تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-08-2015

دنیا تو جُھوٹی ہے

دنیا والوں کو تو جھوٹ بولنے کی عادت پڑگئی ہے۔ کہتے ہیں بھوکا رہنے سے کوئی نہیں مرتا، ہاں زیادہ کھانے سے ضرور مر جاتا ہے۔ ہم نے جب جب یہ بات سُنی ہے، ہماری ہنسی چُھوٹ گئی ہے۔ بات یہ نہیں کہ ہم اِس بات پر یقین نہیں رکھتے۔ دنیا بھر کے حالات کا جائزہ لے کر، اُن پر غور کرکے ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لوگ بھوکے رہنے سے کم اور زیادہ کھانے سے زیادہ مرتے ہیں۔ آپ سوچیں گے اگر واقعی ایسا ہے تو ہنسی کیوں آتی ہے؟ ہم جب بھی بھوکے رہنے سے نہ مرنے اور زیادہ کھانے سے مرنے والی بات کو اپنے معاشرے پر رکھ کر سوچتے ہیں تو بس سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسی ہی اور بھی چند باتیں ہیں جن پر غور کرتے کرتے ہم ایسے کھو جاتے ہیں کہ لوگوں کو ہم پر دانشور ہونے کا گماں ہونے لگتا ہے! کبھی کبھی تو یہ بھی ہوا ہے کہ لوگ ہمیں گھسیٹ کر خیالوں کی دنیا سے واپس لائے ہیں۔ جب بھی ایسا ہوا ہے، چند ایسے شاہکار جملے بھی ہماری نذر کئے گئے ہیں جنہیں ہم خوفِ فسادِ خلق سے یہاں دہرا نہیں سکتے! ہمارا معاشرہ ہے ہی کچھ ایسا کہ جو بھی اِس کے ''خواص‘‘ پر غور کرتا ہے بے نُقط سنتا ہے! 
ہوش سنبھالنے کی بات ویسے تو خیر روا روی ہی میں کہی جاتی ہے مگر صاحب، سچ یہ ہے کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، ہر طرف لوگوں کو کھاتا پیتا پایا ہے۔ اور کھانا پینا بھی ایسا ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے افریقہ میں باقاعدگی سے یعنی یومیہ بنیاد پر فاقوں کا سامنا کرنے والے بھی شاید کھانے پینے کے معاملے میں تھوڑی بہت شائستگی دکھا جاتے ہوں، ہمارے ہاں یہ مفقود ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء دیکھتے ہی ہم ایسے مفقود الحواس ہوجاتے ہیں کہ دنیا دیکھتی ہوگی تو دانتوں تلے انگلیاں دبالیتی ہوگی! 
ماہرین نے ہمیں ڈرانے کی بہت کوشش کی ہے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ زیادہ میٹھا کھانے سے جسم کی قوتِ مدافعت کم ہوتی جاتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ گائے کا گوشت کھانے سے جسم میں طرح طرح کے عوارض جنم لیتے ہیں۔ کبھی تحقیق فرمائی جاتی ہے کہ زیادہ کھانے سے جسم کو ضروری اور معقول تناسب سے زیادہ توانائی ملتی ہے جو کھانے والے کو نڈھال کردیتی ہے۔ اب ماہرین نے تحقیق کے نتیجے میں بتایا ہے کہ چاول زیادہ کھانے سے سرطان کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے! 
ماہرین کے معاملے میں ہم نے وہی طرزِ عمل اختیار کی ہے جو عبدالحمید عدمؔ مرحوم نے اختیار کی تھی کہ ؎ 
راستہ کٹ گیا سہولت سے 
خیر گزری کہ رہنما نہ ملا! 
خیر گزری ہے کہ ہم نے ماہرین کی کسی بات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا ورنہ جینا دُو بھر ہوچکا ہوتا! ماہرین کی ہر ادا میں سیاست ہے۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں کچھ ہی مدت بعد اس کی نفی کرتے ہوئے نئی بات کہتے ہیں جو پچھلی بات کے بالکل برعکس ہوتی ہے! ماہرین کی یہ ادا ہمیں قمر جمیلؔ مرحوم کی یاد دلاتی ہے۔ قمر بھائی کا معاملہ یہ تھا کہ اپنی یومیہ تنقیدی مجلس میں کسی دن جسے ساتویں آسمان تک لے جاتے تھے اُسے چند ہی روز بعد تحت الثرٰی تک پہنچا کر دم لیتے تھے! کسی دن غالبؔ دنیا، بلکہ کائنات کا سب سے بڑا شاعر ہوتا تھا اور پھر کسی دن ارشاد فرما دیا جاتا تھا کہ غالبؔ کچھ تھا نہیں، لوگوں نے خواہ مخواہ اِتنا بڑا بنادیا۔ اور پھر کچھ دن غالبؔ کی ''رفعت‘‘ بحال کردی جاتی تھی! یہی سبب تھا کہ جب کبھی وہ ہم جیسے کسی مبتدی کی تعریف کرتے تھے تو وہ تشویش میں مبتلا ہوجاتا تھا اور جب کسی مبتدی کو تنقید کے تختے پر لِٹاکر ذبح کرتے تھے تب ذرا سا بھی پریشان نہ ہوتا تھا! 
ماہرین بھی کبھی کسی کی پتنگ اِتنی اونچی اڑاتے ہیں کہ دور بین کے بغیر دیکھی نہیں جاسکتی اور پھر کچھ ہی دن بعد ماہرین اسی پتنگ کو اس طرح کٹواتے ہیں کہ لُوٹنے والے ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں! 
اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کون سے چاول ہیں جو زیادہ کھائے جائیں تو سرطان کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بنگلہ دیش میں وہ کروڑوں افراد سرطان میں مبتلا کیوں نہیں جو رات دن صرف چاول کے بل پر جیتے ہیں؟ اور ہمارے ہاں بھی لوگ ڈٹ کر چاول کھاتے ہیں۔ وہ سرطان کے شکنجے میں کیوں نہیں آتے؟ طرفہ تماشا یہ ہے کہ غیر معمولی تواتر سے چاول کھانے والے دن بہ دن زیادہ سے زیادہ مُسٹنڈے ہوتے جاتے ہیں! 
اب دوبارہ اس بات کی طرف آئیے کہ بھوکے رہنے کے مقابلے میں خوب ڈٹ کر کھانے سے زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہوا کرتا تو آج ہماری آبادی سات آٹھ کروڑ کی سطح پر ہوتی۔ دنیا بھر میں یہ ایک قدرتی اور بنیادی اُصول ہے کہ جب کھانے پینے کو کچھ نہیں ملتا تو لوگ باؤلے ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو مارنے پیٹنے لگتے ہیں۔ ہمیں تو یہ بات بھی مضحکہ خیز لگتی ہے۔ ارے بھئی، جب سامنے کوئی نعمت موجود ہی نہ ہو تو باؤلا پن کیسا؟ حواس تو اُس وقت غائب ہونے چاہئیں جب سامنے بہت سی نعمتیں دھری ہوں۔ ایسے میں باؤلے پن کا حق ادا کرنے کی بھی توفیق نصیب ہوتی ہے! ہمارے ہاں شادی کا کھانا ہو یا میت کا، لوگ دیگ سے ڈھکن ہٹتے ہی بے حواس ہوکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر ہوش اور حواس کی حدود میں رہنا سُوئے ادب ہے! 
ہم نے شادی کی تقریبات میں کھانا کھلتے ہی لوگوں کو جس جوش و خروش میں پایا ہے وہی جوش و خروش اگر زندگی کے دوسرے بہت سے معاملات میں پایا جائے تو یقین کیجیے ہر ترقی یافتہ قوم ہماری عظمت کے ترانے گاتی پھرے! کھانے پینے کے معاملے میں ہم ایسے حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں کہ شدید بے حواسی کے عالم میں بھی ''آدابِ خور و نوش‘‘ نہیں بھولتے یعنی میت کے کھانے میں بوٹیاں تلاش کرتے ہیں اور نہ ملیں تو ٹرے واپس بھجواتے ہیں تاکہ بوٹیاں دیگ ہی میں نہ رہ جائیں! 
نہ کھانے سے نہ مرنے کی باتیں کرنے والے پتہ نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں۔ دھڑلّے سے کہا جاتا ہے کہ جنہیں دو وقت کی روٹی بھی ڈھنگ سے نہ ملے وہ بھی جی لیتے ہیں۔ ہمیں کب انکار ہے؟ مگر ہماری ہمت کی بھی تو کوئی داد دے کہ دن میں چار پانچ وقت کھاکر بھی بسیار خوری کے نقصانات کو نزدیک پھٹکنے نہیں دیتے اور پوری آب و تاب اور شان و شوکت سے جیے جاتے ہیں! 
ہمارے ہاں سیاسی جلسوں میں کھانے کی تقسیم کا منظر دیکھ کر دنیا والے شاید دانتوں تلے ہاتھ دبالیتے ہوں کیونکہ انگلیاں تو ہم بھی دبالیتے ہیں! یہ منظر ہم نے بارہا دیکھا ہے مگر ہر بار ایک نیا احساس ملا ہے! ہوسکتا ہے کہ لوگ سیاست دانوں کی تقریریں سننے کے بعد کھانے پینے سے متعلق ان کے طور طریقوں پر غور کرتے ہوئے ہی کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہوں! 
زیادہ کھانے سے زیادہ اموات کی بات کرنے والے ہمارے ہاں محض سیاست دانوں کو نہ دیکھیں بلکہ ریاستی مشینری کے چھوٹے بڑے تمام پُرزوں کو بھی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کیسی عظیم الشان رغبت سے رات دن کھانے پینے میں مشغول رہتے ہیں اور موت کا تصور بھی نزدیک نہیں پھٹکتا! 
ماہرین کی آراء ہوں یا بنیادی اصولوں پر مبنی باتیں، ہم نے ثابت کیا ہے کہ دنیا جُھوٹی ہے اور بے پَر کی اڑاتی رہتی ہے۔ دنیا والوں کی بہت سی انتہائی مستند آراء کو یکسر نظر انداز کرنے والی طرزِ زندگی اپناکر بھی ہم نہ صرف یہ کہ زندہ ہیں بلکہ اطمینان و استحکام کے ''ساحل‘‘ پر کھڑے ہوکر انہیں شرمندہ ہونے کا موقع عنایت کر رہے ہیں جن کی کشتیاں آج تک اصولوں کی لہروں میں ہچکولے کھارہی ہیں! 
معاملہ کھانے پینے کا ہو، پہننے اوڑھنے کا یا پھر کوئی اور، دنیا والے بضد رہتے ہیں کہ اصولوں کو اپنائے بغیر گزارا نہیں۔ ہم کب انکاری ہیں؟ ہم بھی تو اصولوں کے پہلو بہ پہلو ہی جی رہے ہیں۔ کسی اصول کا نہ ہونا بھی تو اصول ہی ہے! اب وقت آگیا ہے کہ دنیا والے اپنا جُھوٹ ہم پر تھوپنے کے بجائے ہم سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔ اور کچھ نہیں تو اتنا ہی سیکھ لیں کہ زیادہ کھانے سے زیادہ اور بے فکری کے ساتھ جینا سہل ہوجاتا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved