تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     07-08-2015

اور اب بھارت کو خط

اور اب بھارتی ہائی کمشنر کو ایم کیو ایم کا خط؟ ایں گُلِ دیگر شگفت۔ سردار ایاز صادق کو الطاف حسین کا وکیل بننے کی ضرورت نہ تھی‘ مگر قیادت کے دبائو پر وہ بنے اور مسلم لیگ کے دوغلے پن کو آشکار کر بیٹھے۔
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان الطاف حسین کے خلاف قانونی ریفرنس بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ قومی پریس کے سامنے دو بار وہ اعلان کر چکے مگر ایاز صادق پارلیمنٹ میں الطاف حسین کی صفائی دے رہے ہیں کہ موصوف فوج‘ رینجرز اور پولیس کو اپنا سمجھتے ہیں۔ امریکی شہر ڈیلاس کی تقریب میں الطاف حسین نے ''اپنی‘‘ فوج‘ رینجرز اور پولیس کے علاوہ پاکستان کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ اسی اپنائیت کا اظہار تھا ؎
گلۂ جفائے وفا نما جو حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بُت کدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری
وزیر داخلہ اور وزیر دفاع‘ الطاف حسین کے بارے میں جو کہہ رہے ہیں وہ حکومت پاکستان کی پالیسی ہے؟ یا ایاز صادق نے جو کیا اور کہا اسے ریاست اور پارلیمنٹ کے جذبات کا مظہر سمجھا جائے؟ اسی بنا پر مخالفین مسلم لیگ (ن) اور حکومت پر دوغلے پن کا الزام لگاتے ہیں ؎
یہ مسجد ہے یہ میخانہ‘ تعجب اس پہ آتا ہے
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مسلسل پاکستان مخالف تقاریر اور بیانات کے باوجود ایم کیو ایم کی صف اول کی قیادت الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کیوں نہیں کرتی؟ محب وطن کارکن اور عوام الطاف حسین اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کیوں نہیں کرتے؟ جواب کراچی آپریشن شروع کرنے کی ذمہ دار اور نیشنل ایکشن 
پلان کی معمار مسلم لیگی حکومت کے طرزِ عمل میں پنہاں ہے جس کی زبان پر آپریشن میں مصروف رینجرز اور فوج کی تعریف و توصیف اور دل میں الطاف حسین اور آصف علی زرداری جیسے جمہوریت پسندوں کی محبت موجزن ہے۔
با مسلماں اللہ اللہ‘ با برہمن رام رام
تین بار یہ تماشہ ہو چکا ہے۔ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں‘ اغوا کاروں اور ریاست کے باغیوں کے خلاف جب آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہونے لگتا ہے۔ کراچی‘ حیدر آباد اور سکھر کے محب وطن عوام کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم ''را‘‘ کے ایجنٹوں کی گرفت سے آزاد ہونے لگتی ہے تو کبھی نواز شریف اور زرداری جیسے منتخب حکمران اور کبھی پرویز مشرف جیسا فوجی آمر سیاسی مصلحتوں کے تحت آپریشن روک کر انہی لوگوں کو گلے لگا لیتا ہے‘ جنہوں نے برسوں سے کراچی اور ایم کیو ایم کو یرغمال اور پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ کون بے وقوف ہو گا جو ایاز صادق کے الطاف حسین کو فون کے بعد یہ سوچے کہ حکومت کراچی آپریشن میں سنجیدہ ہے اور وہ الطاف حسین کے پاکستان مخالف بیانات کو واقعی ملک دشمنی پر محمول کرتی ہے۔
یہی طرز عمل ایم کیو ایم کے ان انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو اب ''را‘‘ سے اپنے رابطے چھپاتے ہیں‘ نہ بھارت کو پاکستان میں مداخلت کی دعوت دیتے ہوئے جھجکتے اور شرماتے ہیں۔ امریکی شہر ڈیلاس میں کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب کے بارے میں‘ ایم کیو ایم کا کوئی لیڈر ڈھنگ کی وضاحت نہ کر سکا مگر تحریک انصاف اور عمران خان کی دشمنی میں حکمران جماعت نے اپنے سپیکر کے ذریعے اسے (خطاب کو) چند منٹوں میں بیل آئوٹ کر دیا۔ تاہم قدرت کے رنگ ڈھنگ نرالے ہیں۔ ابھی ایاز صادق کا بیان ٹی وی سکرین سے غائب نہیں ہوا تھا کہ بھارتی ہائی کمشنر کو لکھا گیا ایم کیو ایم کا خط منظر عام پر آ گیا جس میں چار کارکنوں کی گرفتاری پر بھارت سمیت 55 ممالک سے نوٹس لینے اور کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی شام الطاف بھائی نے اپنے خطاب میں پھر کہا کہ وہ اقوام متحدہ سے رجوع ضرور کریں گے۔
یہ اگر مان بھی لیا جائے کہ خط صرف بھارت کو نہیں لکھا گیا اور مخاطب دیگر 55 ممالک ہیں تو سوال یہ ہے کہ چار مشکوک افراد کی گرفتاری پر پاکستان کے خلاف کس قسم کی کارروائی مطلوب ہے؟ کیا ایک آزاد اور خود مختار ریاست چار افراد کی گرفتاری پر دوسرے ممالک بالخصوص بھارت کو جوابدہ ہے؟ اور ایک ایسی سیاسی جماعت جس سے رینجرز 187 ٹارگٹ کلرز طلب کر رہی ہے‘ دوسرے ممالک کو اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینے کی مجاز ہے؟ لشکر جھنگوی‘ تحریک طالبان پاکستان‘ بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی انہی سرگرمیوں کی بنا پر کالعدم ہوئیں اور ملک دشمن قرار پائیں۔
الطاف حسین کی تقریر اور ایم کیو ایم کے خط کا معقول جواز کوئی باشعور شخص پیش نہیں کر سکتا۔ آئیں بائیں شائیں کرنے والوں نے بھی اب تک ڈھنگ کی کوئی بات نہیں کی۔ 2004ء میں نئی دہلی کی تقریر پر اگر پرویز مشرف آئین کے مطابق کارروائی کرتے اور اپنے حلف کے تقاضوں پر سیاسی مصلحتوں اور مفاد کو ترجیح نہ دیتے تو آج پاکستان ''ماسی دا ویہڑا‘‘ نہ ہوتا مگر تا بکے؟ ؎
اک ذرا صبر کہ صیاد کے دن تھوڑے ہیں
رابطہ کمیٹی بھاگ کھڑی ہوئی اور دیگر اسلام آباد میں پناہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ داخلی احتساب کے ذریعے پاک فوج نے تو اپنی سنجیدگی ظاہر کی ہے۔ جب کرپشن اور بے ضابطگی پر میجر جنرل رینک کے فوجی افسر قانون سے ماورا نہیں اور قابل گرفت ہیں تو کسی ٹارگٹ کلر‘ بھتہ خور‘ اغوا کار اور بھارت کے یار سے رو رعایت کیوں؟ سیاستدان اور منتخب حکمران ابھی تک شاید چوہے بلی کا کھیل کھیلنے کے خواہش مند ہیں۔ چودھری نثار کچھ کہتے ہیں‘ خواجہ آصف کچھ اور سپیکر ایاز صادق بالکل برعکس۔ یہ سیاسی مفاہمت کا وہ گھنائونا کھیل ہے جو آصف علی زرداری نے شروع کیا‘ میاں صاحب شاید جاری رکھنا چاہتے ہیں‘ اور ہر ایک نے قومی وسائل کی لوٹ سیل سے اپنی جھولیاں بھریں‘ بیرون ملک اکائونٹس اور اثاثوں کے ریکارڈ قائم کئے اور غریب آدمی کے لیے اس ملک میں تعلیم و صحت‘ امن اور انصاف تو دور‘ روٹی روزگار کا حصول بھی مشکل بنا دیا۔ دو سو روپے سے کم روزانہ کمانے والوں کی تعداد 59 فیصد ہے جبکہ پانچ فیصد اشرافیہ جائز و ناجائز طریقے سے کروڑ روپیہ روزانہ کما کر بھی پاکستان کو گالیاں دیتی ہے۔
صرف شمالی وزیرستان اور بلوچستان ہی نہیں کراچی آپریشن کی کامیابی پر ملکی بقا اور جمہوری استحکام کا انحصار ہے۔ خدانخواستہ 1992ء‘ 1995ء اور 1999ء کی طرح کراچی آپریشن سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا تو اب پولیس اور رینجرز کو نہیں‘ ریاست کو دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں‘ اغوا کاروں اور ''را‘‘ کے مستند و مصدقہ ایجنٹوں کے سامنے پسپا ہونا پڑے گا۔ سیاسی بالادستی اور جمہوری قوتوں کے اتحاد کی آڑ میں آپریشن کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی تباہ کن ہے‘ مگر کسی کو احساس نہیں۔ عدم دلچسپی کے آثار واضح ہیں۔
قومی اسمبلی میں ہفتہ بھر تحریک انصاف اور عمران خان کی گوشمالی ہوتی رہی۔ شاید عمران خان‘ الطاف حسین سے بڑا مجرم اور حکومت کی مخالفت‘ بھارت و اقوام متحدہ کو مداخلت کی دعوت سے زیادہ اور سنگین جرم ہے۔ ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام کی قراردادیں زیر بحث رہیں۔ سیاسی مفاہمت کا راگ الاپا گیا مگر ایک دن بھی سیلاب و بارش زدگان سے اظہار ہمدردی ہوا نہ‘ بھارت کی تازہ ریشہ دوانیوں اور اس کے ایجنٹوں کی سازشوں کا تذکرہ اور نہ ملک دشمن عناصر کے مقابلے میں سکیورٹی فورسز کی حوصلہ افزائی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ پچھلے سال کی طرح اس بار بھی سایوں کا تعاقب البتہ جاری ہے۔ پرویز مشرف کو تختۂ دار پر نہیں کھینچا جا سکا‘ اب شجاع پاشا اور ظہیرالاسلام ہدف ہیں۔ کیا نواز حکومت ایک بار پھر بم کو لات مارنے کی تیاریوں میں مصروف ہے؟ میاں نواز شریف ایک سردار جی کا لطیفہ سنایا کرتے ہیں‘ جس نے اپنی بات پر قائم رہنے کی مثال قائم کی تھی۔ فوج کو پولیس اور چیف آف آرمی سٹاف کو آئی جی پولیس کی سطح پر لانے کی دیرینہ خواہش نے اب تک دم نہیں توڑا؟ ورنہ نان ایشوز پر بیان بازی‘ گڑے مردے اکھاڑنے کی تدبیریں اور الطاف حسین کے بیانات اور ایم کیو ایم کے خط سے چشم پوشی کا کیا قرینہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved