تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     07-08-2015

ملا عمر : شخصیت کے چند پہلو

افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کی وفات کی تصدیق کے بعد ان کی زندگی اور شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے، ان کے بارے میں چند باتیں ایسی ہیں جو کبھی بھی صیغہ راز میں نہیں رہیں۔ مثلاً وہ بہت کم گو تھے، مغربی ذرائع ابلاغ میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ بہت کم لوگوں سے ملتے تھے اور اکثر لوگ ان تک رسائی سے محروم تھے لیکن رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق حقیقت اس سے برعکس تھی۔ اپنے دور حکومت (2001-1996) میں ان کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے رہتے تھے اور ان کے کمرے میں ان سے ملاقات کے خواہش مند افراد جن میں عام طالبان بھی شامل تھے کا ہر وقت جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ ان کی وفات کے بارے میں افغان حکومت کے ایک بیان میں جب یہ دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے اپنی آخری سانسیں پاکستان میں لی تھیں تو پاکستانی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بار بار دکھائے جانے والے بعض چہروں نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ملا عمر پاکستان کبھی بھی نہیں آئے اور ان کی موت بھی افغانستان میں ہی واقع ہوئی۔ حالانکہ متعدد ذرائع کے حوالے سے نہ صرف بیرونی بلکہ پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق اکتوبر 2001ء میں ملا عمر اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو گئے تھے اوراس کے بعد وہ مختلف جگہوں پر مقیم رہے۔ اس کی وجہ غالباً سکیورٹی خدشات تھے۔ ملا عمر کے ساتھ افغان طالبان کے دوسرے رہنما بھی افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آ گئے تھے۔ کوئٹہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور یہیں سے وہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ اس نسبت سے یہ گروپ کوئٹہ شوریٰ کے نام سے مشہور ہوا۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کوئٹہ میں ملا عمر کی موجودگی کی نشاندہی کرتے 
ہوئے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی توجہ اس طرف مبذول بھی کروائی تھی مگر پرویز مشرف اور خصوصاً ان کے وزیر اطلاعات شیخ رشید نے بڑی سختی سے ملا عمر کی پاکستان میں موجودگی کی تردید کی تھی تاہم رحیم اللہ یوسف زئی جن کا صحافتی کیریئر تقریباً تین دہائیوں پر محیط ہے اور افغانستان کے بارے میں ان کے تجزیے اور اندازے ہمیشہ درست ثابت ہوئے ہیں، کے مطابق 2001ء کے بعد ملا عمر نہ صرف پاکستان میں موجود تھے بلکہ ان کی موت بھی پاکستان غالباً کراچی میں ہوئی۔ البتہ اسی دوران وہ زیادہ تر روپوش رہے، لوگوں سے ملنا جلنا محدود کر دیا تھا، یہاں تک کہ طالبان کے بعض اہم کمانڈروں کو بھی ان تک رسائی حاصل نہ تھی۔ ملا عمر کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے جو بھی دینی تعلیم حاصل کی وہ افغانستان میں ہی حاصل کی اور پاکستان کے کسی دینی مدرسے میں انہوں نے طالب علم کی حیثیت سے وقت نہیں گزارا۔ حالانکہ ہمارے ہاں کچھ علماء دعویٰ کرتے ہیں کہ ملا عمر ان کے شاگرد تھے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق ملا عمر نہ صرف کسی بھی پاکستانی مدرسے کے طالب علم نہیں تھے بلکہ افغانستان میں بھی رہتے ہوئے وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکے تھے۔ اسی لیے وہ کہا کرتے تھے کہ انہیں ملا نہ کہا جائے کیونکہ ملا کے لفظی معنی ہیں علم دینے والا اور چونکہ خود ان کی اپنی تعلیم مکمل نہیں تھی اس لیے وہ ملا کہلانے کے مستحق نہیں۔ 
بے شک ملا عمر کی دینی تعلیم مکمل نہ تھی اور وہ انتہائی منکسر المزاج شخصیت کے مالک تھے لیکن وہ ایک ناقابل شکست قوت ارادی اور آہنی عزم کے مالک تھے اگرچہ ان کا ویژن بہت محدود تھا اور بہت سے معاملات میں ان کے رویے اور مؤقف سے عقل کی بجائے ضد کا عنصر زیادہ ٹپکتا تھا۔ اپنے حکم اور فیصلے پر عملدرآمد کے راستے میں وہ کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کی ڈکشنری میں لچک اور سمجھوتے کے الفاظ نہیں تھے اور لوگوں پر ان کی اپیل یا حکم جادو جیسا اثر رکھتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان حکومت کے دور میں افغانستان کے کسی حصے میں گوشت کی قلت واقع ہو گئی۔ ملا عمر نے ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگوں سے ان علاقوں میں بھیڑ، بکریاں بھیجنے کی اپیل کی۔ ان کی اپیل پر لوگوں نے اتنی بڑی تعداد میں اپنی بھیڑ بکریاں بھیجیں کہ ملا عمر کو مزید بھیڑ بکریاں نہ بھیجنے کی اپیل کرنا پڑی۔ 1996ء میں کابل پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا اور جلد ہی وہ افغانستان کے بیشتر علاقے پر قابض ہو گئے تھے‘ صرف پنج شیر وادی میں احمد شاہ مسعود کی زیر کمان شمالی اتحاد کی فوجیں مزاحمت کر رہی تھیں۔ ملا عمر نے اب اپنی تمام توانائیاں احمد شاہ مسعود کو شکست اور نیست و نابود کرنے کے لیے مرکوز کر رکھی تھیں۔ اس سے ملا عمر کی سوچ اور فکر کا پتہ چلتا ہے وہ اپنے خلاف کسی حریف یا مخالف کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ احمد شاہ مسعود بھی روسیوں کے خلاف لڑنے والا ایک مجاہد تھا۔ اگر ملا عمر اس کی طرف صلح اور تعاون کا ہاتھ بڑھاتے تو افغانستان 5 برس کی خانہ جنگی کے تباہ کن اثرات سے بچ سکتا تھا۔ 9 ستمبر 2001ء کو احمد شاہ مسعود ایک خودکش حملہ میں ہلاک ہو گیا جس کے بارے میں شک کیا جاتا ہے کہ یہ اقدام صحافیوں کے بھیس میں القاعدہ کے اراکین نے طالبان کے ایماء پر کیا تھا مگر اس کے صرف دو دن بعد 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں حالات و واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے خاتمہ پر منتج ہوا۔ 
پاکستان میں عام طور پر خصوصاً مذہبی سیاسی جماعتوں کے حلقوں میں یقین کیا جاتا ہے کہ طالبان اور ملا عمر نہ صرف پاکستان کے دوست بلکہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے زیر اثر تھے تاہم 1996ء سے 2001ء کے درمیان پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے درمیان تعلقات کی کہانی اس تاثر کی نفی کرتی ہے۔ سب سے پہلے جب پاکستان نے جنرل ضیاء الحق کی ناعاقبت اندیش فیصلوں کے مضمرات محسوس کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان ڈیورنڈ لائن کے آر پار لوگوں کی آمدورفت کو ایک بین الاقوامی سرحد کے مطابق ڈھالنا چاہا تو طالبان نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر جو مشرف کے دور میں وزیر داخلہ تھے، کے مطابق طالبان نے نہ صرف ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس پر اصرار کیا کہ افغانستان کے لوگ جب چاہیں اور جہاں سے مرضی چاہیں سرحد عبور کر کے بغیر پاسپورٹ یا کسی سفری دستاویز کے پاکستان جائیں گے۔ اس زمانے میں افغانستان کے لوگ ملک سے باہر جانے کے لیے پاکستان کے پاسپورٹ استعمال کرتے تھے۔ جنرل معین الدین حیدر کے مطابق جب پاکستان نے طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بیرون ملک سفر کے لیے پاسپورٹ بنوائیں تو ملا عمر نے کہا کہ افغانستان کے لوگ بہت غریب ہیں وہ پاسپورٹ نہیں بنوا سکتے اگر پاکستان کو بہت شوق ہے تو اپنے پلے سے افغانیوں کو پاسپورٹ بنوا دیں۔
سب سے دلچسپ کہانی 11 ستمبر 2001ء کے بعد شروع ہوتی ہے جب پاکستان کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے ملا عمر سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کی رائے دی، ورنہ امریکہ افغانستان پر حملہ کر دے گا تو ملا عمر کا پاکستان کے وفد کو یہ جواب تھا۔ You people have never won a war and we have never lost a war. یعنی افغانی امریکہ سے خوف زدہ نہیں ہیں کیونکہ تاریخ میں انہوں نے کبھی کوئی جنگ نہیں ہاری جبکہ پاکستان کو اب تک کسی جنگ میں جیت کی مشکل دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔ بامیان میں 1400 سال پرانے مہاتما بدھ کے مجسمے کو مسمار کرنے کے مسئلے پر ملا عمر نے انتہائی غیر لچک دار رویہ اختیار کیا۔ طالبان کو اس اقدام سے باز رکھنے کے لیے پاکستان سے بھی ایک وفد جس کی قیادت جنرل معین الدین حیدر کر رہے تھے، نے ملا عمر سے ملاقات کی اور اس وقت کے پاکستانی صدر جناب رفیق احمد تارڑ کی طرف سے ان کو ایک خصوصی پیغام پہنچایا گیا جس میں ایک قرآنی آیت کا حوالہ دے کر مہاتما بدھ کے مجسمے کو تباہی سے بچانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جنرل معین الدین حیدر کے مطابق ملا عمر کا موقف یہ تھا کہ قیامت کے دن جب میں اللہ کے حضور پیش ہوں گا تو خدا مجھ سے پوچھے گا کہ ملا عمر تم سے یہ بت نہیں توڑا جا سکا؟ جنرل معین الدین حیدر کے خیال میں ملا عمر کی شخصیت یقین محکم لیکن کوتاہ اندیشی (Limited vision) کا مجسمہ تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved