یہ کتاب مجھے محبی ناصر بشیر کے ذریعے موصول ہوئی ہے جو قمر رضا شہزاد، ڈاکٹر اختر شمار اور لاتعداد افراد سمیت شاعر موصوف کے حلقہ شاگردی میں شامل رہے ہیں اور یہ چشمۂ فیض انہوں نے عمر بھر جاری رکھا۔ اس سے پہلے ہم انجم رومانی اور احسان دانش کی صورت میں دو استادوں کو بھگت چکے ہیں اور اب ہم بے استادے ہی رہ جاتے اگر استاد ریاض مجید کا سایہ عاطفت ہمارے سروں پر موجود نہ ہوتا۔ مرحوم کی شاعری کی تحسین کرنے والوں میں احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر توصیف تبسم اور خود اختر شمار شامل ہیں اس لیے ان ثقہ حضرات کی موجودگی میں ہمارے لیے اس بارے کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہ جاتی، البتہ زبان و بیان کے حوالے سے ہم اس ضمن میں کچھ معروضات پیش کریں گے چونکہ مرحوم بھی ہماری طرح بندہ بشر ہی تھے، اس لیے غلطیاں ان سے بھی ہوئیں جن کا ذکر ہم کرنے جا رہے ہیں تاکہ محبان بیدل حیدری اگر مناسب سمجھیں تو اپنا ریکارڈ درست کر لیں اور اگر کہیں میں غلط ہوںتو اس کی نشاندہی کر دیں تاکہ میری اصلاح بھی ہو جائے۔ یہ کتاب اعلیٰ گیٹ اپ کے ساتھ ادارہ ادب وثقافت فیصل آباد نے شائع کی ہے اور قیمت ایک ہزار روپے رکھی ہے۔ اس میں شاعر کے چار مجموعے ''میری نظمیں‘‘، ''پشت پہ گھر‘‘، ''ان کہی‘‘ اور ''کتبے ٹھہر گئے‘‘ شامل ہیں جس کا پیش لفظ اس کتاب کے مرتب اور مرحوم کے ایک اور شاگرد شکیل سروش نے ''استاد جی‘‘ کے عنوان سے سپرد قلم کیا ہے جو کسی حد تک محل نظر ہے کیونکہ یہ لقب بالعموم طوائفیں اپنے سینئر دلال کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس کی بجائے اگر استاد صاحب ہوتا تو بہتر تھا۔ پہلا مجموعہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، نظموں اور باقی غزلوں پر مشتمل ہیں جن کے آخر میں چند قطعات، رباعیاں اور مفردات شامل ہیں۔
ان گزارشات سے حضرت بیدل حیدری کی اہانت مقصود ہے نہ ان کے شاگردوں اور ہو اخواہوں کی دلآزاری بلکہ جس زبان اور کرافٹ کے حوالے سے مرحوم عمر بھر اپنے شاگردوں کو اصلاح دیتے رہے، یہ اسی زبان کو درست دیکھنے کی خواہش اور کوشش کے سوائے اور کچھ نہیں ہے کیونکہ وہ بھی ہمیشہ یہی کام کرتے رہے ہیں اور شاعر سے بھی بڑھ کر ان کی شہرت ایک استاد ہی کی رہی ہے۔ چنانچہ مقصد ان کے علم و فضل پر سوال اٹھانا نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے یہ محض ان کی تساہل پسندی کا نتیجہ ہو چنانچہ اس کاوش کو خدمت ہی سمجھا جانا چاہیے۔ پہلی کتاب کے صفحہ 38 پر درج نظم کا آخری مصرع ہے ع
خود مجھے اکھڑے ہوئے سانسوں میں گم ہونا پڑا
سانس مونث ہے، مذکر نہیں۔ اور شاعر نے ایک اور جگہ بھی اسے مذکر باندھا ہے۔
دوسری کتاب کے صفحہ 3 پر مصرع ہے ع
چوکڑی بھرتے ہیں آنکھوں میں یوں آنسو بیدل
اس میں لفظ یوں کی وائو اور نون غنہ دونوں دب جاتے ہیں جو مستحسن نہیں۔ یہ مصرع اگر اس طرح ہوتا تو بہتر تھا۔
چوکڑی بھرتے ہیں یوں آنکھوں میں آنسو بیدل
جبکہ پہلی کتاب کے صفحہ 73 کی نظم کا یہ مصرع ساقط الوزن ہے ع
یہاں پر چھائونی اور توپوں کے دہانوں میں
دوسری کتاب کے صفحہ 4 پر مصرع ہے ع
میں پارسل کروں گا گلابِ امید اسے
ظاہر ہے کہ گلاب سے یہاں شاعر کی مراد گلاب کا پھول ہے لیکن چونکہ ترکیب لگا کر اسے مفرس کر دیا گیا ہے اس لیے اس کے معنی بدل گئے ہیں کیونکہ فارسی میں گلاب کے معنی گلاب کا پھول نہیں بلکہ عرقِ گل کے ہیں جو گل اور آب سے مل کر بنا ہے۔ یہ غلطی اکثر شعراء کرتے ہیں۔
صفحہ 78 کا ایک مصرع ہے ع
اسی زمیں سے یا پھر آسماں سے آیا ہے
یہاں یا کا الف بُری طرح گرتا ہے۔ یہ مصرع اس طرح سے بھی ہو سکتا تھا ع
اسی زمین سے یا آسماں سے آیا ہے
صفحہ 89 کا مقطع ہے ؎
بیدل یہ کون لوگ ہیں مصلوب دیکھنا
سب کے گلے میں ایک سا پھندا دکھائی دے
مصلوب لوگوں کو گلے میں پھندا ڈال کر نہیں بلکہ انہیں صلیب پر کھڑا کر کے مارا جاتا ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا۔
صفحہ 63 کا ایک مصرع ہیع
سوتیلا باپ اسے اس دفعہ بھی زہر لگا
یہاں سوتیلا کی وائو مکمل طور پر غائب کر دی گئی ہے۔
صفحہ 184 کے ایک مصرع میں بھی شاخ گلاب کی ترکیب ملتی ہے۔
دوسری کتاب کے صفحہ 2 پر مصرع ہیع
خود نہیں چھوڑتا بیدل میں یہ شہر
یہاں میں کی یا ئے اور نون غنہ دونوں غائب ہیں!
صفحہ 21 کی غزل کا پہلا مصرع ہیع
طرح طرح کی جگہوں میں اتر کے دیکھتے ہیں
یہاں جگہوں کو جگوں پڑھنا پڑے گا یا جگھوں۔
تیسری کتاب کے صفحہ 2 پر ایک مصرع ہیع
وہ ماورائے اطلس و کمخواب بیدل
یہاں ماورائے کی الف بُری طرح دبتی ہے جسے اعلان کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
چوتھی کتاب کا ایک مصرع ہیع
ماتم کناں ہے آئینۂ تطہیر ہائے ہائے
یہ مصرع خارج از وزن ہے۔
صفحہ 8 پر ایک مصرع ہیع
ہوتی ہیں کس طرح کی وہاں چہ میگوئیاں
یہاں میگوئیاں کی یائے غائب کر کے اسے مگوئیاں بنا دیا گیا ہے۔
صفحہ 84 پر ایک مصرع ہیع
دلِ تندرست بھی بیمار نکلا
یہاں تندرست کو غلط وزن میں باندھا گیا ہے جس کی 'رے‘ ہی غائب ہے۔ تندرست کو ایک اور جگہ بھی اسی وزن میں باندھا گیا ہے!
صفحہ 159 کا ایک مصرع ہیع
اب تو آنگن میں کوئی پتا کھڑکتا بھی نہیں
یہاں پتا کی الف بے طرح گرا دی گئی ہے جبکہ یہ مصرعہ یوں بھی ہو سکتا تھاع
اب تو پتا کوئی آنگن میں کھڑکتا بھی نہیں
(جاری ہے)
آج کا مطلع
ہوتے گئے تھے جمع ہی ارمان ہمارے
سارے جو ہوئے خواب پریشان ہمارے