تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     08-08-2015

مُلّا محمد عمر مجاہد

ملا محمد عمر مجاہد ایک افسانوی کردار ہیں اور ایک ایسی حقیقت بھی جس نے اپنے عہد پر گہرے نُقوش ثَبت کیے۔ وہ امریکہ کو مطلوب افرادمیں سرِ فہرست تھے اور ا ن کی نشاندہی کرنے والے کے لیے بھاری انعام مقرر تھا ۔ ان کی زندگی بلاشبہ عزیمت و استقامت سے عبارت تھی ۔ مبینہ طورپر وسط 2013ء میں اُن کا انتقال ہوا۔ اُن کی وفات سے تحریکِ طالبان اور تنظیم کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے اس خبر کو پوشیدہ رکھا گیا ، لیکن ایسا کرنا زیادہ دیر تک ممکن نہ تھا۔ اس خبر کا اِفشاء ہونا تنظیم کے داخلی اختلافات کا مظہر ہے ۔ 
مُلا محمد عمر مجاہد نے سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لیا ، زخمی ہوئے اور ایک آنکھ کی بصارت سے محروم ہو گئے ۔ افغانستان سے سوویت یونین کی ہزیمت اور اِنخلاکے بعد َخلاپیدا ہوا اور خانہ جنگی بر پا ہوئی۔ جہادی قائدین کے درمیان اقتدار کی اس جنگ نے مایوسی کو جنم دیا۔ افغانستان کے مختلف علاقے اور اضلاع مختلف وار لارڈز کے کنٹرول میں آ گئے۔ ملک انارکی اور بد امنی کا شکار ہوا۔ جا بجا بھتہ خوری کے لیے چوکیاں بن گئیں اور مبینہ طور پر غیر ِ شرعی و غیر اخلاقی خرابیاں بھی معاشرے میں در آئیں ۔جو مجاہدین محض اللہ کی رضا کے لیے اور وطن کی آزادی کی خاطر باطل اور غاصب قوتوں کے خلاف جہاد کر چکے تھے ، ان کو اس صورتِ حال نے مایوس کردیا ، ملا محمد عمر مجاہد ان میں سے ایک تھے ۔ انہوں نے چند ساتھی جمع کیے اور اِن وار لارڈز کے خلاف بلوچستان کے شہر چمن کے بالمقابل افغانستان کی پہلی چوکی اِسپین بولدک سے جہاد شروع کیا۔ اسے ہم آپریشن کلین اپ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔ عوام اور مجاہدین کی حمایت بدستور انہیں حاصل ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے بہت جلد قندھار پر قبضہ کر کے اپنی اِمارت قائم کر دی۔ فوری طور پر شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا اور عوام میں اسے بے حد پذیرائی ملی ۔ 
اس تحریک کا نام ''تحریکِ طالبان ‘‘ قرار پایا ، مگر بہت جلد یہ افغانستان کی ایک ''نیشنل اسلامسٹ موومنٹ‘‘ میں تبدیل ہوگئی اور بڑے پیمانے پر قبائل اور معاشرے کے دیگر طبقات اس کا حصہ بنتے چلے گئے ۔ چونکہ شرعی عدالتیں ، اسلامی وضع قطع اور شِعار ان کے مزاج سے مناسبت رکھتا تھا ، اس لیے انہیں اس کو قبول کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔ جرائم ‘ لُوٹ مار اور بھتہ خوری کا خاتمہ ہوا اور لوگوں نے سُکون کا سانس لیا‘ چنانچہ بہت جلدطالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور ''اِمارت ِ اسلامی افغانستان ‘‘کا قیام عمل میں آیا ۔ 
1996ء میں اِمارتِ اسلامی کے قیام کے ابتدائی دور میں ہمیں بعض دوستوں کی وساطت سے قندھار جانے کا موقع ملا ۔ اس قافلے میںعلامہ غلام دستگیر افغانی ، علامہ غلام محمد سیالوی اور مفتی محمد رفیق حسنی ہمراہ تھے۔ یہ ہمارے لیے ایک مطالعاتی اور معلوماتی دورہ تھا ۔ کراچی سے ہم ہوائی جہاز کے ذریعے کوئٹہ پہنچے اور وہاں سے ویگن کے ذریعے افغانستان کی جانب روانہ ہوئے ۔ چمن سے آگے قندھار تک سڑک نہایت شکستہ تھی ۔ اسپین بولدک سے قندھار تک سڑک کے دائیں بائیں جو قبرستان آتے تھے، ان میں جہادِ آزادی کے شہداء کی قبور پر ہر جگہ چھوٹے چھوٹے رنگین جھنڈے نظر آرہے تھے۔ راستے میں جا بجا ہم نے یہ بھی دیکھا کہ طالبان کے زخمیوں کو عِلاج کے لیے کوئٹہ لے جایا جارہا تھا ۔ 
ہم رات کو قندھار پہنچے اور ہمارا قیام سرکاری مہمان خانے میں ہوا ۔ ہنگامی حالات تھے ، بجلی دستیاب نہیں تھی ، ہمیں ایک فرشی دسترخوان پر سب کے ہمراہ کھانا کھلایا گیا ، گورنر قندھار بنفسِ نفیس تواضع کر رہے تھے اور یہ ہمارے لیے ایک غیر معمولی منظر تھا۔ اُ س وقت تک کابل فتح ہو چکا تھا ۔
اگلی صبح دن چڑھے ہماری ملاقات مُلّامحمد عمر سے کرائی گئی۔ اِ س ملاقات کاذریعہ ُملّااحمد متوکل تھے۔ یہ جواں عمر تھے ۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ یہ شخص مجھے نہایت ذہین معلوم ہو رہا ہے۔ آگے چل کر وہ اِمارتِ اسلامی افغانستان کے وزیر ِ خارجہ مقرر ہوئے‘ لیکن اس وقت بھی ان کے رُسوخ کا عالم یہ تھا کہ بلا تاخیر ملا محمد عمر سے ہماری ملاقات کا اہتمام کرا دیا ۔ ملا محمد عمر کا دفتر یا دار الامارت قندھار میں ''جامع مسجد خِرقہ مبارک ‘‘ کے بالمقابل ایک عام سی عمارت میں تھا ۔ ان کا دفتر ایک کمرے پر مشتمل تھا اور وہ فرشی قالین پر کسی امتیازی شان کے بغیر بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہم بھی ان کے مقابل فرش پر بیٹھ گئے۔ ہمیں ایسی کئی علامات ملیں جن سے عیاں تھا کہ افغانستان پاکستان کے مسلکی خلافیات سے متاثر نہیں ہے ، مثلاً مُلّا عمر کے دفتر کے باہر ایک بورڈ پر ، دفتر میں ایک طغرے پر اور مسجد خرقہ مبارک کے محراب پر یااللہ یا محمد لکھا ہوا تھا ، جبکہ ہمارے ہاں اس سے اختلاف کرنے والے موجود ہیں۔ اس بات کی نشاندہی میں اس لیے کررہا ہوں کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ مسلکی خِلافیات کے حوالے سے ان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں ، کیونکہ علمائے دیوبند کے ساتھ افغانستان کے جہادی قائدین کے روابط زیادہ رہے ہیں اور یہ ان کی ضرورت تھی کہ کوئی ان کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور مسلک ِ دیوبند کے علماء و مدارس نے یقینا آگے بڑھ کر ان کی مدد کی اور وہ بجا طور پر اس کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں ، اس کے بر عکس علمائے اہلِ سنت بالعموم جہادِ افغانستان سے لا تعلق رہے ۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ افغان جہاد کے صفِ اول کے رہنماؤں پروفیسر صبغۃ اللہ مجددی ، مولوی محمدنبی محمدی اور سید سعید احمد گیلانی کے علمائے اہلِ سنت کے ساتھ قریبی روابط اور نظریاتی قربت رہی ہے ۔ عبدالرسول سیاف کے نام سے ہی مسلکی تشخص ظاہر ہو رہا ہے ، لیکن بعد میں سلفی اثرات کے تحت انہوں نے اپنے نام کو بدل کر عبدالرب رسول سیاف کردیا۔ 
ملامحمد عمر مجاہد سے میں نے اپنے وفد کی طرف سے جو مکالمہ کیا، اس کا لب لباب یہ تھا : ان کو ہم نے ان کو کامیابیوں پر مبارکباد پیش کی، ان سے یہ بھی گزارش کی کہ آپ کو اِمارت اسلامی کا امیر المومنین اتفاق رائے سے مقرر کر دیا گیا ہے ، لیکن حکومت کی ایک انتظامی ہیئت تشکیل دیںاور مختلف آئینی عہدوں پر اپنے معتمد افراد کا تقرر کریں تاکہ یہ اہل مَناصِب باقاعدہ سرکاری حیثیت میں اقوام متحدہ اوردنیا بھر کے ممالک سے مکالمہ، اپنی حکومت کی ترجمانی اور اپنی پالیسیوں اور حکمتِ عملی کی وضاحت کر سکیں۔ واضح رہے کہ امریکہ کے زیرِ اثر اقوام متحدہ اُس وقت بھی پروفیسر برہان الدین ربانی کو افغانستان کی حکومت کا آئینی سربراہ تسلیم کر رہی تھی ۔ میں نے ان کے سامنے انقلاب ِ ایران کا حوالہ پیش کیا کہ انہوں نے بہت جلد اپنا دستوری ڈھانچہ مرتب کر لیا اور مختلف سطح کے آئینی ادارے تشکیل دیدیے ۔ بعد میں ملا عمر نے مختلف مَناصب پر علماء کو فائز کر دیا۔ اسی طرح میں نے ان سے کہا کہ چین اور افغانستان سے وسطی ایشیا اور ترکی تک تمام خطہ فقہ حنفی پر کاربندہے اور مسلکی خلافیات سے بچا ہوا ہے‘ لہٰذا اگر آپ افغانستان کو پاک و ہندکی مسلکی خلافیات اور آویزش سے حسبِ سابق بچا کر رکھیں تو یہ افغانستان کی مذہبی وحدت و سالمیت کے لیے انتہائی مفید ہو گا ۔ وہ انتہائی کم گو تھے۔ انہوں نے ہماری گزارشات کو سنا۔ یہی ان کا شِعار تھا۔ 
طالبان سے قربت رکھنے والے ایک عالم نے بتایا کہ نائن الیون کے اقدامات پر عمل درآمد سے پہلے یہ منصوبہ ملا محمد عمر کے سامنے پیش کیا گیا،انہوں نے علماء سے مشاورت کی، افغانستان کے سر کردہ علماء نے اس کی مخالفت کی ، لیکن بعض عرب علماء نے اس کی تائید کی۔ ملا محمد عمر نے اس کی اجازت نہیں دی‘ لیکن بعد میں یہ حادثہ رونما ہو گیا اور اُمت نائن الیون کے ما بعد اثرات کو آج تک بھگت رہی ہے اور نہ جانے کب تک اسے یہ نتائج بھگتنا پڑیں گے ۔ 
نائن الیون کے سانحے کے بعد ملا محمد عمر کے سامنے امریکہ کا یہ مطالبہ آیا کہ شیخ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے اہم رہنماؤں کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے ۔ پاکستان کے حساس ادارے کے ذمے داران تحریکِ طالبان سے قربت رکھنے والے بعض علماء کے ہمراہ ملا محمد عمر سے جا کر ملے اور اُن کے سامنے یہ مطالبہ رکھا ، مگر انہوں نے اسے پذیرائی نہیں بخشی ۔ اس کے نتیجے میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان پر یلغار کردی ۔ یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے آیا اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم کے لوگ ملا محمد عمر پر حاوی ہو چکے تھے یا یہ اتنا ان کے زیر بار احسان تھے کہ انہوں نے بھاری قیمت ادا کرنے کے باوجود اُن سے جفا نہ کی ،آیا ملا عمر اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کر کے اپنی حکومت کو بچا سکتے تھے ، اگر ایسا آپشن اُن کے پاس موجود تھا تو انہوں نے اسے اختیار کیوں نہ کیا؟۔ یہ سوال تاریخ پر قرض ہے اور شایدمناسب وقت پراس کا جواب مل جائے۔ میں نے تحریک طالبان کے بعض اتنہائی اہم ہمدردوں سے ملاقات میں یہ سوال اٹھایا تو انہوں نے جواب دیا: '' امریکہ کا اصل ہدف ''اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کو گرانا تھا،لہذا یہ سوال محض نظری ہے ، نتائج کے اعتبار سے اس کی اہمیت نہیں ہے۔ چند مواقع پر افغانستان کے طالبان رہنماؤں سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُن کے سامنے ''طالبان پاکستان‘‘ کے بارے میں سوال اٹھایا کہ یہ فساد فی الارض کا ارتکاب کر کے اس کا کریڈٹ لیتے ہیں اور پاکستان کے خلاف مسلح خروج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام حرکات ناپسندیدہ ہیں ، ہمارا یہ شعار نہیں ہے ، لیکن ہم اپنی توجہ ایک محاذ پر مرکوز کیے ہوئے ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved