حکمرا ن ٹولے کا سیاسی سرکس جاری ہے۔ گہرے ہوتے ہوئے بحران کے شکار سرمایہ داری کی نمائندہ پارٹیاں اور سیاست دان ایک دوسرے پر الزامات اوربہتانوں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں جبکہ عوام اس تماشے سے تنگ آچکے ہیں ۔ تحریک انصاف کے پارلیمنٹ کے ممبران کی رکنیت کو ختم کرنے اور الطاف حسین کے خلاف مقدمات کے اندراج کا شاید ہی عوام کے ساتھ کوئی تعلق ہے جو ایک ایسے نظام کی اذیت سے دوچار ہیں جو ان کی زندگیاں بھسم کر رہی ہے۔ تاہم اس کھیل کا نام اقتدار ہے۔ مذہبی تنگ نظری سے لے کر سیکولر لبر ل ازم تک ان کے تمام تر نظریات ریاستی طاقت کے ذریعے مالی فوائد حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔
تحریک انصاف بھی کوئی مختلف نہیں ہے۔ وہ تمام سیاست دان اور زرعی سرمایہ داروں سے لے کر کاروباریوں تک ، جو رائج الوقت پارٹیوں سے دھتکارے گئے تھے عمران خان کے اڑن کھٹولے میں سوار ہوگئے۔ عمران خان کا معاشی نظریہ دوسروں کی طرح سرمایہ دارانہ ہی ہے۔ اس کی تبدیلی کی خواہش نظام کو اسی کی حدود قیودکے اندر رہتے ہوئے تبدیل کرنے کی خام خیالی پر استوار تھی۔ مئی 2013ء کے الیکشن پر جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ آخری تجزیے میں ریاست کے اداروں کو اسٹیٹس کو کے تحفظ کے لیے بنا یا گیا ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ عمران خان یا تحریک انصاف ، ان اداروں پر اعتماد کرکے ہزیمت اٹھانے کے باوجود ، اس واقعے سے کچھ سیکھیں گے۔ لیکن فیصلہ کن عامل یہ تھا کہ حکمران طبقہ آزمودہ اور ہمیشہ حکم کی تعمیل کے لیے تیار اور مطیع نواز شریف پر زیادہ اعتماد کر سکتا تھا۔
زیادہ تر مڈل کلاس اور میڈیا کے بل بوتے پر ابھرنے والی تحریک انصاف جو 1970ء کی پیپلز پارٹی کا کردار ادا کرنا چاہتی تھی اس انتخابی نتیجے سے مایوس ہوگئی۔ لیکن تحریک انصاف کے پاس نہ تو 1970ء کی پیپلز پارٹی کا سوشلسٹ منشور تھا اور نہ ہی اس نے اپنے آپ کو خصوصی طور پر محنت کش طبقے کی پارٹی قرار دیا۔ اس نے ایک عجیب و غریب نظریاتی ملغوبے ، مذہبی تنگ نظری اور مغربی لبرل ازم‘ کے ساتھ 'تمام طبقات ‘ کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس لیے دھاندلی کے خلاف احتجاج کا انداز واضح طور پر پیٹی بورژوائی کی مخصوص بے ربطگی، ڈانواں ڈول کیفیت اور ہچکچاہٹ کی عکاسی کر رہا تھا‘ جبکہ تحریک انصاف کے 'دھرنوں‘ کے قریب ہی اپنے حقوق کے لیے جد وجہد کرنے والے اوجی ڈی سی ایل اور دوسرے اداروں کے محنت کشوں کے احتجاج کا انداز ہی کچھ اور تھا‘ جہاں پولیس کے وحشیانہ تشدد کو تمام میڈیا ہائوسز نے ان دیکھا کر دیا ۔ دونوں احتجاجوں ، جو تقریباً ایک ہی جگہ ہور ہے تھے ، کا طبقاتی کردار صاف طور پر عیاں تھا۔ محنت کشوں کے احتجاج کی طرف ریاست کا رویہ واضح طور پر وحشیانہ تھا اور پرولتاریہ کے احتجاج اور پیٹی بورژوا ہجوم کے سرتال ، نعروں ، مارچ اور مطالبات کے درمیان فرق صاف طور پر واضح تھا۔
تحریک انصاف ، انصاف حاصل کرنے کے لیے وسیع خرچے کو ختم کیے بغیر انصاف کی بات کر رہی تھی جو کروڑوں محنت کشوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ وہ تعلیم اور صحت کو نجی منافع خور شعبے سے نکالے بغیر فراہم کرنے کی بات کر رہے تھے۔ ان اداروں کی نجکاری نے وسیع آبادی کو ان بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر کے اسے منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔ بات صرف یہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف پر جاگیر داروں ، کاروباریوں اور صنعت کاروں کا غلبہ ہے بلکہ پارٹی کو ایک ایسے نظام پر یقین ہے اور اس کا دفاع کرتی ہے جو محنت کش عوام پر بد حالی اور بربادی کے زخم لگا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کو تبدیل کرنے کے بلند بانگ دعووں کے باوجود کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ عوام کے لیے حالاتِ زندگی بد سے بد تر ہوگئے ہیں۔ مظلوم عوام نے ایک تکلیف دہ تجربے کے ذریعے یہ بات جان لی ہے کہ تحریک انصاف حکمرانوں اور سیاست زر کی دوسری پارٹیوں سے مختلف نہیں ہے جو جرائم اور بھتہ خوری پر استوار استحصالی سرمایہ داری کو معاشرے پر لاگو کر رہے ہیں۔
اب تحریک انصاف کی قیادت میں پھوٹ پڑ رہی ہے۔ ایک انار ہے اور سو بیمار ۔ پارٹی کے اندرونی معاملات کے بارے میں عوامی سطح پر بات نہ کرنے کے احکامات جاری کرنے کے ایک دن بعد عمران خان نے پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر بدھ کو ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین احمد کی رکنیت معطل کر دی۔
تحریک انصاف کے الیکشن ٹربیونل کے سربراہ کے طور پر وجیہ الدین احمد نے کچھ رہنمائوں کو پارٹی عہدوں کے الیکشن میں ناجائز ذرائع استعمال کرنے کا مورد الزام ٹھہرا یا ۔ مارچ سے وہ تحریک انصاف کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں بشمول جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن خان صاحب نے انہیں نہیں ہٹایا۔ جسٹس وجیہ الدین نے اپنی معطلی پر ردِعمل میں کہا تھا '' اصل مسئلہ یہی ہے کہ اگر آپ کو مجھ سے محبت ہے تو میرے کتے سے بھی محبت کی جائے۔ ایسا میں نے نہ کبھی کیا ہے‘ نہ کروں گا۔‘‘
تاہم پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جسٹس احمد کی اپنی غلط فہمی تھی کہ بطور ایک 'ایماندار ‘ جج کے وہ ایک ایسی پارٹی میں آزاد اور منصفانہ الیکشن کرا سکتے ہیں جو انہی ارب پتی سیاست دانوں کی مالی حمایت سے چلتی ہے اور جنہیں کسی بھی نظریے اور اصول سے زیادہ اپنے کاروباری مفادات عزیز ہیں۔ جب کبھی بھی ان کے منافعوں کی بات آتی ہے یا ان کی مالی بے ضابطگیوں کی قلعی کھلنے کا خطرہ ہوتا ہے تو وہ کسی بھی وقت اور کسی کے ساتھ بھی ڈیل کر سکتے ہیں۔ ان کی دولت ہی ریاستی طاقت کے لیے سیاست کرنے کی وجہ ہے۔ انہوں نے اقتدار میں شاٹ کٹ کے ذریعے آنے کے لیے عمران پر دائو لگایا تھا۔ تاہم جس پارٹی نے اتنے وعدے کیے اور مڈل کلاس میں اتنی امیدیں جگائیں‘ اس میں اس طرح کی چپقلش اورانتشارناگزیر تھے۔
ایک ایسا سماج جس کی سماجی معاشی بنیاد سرمایہ داری کی غیر ہموار اور متضاد ترقی پر ہو ، وہاں ثقافت مسخ ہوجاتی ہے جس سے فرد کے کردار کو مبالغہ آرائی کی حد تک بڑھاوا دیاجاتاہے۔ لیکن شدید بحران اور بڑھتی ہوئی بے چینی کی کیفیت میں حتیٰ کہ تمام تر اختیارات کا آقا بھی توازن برقرار نہیں رکھ سکتا ۔بونا پارٹسٹ طریقہ کار اور خوف کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ 'متبادل ‘ کے بارے میں عوام کی غلط فہمی تیزی سے دور ہو رہی ہے۔ اس سے ان لوگوں پر بھی دبائو بڑھ جا تا ہے جنہوں نے اپنے پیسے اور اثر و رسوخ ایک ایسی پارٹی پر لگائے جو انہیں اقتدار میں پہنچا سکتی تھی۔ پاکستان جیسے پُرانتشار اور غیر یقینی سماج میں 2018ء تک کا بہت لمبا عرصہ ہے۔ کرپشن کے خاتمے‘ حب الوطنی ، ایمانداری اور انصاف کے نعرے عوام پر بیتنے والی غربت ، محرومی اور عذاب کو ختم نہیں کر سکتے۔ یہ نعرے نئے نہیں ہیں اور محنت کش طبقے نے ایسے بہت سے نعرے سنے ہیں‘ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیاں بد تر ہوگئی ہیں۔ اس جبر اور استحصال کے سماج میں طبقاتی جد وجہد کے نظریے کے بغیر کوئی بھی پارٹی تبدیلی نہیں لاسکتی ۔ جمہوریت ، مذہبی تنگ نظری اور قومی سلامتی وغیر ہ روٹی ، مکان ، صحت ، تعلیم اور انصاف فراہم نہیں کر سکتے ۔ یہ چیزیں صرف پیسے سے ملتی ہیں۔ پیسے استحصال کرنے والوں کے پاس ہے۔ وہ جس پارٹی میں بھی ہوں وہ ایسی پالیسیاں لاگو کریں گے جس سے امیر امیر تر اور غریب مزید غریب تر ہوں گے۔ یہی وہ قانون ہے جس کے ذریعے سرمایہ دار اپنی شرح منافع کو بر قرار رکھ سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کا پروگرام اور ان کی قیادت اسی نظام کا حصہ ہیں۔ وہ اس دھرتی کے محکوم عوام کی زندگیوں میں کیونکر کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں ؟