تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     08-08-2015

جھولی میں 13، بڑھک 302 والی

چوہدری اعتزاز احسن ایک قصہ سنایا کرتے ہیںکہ لڑکی سسرال والوں سے ناراض ہو کے میکے آ بیٹھی۔ جب بھی اسے سسرال سے بلاوا آتا‘ وہ انتہائی غصے کے عالم میں انکار کر دیتی۔ دوچار مرتبہ ایسا ہوا تو سسرال والوں نے بلانا بند کر دیا۔ کچھ دن اسے انتظار رہاکہ سسرال سے پھر بلاوا آئے گا، مگر ادھر سے مکمل خاموشی رہی۔ اب لڑکی کو بے تابی شروع ہو گئی کہ سسرال والے اسے بلا کیوں نہیں رہے؟ سسرالیوں نے بھی ٹھان لی تھی کہ اب اس کے مزید نخرے نہیں اٹھانے اور ہماری طرف سے کوئی اسے بلاوا نہیں بھیجے گا۔ وقت گزرتا گیا۔ لڑکی کی بے تابی بڑھتی گئی۔ جب بہت دن گزر گئے‘ تو آخر اس سے نہ رہا گیا۔ اچانک گلی میں اسے ایک بچھڑا نظر آیا جو اس کے سسرالیوں کے گائوں کا تھا۔ اس نے آئو دیکھا نہ تائو۔ بھاگ کر بچھڑے کی دم پکڑ لی، وہ اپنے گائوں کی طرف چلتا گیا۔ لڑکی اس کی دم پکڑے پیچھے پیچھے چلتی گئی اور ساتھ ہی کہتی گئی کہ ''ارے بچھڑے! تو کیوں زبردستی مجھے لے جا رہا ہے؟ میں اس گائوں نہیں جائوں گی۔‘‘ وہ چلتی بھی جا رہی تھی، دم بھی زور سے تھام رکھی تھی ۔ ساتھ کہتی بھی جا رہی تھی ''میں اب اس گائوں نہیں جائوں گی، تو مجھے زبردستی کیوں لے جا رہا ہے؟‘‘ آخر کار وہ سسرال پہنچ گئی۔ مولانا فضل الرحمن کے متعدد واقعات سے مجھے وہی لڑکی یاد آ جاتی ہے‘ جسے سسرالیوں کا بچھڑا ''زبردستی‘‘ شوہر کے گھر لے جا رہا تھا۔ مولانا نے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کو دھکیل کر باہر نکالنے کا جو عزم کر رکھا تھا اور جس طرح انہوں نے اپنی تقریر میں عمران خان کے لتے لئے تھے اور جس بے خوفی اور دیدہ دلیری سے عمران خان کو طعنہ دیا تھا کہ ''یہ غنڈہ گردی بھی کرتے ہیں اور خیرات بھی مانگتے ہیں۔‘‘ مولانا کی یہ دوسری درفنطنی تھی۔ پہلی یہ کہ اپنے گائوں کی طرف جاتے ہوئے بچھڑے کی دُم خود پکڑ کے چلنا شروع کر دیا کہ ''مجھے زبردستی سسرالیوں کے گائوں مت لے جائو‘‘ اور یہ ڈبل درفنطنی تھی کہ ان سے کوئی خیرات مانگ رہا ہے۔ مولانا ثابت کرنا چاہتے تھے کہ تحریک انصاف والوں نے ان سے اتنی نشستیں مانگی ہیں‘ جو وہ چھین رہے تھے، لیکن عمران خان ان سے وہ سیٹیں خیرات میں مانگ رہے ہیں۔ 
عمران خان نے خیرات کیسے مانگی؟ وہ ہر شخص جانتا ہے۔ وہ قراردادیں پیش کرنے والوں سے بار بار کہہ رہے تھے کہ ''جو کرنا ہے کر لو۔ مجھے سیٹوں کی پروا نہیں۔ اگر ہماری سیٹیں ختم کی جائیں گی‘ تو ہم پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر دوبارہ آ جائیں گے۔ ہم کسی دوسرے رکن اسمبلی کا یہ حق تسلیم ہی نہیں کرتے کہ وہ ہمارے ووٹروں کے حق رائے دہی کو غصب کر لے۔ یہ طاقت نہ انہیں آئین نے دی ہے اور نہ عوام نے۔ عوام کے منتخب کئے ہوئے رکن کو صرف عوام ہی واپس لا سکتے ہیں، دوسرے کسی کی مجال نہیں کہ وہ ان کی سیٹ چھین سکے اور اگر کسی نے یہ حرکت کی‘ تو وہ دوبارہ پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر دندناتے ہوئے اسمبلی میں آئیں گے۔‘‘ مولانا کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے پاس اتنے بھی ووٹ نہیں کہ وزیراعظم نوازشریف انہیں ڈیڑھ وزارت کے قابل بھی سمجھتے۔ غالباً مولانا نے سوچا ہو گا کہ وزیراعظم ‘ عمران خان سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ ان کی قرارداد پر‘ مسلم لیگ (ن) حق میں ووٹ دے دے گی اور مولانا کامیابی کے پرچم لہراتے ہوئے اسلام آباد کی سڑکوں پر جلوس نکالیں گے۔ ہو سکتا ہے‘ انہوں نے اپنے کارکنوں کو ہار دے کر پارلیمنٹ کے باہر کھڑے کر رکھا ہو‘ تاکہ وہ فاتحانہ انداز کے ساتھ برآمد ہوں‘ تو انہیں ہاروں سے لاد کر کچھ جوشیلے نوجوان کندھوں پر اٹھانے کی کوشش کریں اور اپنی ہڈیاں تڑوا بیٹھیں۔ خدا کا شکر ہے‘ ان کے کارکنوں کی ہڈیاں بچ گئیں۔ وہ عمران خان کابھی کچھ نہ بگاڑ سکے۔ سپیکر صاحب نے البتہ ان پر مہربانی کی کہ دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے تقریر کا موقع فراہم کر دیا اور مولانا نے بھی اسی قدر اتراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان سے کوئی سیٹوں کی خیرات مانگ رہا ہے۔ عمران خان کہہ رہے تھے کہ ''مجھے کسی کی دی ہوئی سیٹوں کی ضرورت نہیں۔ میں عوام سے ووٹ لے کر آیا ہوں۔ اگر کوئی غنڈہ گردی کر کے‘ عوام کی دی ہوئی سیٹیں مجھ سے چھینے گا‘ تو میں دوبارہ جیت کر آ جائوں گا۔‘‘ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ عمران کو گزشتہ انتخابات میں تو اپنی اور کارکنوں کی محنت کے نتیجے میں ووٹ ملے تھے، اس بار تو نوازشریف حکومت کی دوسالہ کارکردگی بھی سامنے ہے۔ اس کے ووٹ بھی عمران خان کو ملیں گے اور وہ پہلے سے زیادہ اکثریت میں ووٹ لے کر آئیں گے۔ لیکن چوہدری سرور نے تو پوری طرح سے دہشت پھیلا دی تھی۔ وہ بار بار اعلان کر رہے تھے کہ ''یہ تحریک انصاف کو باہر نکالیں اور پھر یہ امید نہ رکھیں کہ ضمنی انتخابات ہوں گے۔ اب ہم پورے انتخابات کرائیں گے۔‘‘ حکومت کے جتنے وزیر گلا پھاڑپھاڑ کے اور سینہ تان تان کے پسلیوں کو چٹخاتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے، ان کی ٹانگیں لرزنے لگی تھیں کہ اگر خدانخواستہ عمران نے بھرپور عوامی تحریک چلا کر‘ حکومت کو عام انتخابات پر مجبور کر دیا‘ تو پھر ''ہمارا کیا بنے گا کالیا؟‘‘ 
ایک قرار داد ایم کیو ایم کی طرف سے بھی پیش کر 
دی گئی تھی۔ یہ کانپتی لرزتی قرارداد ‘ ڈرتے ڈرتے‘ لرزتے لرزتے‘ اپنے مرتبین کا حال دیکھ کر‘ خوفزدہ تھی کہ ایسا نہ ہو‘ میری آڑ لے کر ایم کیو ایم کی دیگر کارستانیوں کا بوجھ بھی مجھ پر آ پڑے۔ ادھر رینجرز نے جوابی گولہ باری کر کے ایم کیو ایم کے چھکے چوکے چھڑا دیئے تھے۔ ایم کیو ایم ساری دنیا کے سامنے فریاد کر رہی تھی کہ ہمارے لاپتہ کارکنوں کو تلاش کیا جائے۔ اس نے لاپتہ کارکنوں کی فہرست پیش نہیں کی۔ رینجرز نے باقاعدہ ناموں کے ساتھ فہرست پیش کر کے ایم کیو ایم سے مطالبہ کیا کہ وہ ان گم شدہ لوگوں کو آزاد کر کے‘ قانون کو اپنے راستے پر چلنے کا موقع دے۔دوسری طرف الطاف بھائی نے یہ کہہ کر دھماکا کر دیا کہ ''میری رابطہ کمیٹی کے ممبران مفرور ہو گئے ہیں۔‘‘ اندر کی بات الطاف بھائی نہیں بتا سکے کہ مفرور ہوتے ہوئے وہ اپنے ساتھ کیا کچھ لے گئے ہیں؟ الطاف بھائی نے ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ایک ایم کیو ایم ‘ اسلام آباد میں بھی بنائی جا رہی ہے۔ کہیں ان کا اشارہ تحریک انصاف کی طرف تو نہیں؟ ہو سکتا ہے‘ الطاف بھائی سوچ رہے ہوں کہ ان کی قرارداد پاس ہو گئی تو تحریک انصاف کے منتخب اراکین اسمبلی‘ بقول وزرائے کرام ‘ سڑک پر آ جائیں گے اور وہ الطاف بھائی کی بکھرتی ہوئی جماعت میں شامل ہو کر‘ اسے بچا لیں گے۔ شاید اسی کو وہ نئی ایم کیو ایم کہہ رہے ہیں۔ عمران نے نئے پاکستان کا نام کیا لے لیا، ہر کسی کو فکر ہے کہ وہ اسی کی پارٹی کو نئی نہ بنا دیں۔ عمران خان اب اتنے توانا نہیں کہ وہ ہر پارٹی کو نئی بناتے رہیں۔ انہوں نے نیا پاکستان بنانے کا جو وعدہ کر رکھا ہے‘ بہتر ہے کہ اسی کو پورا کر لیں۔ میں چاہوں گا کہ کالم کے آخر میں اس تعجب کا ذکر بھی کر دوں‘ جو مجھے ایم کیو ایم اور مولانا کی قراردادوں پر ہوا تھا۔ تعجب مجھے اس بات پر تھا کہ یہ دونوں جماعتیں ‘ جو مل کر ایک چوتھائی ایوان میں بھی اکثریت نہیں بنا سکتیں‘ یہ قراردادیں پاس کیسے کرائیں گی؟ اور وہ کس بل بوتے پر نعرے لگا رہی تھیں کہ پی ٹی آئی سڑکوں پر آ جائے گی؟ وہ اسی امید پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے اور دوسری طرف قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو ڈر تھا کہ انہوں نے ووٹ دے کر تحریک انصاف کو باہر نکالا‘ تو وہ جواب میں نئے انتخابات کی صورتحال پیدا کر کے‘ انہیںباہر نکال دے گی اور سارے ہی ممبر سڑکوں پر آ کرکورس میں یہ مصرعہ پڑھیں گے ؎
آملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے‘ سینہ چاک
رہ گیا مولانا سے خیرات مانگنے کا معاملہ‘ تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے ''پلے نئیں دھیلا‘ تے کردی میلہ میلہ‘‘۔غضب خدا کا‘ 13 سیٹوں والا ‘33 سیٹوں والے سے کہہ رہا ہے کہ وہ ان سے خیرات مانگ رہا ہے۔مولانا حساب کتاب میں کمزور لگتے ہیں۔ ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ 33نشستوں والا تو خیرات دے سکتا ہے‘ 13والا کیا دے گا؟ گنجی نہائے گی کیا؟ نچوڑے گی کیا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved