ان کے ہاتھ آئے تو ان پر واضح رہنا چاہیے کہ ان کا سب سے اہم کردار سماجی ہے۔ اب انہیں مذہب کی وہ تعلیمات بھی پیش کرنی ہیں جو سماج سے متعلق ہیں۔ ان میں سے ایک اپنی بستیوں کو خوب صورت بنانا اور رکھنا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کراچی کی کسی مسجد میں کبھی پان کھانے کے موضوع پر بھی کوئی خطبہ دیا گیا ہو۔ 
کراچی سے لاہور تک کا سفر مجھ پر پاکستان کے رنگوں کو نمایاں کرتا رہا۔ میں قدرت کے حسن اور اپنی کمزوریوں کا براہ راست مشاہدہ کرتا رہا۔ بلونت سنگھ، پریم چند اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا ماحول تو شاید ہم لوٹا نہ سکیں مگر آج کے دور میں رہتے ہوئے کیا ہم اپنے ملک کو خوب صورت نہیں بنا سکتے؟ اس کے لیے مگر زندگی کو جمالیاتی پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت تصورِ مذہب سے لے کر تصورِ سماج تک، بہت سے پہلوؤں پر محیط ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved