استدعا
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا محترم ڈی جی رینجر کے اس مطالبے پر کہ 187 ٹارگٹ کلرز کارکن ان کے حوالے کیے جائیں جو ایم کیو ایم کے عسکری ونگز سے تعلق رکھتے ہیں، ان سے گزارش کی جاتی ہے کہ ہمیں اس میں کوئی عذر نہیں اور ہم ان سے زیادہ عزیزوں کو بھی رینجرز کے حوالے کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ ان کے لیے کسی متبادل روز گار کا انتظام کیا جائے کیونکہ بے روزگاری ہی کی وجہ سے تو یہ برخورداران بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کو بطور پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ یہ ان کے ہنر کا بھی ضیاع ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی تربیت ان بے چاروں نے پتا نہیں کہاں کہاں جا کر حاصل کی ہے۔ سو براہ کرم ان کے لیے مناسب نوکریوں کا بندوبست کیا جائے بلکہ ترجیحی طور پر انہیں بلدیہ، واٹر بورڈ اور محکمہ مال میں کھپانے کا تردد کیا جائے تاکہ اوپر سے بھی کچھ دال دلیا ہو سکے کیونکہ کون نہیں جانتا کہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں اکیلی تنخواہ پر کس کا گزارا ہوتا ہے۔
المشتہر : فاروق ستار عفی عنہ
وضاحت
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا وضاحت کی جائے کہ محترم یوسف رضا گیلانی، مخدوم امین فہیم اور پیپلز پارٹی کے دیگر معززین کے خلاف غبن اور کرپشن وغیرہ کی انکوائریوں اور مقدمات میں کسی پیش رفت
نہ ہونے کی جو شکایت کی جا رہی ہے وہ زمینی حقائق کے سراسر منافی ہے کیونکہ اپنے بار بار کے اعلان کے مطابق ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تاکہ جمہوریت مضبوط ہو۔ اگر گیلانی صاحب پر 7 ارب روپے واپس کرنے کا دبائو ڈالا بھی جائے تو پلی بارگیننگ میں ان سے صرف 3 ارب ہی وصول ہو سکے گا اور باقی 4 ارب ان کے لیے شیر مادر کی حیثیت حاصل کر جائے گا اور اگر قوم اور ملکی خزانہ اس 4 ارب نقصان کا متحمل ہو سکتا ہے تو یقینا 7 ارب کا بھی ہو سکتا ہے ویسے بھی وسائل سے بھرپور اس ملک میں 7 ارب روپے کی کیا اہمیت و حیثیت ہو سکتی ہے، ہیں جی؟ اس لیے جناب کامران خان سمیت جملہ حضرات سے درخواست ہے کہ ایسے معروضی معاملات پر وقت ضائع کرنے کی بجائے کسی تعمیری کام پر توجہ دیں۔
المشتہر : محمد نواز شریف عفی عنہ
قومی مصلحت
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا عوام الناس مطلع رہیں کہ اگرچہ خاکسار نے اعلان کر دیا ہے کہ جناب الطاف حسین کے خلاف ریفرنس تیار ہو چکا ہے، لیکن اس پر بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لازمی طور پر یہ دائر بھی کیا جائے گا اور چونکہ حکومت سارے کام قومی مفاد میں کر رہی ہے اور یہ سنہری اصول ہم نے محترم جنرل پرویز مشرف صاحب سے ہی سیکھا ہے اس لئے فی الحال اس پر چند ماہ کے لیے ٹھنڈے دل سے غور ہی کیا جائے گا جس کے لیے وزیراعظم صاحب نے کمر کس لی ہے اور اپنے شہرہ آفاق غوروخوض کا سلسلہ وہ بہت جلد شروع کر دیں گے اور معترضین کو لگ پتا جائے گا۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کا معاملہ بھی اسی لیے مسلسل التوا میں رکھا رہا ہے کہ وزیراعظم صاحب اسے اپنے غوروخوض سے سرفراز فرما رہے ہیں جلدی کا کام ویسے بھی شیطان کا ہوتا ہے۔ اس لیے ہماری جماعت سے، جو کہ ماشاء اللہ فرشتوں پر مشتمل ہے، کسی جلد بازی کی توقع نہ رکھی جائے۔
المشتہر : چودھری نثار علی خان عفی عنہ
ایک گزارش
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا متعلقہ ادارہ اور اس کے جملہ معززین سے گزارش ہے کہ خاکسار نے اگلے روز آرمی چیف جناب جنرل راحیل شریف کو جو سلام پیش کیا ہے اس کے وعلیکم السلام کا شدید انتظار رہے گا جبکہ یہ بھی نوٹ فرما لیا گیا ہو گا کہ وہ سلام صرف خاکسار کی طرف سے نہیں بلکہ پارٹی کے جملہ عمائدین کی طرف سے تھا جن میں قائد محترم جناب آصف علی زرداری بھی شامل ہیں جن کے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بیان کو نہ صرف توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا بلکہ اس کا غلط مطلب اخذ کیا گیا کیونکہ وہ محض ایک محاورہ تھا ورنہ آرمی چیف اور دیگر جرنیل حضرات کون سا اینٹوں کا کاروبار کرتے ہیں یا بھٹے چلا رہے ہیں جن کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی۔ چنانچہ صاحب موصوف کی طرف سے وعلیکم السلام کا زبردست انتظار ہے۔ جس کے بعد جناب زرداری بے فکر ہو کر واپس آ سکیں گے : تاکہ پارٹی کے گلشن کا کاروبار ایک بار پھر چلنا شروع ہو جائے کیونکہ کاروبار تو چلتے ہی رہنا چاہیے۔
المشتہر : منظور احمد خان وٹو عفی عنہ
احتجاج
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا خاکسار کی طرف سے عمران خان کے اس توہین آمیز بیان پر احتجاج کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ مولانا کے ضمیر کی قیمت ڈیزل کے ایک پرمٹ یا ایک وزارت سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ یہ بہت پہلے کی بات ہو سکتی ہے جبکہ آج کل چونکہ مہنگائی بھی زور پر ہے اور ایک آدھ پرمٹ سے بنتا بناتا بھی کچھ نہیں ہے، اس لیے اس بیان کو براہ کرم کوئی اہمیت نہ دی جائے کیونکہ یہ میری مارکیٹ ویلیو گھٹانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ یہ اگر اس قدر سستا سودا ہوتا تو خاکسار اب تک تحریک واپس لے چکا ہوتا اور وزیراعظم اس وقت فتح کے ڈنکے بجا رہے ہوتے، اگرچہ اس ضمن میں ان کی اَن تھک کوششیں قابل داد ہیں لیکن انہیں اس بات کا بھی لحاظ کرنا چاہیے کہ اب وہ اگلے والا زمانہ نہیں ہے اور ایک آدھ پرمٹ تو ویسے بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے جبکہ اس اونٹ کی ماشاء اللہ کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہے اور سیدھی کرنے کے لیے خاصا زور لگانا پڑتا ہے اور وزیراعظم میں ماشاء اللہ وہ زور موجود بھی ہے لیکن وہ شاید اسے کسی اور معرکے کے لیے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ زور اگر اتفاق سے موجود ہے تو اللہ کا نام لے کر پورے کا پورا لگا دینا چاہیے اور کسی مناسب وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ ہر وقت ہی مناسب وقت ہوتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گیا وقت پھر آتا نہیں!
المشتہر : عاجز و مسکین فضل الرحمن عفی عنہ
آج کا مقطع
اب تو میں آپ بھی تیار ہوں جانے کو، ظفرؔ
آخری عمر کا یہ عشق جدھر لے جائے