تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     08-08-2015

جنگ کا خاتمہ

دوسری عالمی لڑائی کے خاتمے کے جو افسانے مشہور ہیں ان میں سے ایک‘ امریکہ کے ہاتھوں ایٹم بم کا استعمال ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد مارے گئے اور جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔ چھ اگست 2015ء کو جنگ عظیم کے خاتمے کی سترّ ویں برسی منائی گئی تویہ افسانہ بار بار دہرایا گیامگر حقیقت یہ ہے کہ دو دن بعد اتحادیوں کے حق میں سوویت یونین کا غیر متوقع طور پر کْودنا اس مناقشے کے اختتام کا سبب بنا۔اس نے شاہی حکومت کے ساتھ عدم جارحیت کا معاہدہ کر رکھا تھا اور جا پا نیوں کو امید تھی کہ کسی مرحلے پر وہ اتحادیوں کے ساتھ بیچ بچاؤ کرائے گا لیکن جاپانی حکومت کی یومیہ روداد‘ جس کا ایک ترجمہ اب واشنگٹن میں دستیاب ہے‘ بتا رہی ہے کہ ہیرو شیما پر امریکی بمباری سے زیادہ ما سکو کا طرز عمل جاپانیوں کی شکست کا اصل محرک بنا۔جاپانی مورخ Tsuyoshi Hasegawaاپنی تازہ ترین تصنیفRacing the Enemy میں لکھتے ہیں ''حقیقت یہ ہے کہ سوویت حملے نہ کہ ہیروشیما اور تین دن بعد دوسرے صنعتی شہر ناگا ساکی پر جوہری یلغار نے جاپانی لیڈروں کو جنگ کے خاتمے کا قائل کیا۔‘‘
اس وضاحت سے ایٹم بم کی تباہ کاریوں کی شدت کم نہیں ہوتی۔جس وقت'' اینولا گے‘‘ نام کے ہوائی جہازنے لاس الماس نیو میکسیکو کی تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا نیا ہتھیار'' لٹل بوائے‘‘ لے کر جاپان کی طرف پرواز کی‘ دنیا بھر میں امریکہ واحد جوہری طاقت تھا۔ اب جوہری اسلحے کے پھیلاؤ کی روک تھام کے مقصد سے بنائے جانے والے میثاق 'این پی ٹی‘ کی رو سے روس‘ چین‘ برطانیہ اور فرانس بھی ایٹمی کلب کے رکن ہیں۔اسرائیل‘ انڈیا اور پاکستان نے اس عالمی معاہدے پر دستخط نہیں کئے تھے۔ آج وہ بھی ایٹمی ملک ہیں۔بھارت اور پاکستان جوہری اسلحہ بنانے سے پہلے دو بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں مگر جو چیز ان کے مزید تصادم میں مانع ہے‘ وہ ایٹم بم ہی ہے۔دونوں ملکوں میں پائے جانے والے سیاسی شکرے ایک دوسرے کو جوہری اسلحے کے استعمال کی دھمکی دیتے وقت ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے اسباق بھول جاتے ہیں‘ جو اب سابق شہروں کی یادگار ہو کر رہ گئے ہیں اور جن کے کچھ شہری آج بھی بسترِ علالت پر پڑے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے رہے ہیں۔
گو دس دن پہلے ایٹم بم کی آزمائش ہو چکی تھی اور امریکیوں کو نئے جوہری ہتھیار کی تباہ کاریوں کا علم تھا مگر وہ ان تباہ کاریوں کی حد سے بخوبی آگاہ نہیں تھے۔صدر ہیری ٹرومن نے جاپانیوں کو خبردار کرنے کے لئے ریڈیو سے خطاب کیا اور کہا: '' آسمان سے تباہی کی ایک ایسی بارش ہو گی جو اس سے پہلے روئے زمین پر نہیں دیکھی گئی۔‘‘ یہ ویسا ہی انتباہ تھا جیسا کہ بلوچستان کے ایک پہاڑی غار میں اکبر بگتی کی ہلاکت سے قبل (صدر) جنرل پرویز مشرف نے پہاڑوں میں چھپنے والے بلوچ 'باغیوں‘ کو دیا تھا: ''تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کو ئی شے اچانک آکر لگی ہے۔‘‘ اگرچہ پوسٹڈم اعلان مجریہ سولہ جولائی کے بعد جس میں جاپانیوں کو ہتھیار ڈالنے کی تلقین کی گئی تھی امریکہ نے بہت سے جاپانی شہروں پر اس مفہوم کی پرچیاں گرائی تھیں مگر ان میں روایتی بم کے استعمال کی دھمکیاں تھیں‘ اس لئے یہ کہنا محل نظر ہے کہ'' تباہی کی بارش‘‘ کا انتباہ سویلین آبادی کو ایٹم بم کی آمد سے خبردار کرنے کے متبادل تھا‘ جس کے نتیجے میں پچھتر ہزارسے زیادہ انسان ہیروشیما اور چالیس ہزارناگاساکی میں بھسم ہوئے۔گویا جاپانی شہروں کو‘ جنہیں ان کی صنعتی پیداوار کے پیش نظر ایٹم بم کا نشانہ بنانے کے لئے چنا گیا تھا‘ براہ راست اور ٹھو س وارننگ نہیں دی گئی تھی۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملے کے لئے یہ فروگزاشت جانی بوجھی تھی۔ یہ اس جوہری ہتھیارکا اوّلین استعمال تھا جو اب تک آخری ثابت ہو رہا ہے۔امریکیوں کو اندیشہ تھا کہ جاپانیوں کو پیشگی اطلاع دی گئی تو وہ ایٹم بم لے کر اڑان بھرنے والے ہوائی جہاز کو مار گرائیں گے اور چونکہ جاپانی شہر پہلے ہی آگ لگانے والے بموں سے تباہ کئے جا رہے تھے اور دارالحکومت ٹوکیو میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے تھے‘ لہٰذا یہ باور کرنے کی ٹھوس وجوہ موجود نہیں تھیں کہ جاپان میں پوسٹڈم کے اعلان اور ٹرومن کی تقریر پر خاص دھیان دیا جائے گا۔ ٹرومن بعد از جنگ کے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ اگر وہ ایٹم بم کے استعمال میں تاخیر کرتے اور ہمارے سپاہی جنگ میں مارے جاتے تو انہیں رائے دہندگان کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا۔ گویا سیاست اس نازک مرحلے پر بھی کار فرما تھی۔
چار نومبر جاپان کے ساحلوں پر فوجیں اتا رنے کی خفیہ تاریخ تھی۔صدر ٹرومن نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ فوجی قیادت نے انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کہ اس کارروائی میں دس لاکھ امریکی کام آئیں گے۔یہ اعداد وشمار جاپان پر بم گرانے کا جواز فراہم کرتے تھے مگر وہ اس وقت کے فوجی تخمینوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کیلے فورنیا کے پروفیسر بارٹن برنسٹائن کا اندازہ ہے کہ جاپان پر حملے میں چالیس ہزار امریکی ہلاک ہوتے۔ اس اقدام کے دو متبادل اور بھی تھے۔بین الاقوامی ناظرین کے سامنے '' لٹل بوائے‘‘ کی تباہ کن صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جاتا یا اس کو چلا کر ماؤنٹ فُوجی کا سر کاٹ دیا جاتا۔دوسرا یہ کہ جاپان کا مشروط سرنڈر قبول کر لیا جاتا جس میں شہنشاہ ہیرو ہٹو کو جنگی جرائم کا مرتکب نہ ٹھہرانا شامل تھا۔اگرچہ آخر کار امریکہ نے جاپان کی غیر مشروط شکست تسلیم کر لی مگر جنرل ڈگلس مکارتھر نے جاپان پر قبضے کا چارج سنبھالتے وقت کہہ دیا تھا کہ انہیں فرمانروا کو اپنی قوم کے سامنے رسوا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔یہ بھی سیاست کی کار فرمائی تھی۔جاپان آج آٹو موبائل‘ کمپیوٹر ‘ کیمرے اور الیکٹرانک کی دنیا کا بادشاہ ہے اور ایک اہم معیشت سمجھی جاتی ہے۔ٹو کیو میں گھوم پھر کر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ شہر کبھی عدیم المثال تباہی اور بربادی کی تصویر تھا۔باور کیا جاتا ہے کہ اس نے یہ ساری ترقی‘ قبضے کی چھتری تلے کی ہے اور وہاں شہنشاہیت کے زیر سایہ پارلیمانی جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔
آج واشنگٹن میں دوسری جنگ عظیم کی یاد میں ایک سے زیادہ عجا ئب گھر موجود ہیں مگر ان میں رو ئیدگی کی ایک یادگار زیارت گاہ عام بنی ہوئی ہے۔یہ ایوانِ کانگرس کے پاس انڈی پنڈنس ایونیو پر نیشنل آربوریٹم میں تین سو نوے سال پرانا ایک وائٹ پائن ہے جو1976ء میں ہیرو شیما کے ایک باشندے نے امریکہ کو تحفے میں دیا تھا۔یہ ایک پستہ قد درخت ہے جو بم کا شکار ہونے والی جگہ سے دو میل سے بھی کم فاصلے پر واقع ایک نرسری سے آیا تھا۔ یہ درختوں کے قومی خزانے میں بونسائی کلیکشن کا حصہ ہے۔نرسری کے مالک کے آبائو اجداد کوئی ڈیڑھ فٹ نصف قطر کے اس درخت کی آبیاری کر رہے تھے جو اس نے بھی جاری رکھی۔کھمبی یا مشروم کی شکل کا یہ درخت‘ جو ایٹم بم سے اٹھنے والے دھوئیں کی یاد دلاتا ہے‘ مگر ہیرو شیما پر اس بم کے حملے سے بچ رہا تھا‘ انتیس سال پہلے بونسائی ماسٹر ماسرو یاماکی نے چپ چاپ امریکہ کے حوالے کیاتھا۔چند سال پہلے جب آنجہانی کے دو پوتے امریکہ کی سیر کو آئے تو اس ننھے بزرگ کو شہرت نصیب ہوئی۔وہ پوچھ رہے تھے: ہمارے دادا کو یہ بونسائی ایک دشمن کے حوالے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ان کو کیا معلوم کہ بابا جی کے نزدیک یہی انتقام تھا‘ جو اس نے لیا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved