تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-08-2015

سیلابوں کا کاروبار

ہمارے دریا صدیوں سے یونہی بہتے آ رہے ہیں۔ بارشیں برسنے اور گلیشیئر پگھلنے کے زمانے میں یہی دریا اُمڈ پڑتے ہیں اور پانی کناروں سے چھلک کے ‘راستے میں آنے والی آبادیوں کو ڈبوتا ہوا ‘ جس طرف سے چاہے ایک ہی رخ پر چلتے چلتے ‘ سمندر کی طرف بڑھ جاتا ہے اور اس عمل میں جو تباہی آتی ہے‘ اس کا نشانہ غریب آبادیاں اور مجبور کسان بنتے ہیں۔ دریائوں کے نزدیک کاشتکاری کرنے والے کسان انتہائی بے بس اور مجبور ہوتے ہیں۔ ظالموں اور لٹیروں کے بنائے ہوئے نظام نے‘ انہیں مٹی کی زنجیروں سے باندھ کر طغیانیوں کے سامنے پھینک رکھا ہے‘ جو کبھی ہر سال اور کبھی دوچار سال کے بعد آتی ہیں اور ان کی فصلیں اور آبادیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ جو سب سے زیادہ بے بس ہوتا ہے‘ وہ ڈوب کے مر جاتا ہے اور جس میں مزاحمت کا حوصلہ ہو‘ وہ اپنا سب کچھ برباد کر کے‘ زندگی بچا لیتا ہے۔ اہل علم حیرت سے پوچھتے ہیں کہ پرانے زمانوں میں تو سیلاب سے بچنے کے طریقے موجود نہیں تھے‘ لیکن آج کے دور میں جبکہ لوگ دریائوں کے رخ موڑ دیتے ہیں‘ ہمارا غریب‘ سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار کیوں بنتا ہے؟ اس کے بہت سے جواب ہیں‘ لیکن کھرا جواب یہ ہے کہ ہماری حکومتیں یہی چاہتی ہیں۔ سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچائو کی ساری سکیمیں درحقیقت تباہ کاریوں کے لئے راستے ہموار کرنے کی خاطر بنائی جاتی ہیں۔ سرکاری افسروں‘ حکومتی درباریوں اور حکمران جماعتوں کے لاڈلوں کو ہر برسات اور ہر سیلاب سے بھاری نفع ملتا ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ ایک نظام موجود ہے۔کسی کو اپنے طور پر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ بنے بنائے طریقے ہیں اور ہر کسی کو ان پر عمل کر کے لوٹ مار میں حصہ مل جاتا ہے۔ لوٹ مارکا سب سے پہلا اور مستقل طریقہ‘ برساتوں میں سڑکوں کے کنارے محفوظ رکھنے کے فنڈز ہیں۔ ہر موسم برسات سے پہلے‘ متعلقہ انتظامیہ کو مٹی کی بھرائی کے لئے فنڈز ملتے ہیں۔ اس کے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں۔ عموماً ٹھیکہ دینے کے لئے دفتری کارروائیوں میں اتنی تاخیر کر دی جاتی ہے کہ برسات کا موسم قریب آ جائے۔ ٹھیکہ لینے والا‘ مٹی کی بھرائی سے زیادہ بارش کا انتظار کرتا ہے اور جونہی بارشیں آتی ہیں‘ وہ اللہ کا شکر بجا لاتا ہے۔ متعلقہ اہلکار‘ بارش سے ایک دو دن پہلے معائنہ کر کے‘ رپورٹ دیتے ہیں کہ مٹی کی بھرائی اطمینان بخش طریقے سے ہو گئی ہے اور برسات گزر جانے کے بعد یہ رپورٹ بنتی ہے کہ مٹی بارش کے پانیوں میں 
بہہ گئی۔ یہ وہ ٹھیکہ ہے جس میں پوری کی پوری رقم‘ لٹیروں کی ہوتی ہے‘ جو وہ آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ حکمران پارٹی کا کارندہ اپنا حصہ لے لیتا ہے‘ بیوروکریسی اپنا اور باقی بچ رہنے والی رقم کا مالک ٹھیکیدار بن جاتا ہے۔ یہ ایک مستقل کاروبارہے۔ اس کے بعد بند بنانے والوں کی ٹیم میدان میں اترتی ہے۔ معمول کا سیلاب قریباً ہر سال آتا ہے۔ وہاں بنائے جانے والے بند یقینی طور پر اضافی پانی کے راستے میں آتے اور ٹوٹ جاتے ہیں۔ سیلاب زیادہ ہو‘ تو دور بنائے گئے بند بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور اگر سیلاب معمول کے مطابق رہے‘ تو دور کے بند بچ جاتے ہیں۔ جس پر ٹھیکیدار اپنا سر پیٹ کے رہ جاتا ہے‘ کیونکہ دور بنائے جانے والے بندوں میں بھی حکمران جماعت کے ''کارکن‘‘ اور بیوروکریسی کا حصہ نکل جاتا ہے‘ جبکہ ٹھیکیدار کو بند بنانے کا خرچ اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ بند معمول کی طغیانیوں کی لپیٹ میں آنے پر بھی بہہ جاتے ہیں‘ کیونکہ وہ بنائے ہی اس طرح جاتے ہیں کہ جو تھوڑی بہت مٹی بند کے نام پر ڈالی جاتی ہے‘ وہ پانی کی پہلی ہی لہروں میں غائب ہو جاتی ہے۔ بڑا سیلاب آ جائے‘ تو سب کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ صرف غریب کسان‘ انسان کی تیار کی ہوئی اس ''قدرتی آفت‘‘ کا شکار بنتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں‘ جو سیلاب سے بچنے کے لئے اپنا گھر اور گائوں چھوڑتے ہیں‘ ورنہ بیشتر کسان ڈوب کے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ کیونکہ وہ گھروں کو چھوڑ کر نکلیں‘ تو ان کے مال مویشی ڈاکو لے جاتے ہیں اور ان کے گھروں کو توڑ کے چھتوں کے گارڈر‘ چور لے جا کر بیچ دیتے ہیں۔ جو گھر پانی سے بچ رہتے ہیں‘ انہیں چور ملیامیٹ کر دیتے ہیں اور کسان کی زندگی بچ جائے‘ تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ واپس آ کر پھر سے اپنا گھر اور کھیت ٹھیک کرنے لگتے ہیں۔ عموماً انہیں مخیر اداروں کی طرف سے روٹی مل جاتی ہے اور راشن کا جو بچاکھچا حصہ کسانوں تک پہنچتا ہے‘ وہ کسان اور اس کا خاندان کھا لیتے ہیں۔ لیکن یہ کھانا 
صرف اتنی مقدار میں ہوتا ہے کہ سانس کا رشتہ باقی رہ جائے۔ اگر اس پورے نظام کو دیکھیں‘ تو طغیانیوں سے ہونے والی تباہ کاریاں‘ ہمارے حکمران طبقوں کی کمائی کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ کسان برباد ہو‘ تو حکمران طبقوں کے مزے ہیں اور کسان سیلا ب سے بچ جائے‘ تو کمائی کرنے والوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ طغیانی آئے‘ تو ماتم کرنے اور رونے دھونے والے کسان ہوتے ہیں۔ اگر کسان بچ جائیں‘ تو ماتم کرنے والے ٹھیکیدار‘ حکمران پارٹیوں کے کارندے اور بیوروکریسی کے لوگ ہوتے ہیں۔ آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بند کیوں نہیں بنائے جاتے اور کسانوں کو بچانے کا بندوبست کیوں نہیں ہوتا؟ سندھ میں کسانوں کو ڈبونے والوں نے توشاندار فلسفہ گھڑ رکھا ہے۔ وہاں مرنے اورڈوبنے والوں کی کہانی بی بی سی کی تازہ رپورٹ میں لکھی گئی ہے‘ وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
''چاروں اطراف پانی کا گھیراؤ ہے، ایک جھونپڑی کے نیچے کچھ لوگ موجود ہیں۔ پانی کو چیرتی ہوئی کشتی آگے بڑھتی ہے اور اس میں سوار افراد ان لوگوں کو پیشکش کرتے ہیں کہ وہ انھیں محفوظ مقام پر لے جانے آئے ہیں لیکن یہ لوگ یہ کہہ کر چلنے سے انکار کر دیتے ہیں کہ اب پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور وہ یہاں ٹھیک ہیں۔ یہ کمشنر لاڑکانہ غلام اکبر لغاری ہیں جو کچے کے علاقے لاکھانو میں لوگوں کو سیلابی پانے سے نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن میں شریک ہیں۔ سندھ میں حالیہ سیلاب کے دوران ساڑھے چھ لاکھ سے زائد افراد کا انخلا کیا گیا ہے‘ جن میں سے دو لاکھ کا تعلق لاڑکانہ سے ہے۔ کشتی آگے بڑھتی ہے اور علی حسن جتوئی گاؤں کے ایک اور گھر کے سامنے رک جاتی ہے، جہاں کچھ خواتین اور بچے نظر آ رہے ہیں۔ کمشنر ایک نوجوان کو قریب لا کر بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ خالی کشتی بھی موجود ہے وہ انھیں لے جانے آئے ہیں۔ لیکن یہ خاندان بھی انکار کر دیتا ہے۔ ایک کچے گھر کے باہر نوجوان صحن میں پانی میں سے مٹی لگا کر اس کی سطح بلند کرتا ہوا نظر آیا جبکہ اس کے گھر کے قریب موجود ٹریکٹر نصف ڈوب چکا تھا۔ اس نوجوان کا کہنا ہے کہ کچا ان کی زندگی کا سہارا ہے۔ ''پکے پر ہماری کوئی ذاتی ملکیت نہیں۔ وہاں ہمیں کون رہنے دے گا؟ کچے میں ہمارے پاس مال مویشی ہیں۔ ایک دو جانور بیچ کر اناج لے لیتے ہیں۔ پکے پر ملازمت ہے نہ مزدوری۔ وہاں تو بھوکے مر جائیں گے۔‘‘ کمشنر لاڑکانہ غلام اکبر لغاری کا کہنا ہے کہ کچے کی زمین قبضے کی زمین ہے۔ جب پانی اتر جاتا ہے تو پھر جھگڑے ہوتے ہیں کیونکہ یہاں مستقل نشانات نہیں ہیں۔ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ یہاں سے چلے گئے تو اس پر قبضہ ہو جائے گا جس کو ختم کرانا مشکل ہو گا‘ اسی لیے وہ یہاں سے نہیں نکلتے۔ دریائے سندھ کے اطراف میں کچے کے علاقے میں محکمہ جنگلات کی ساڑھے پانچ کروڑ ہیکٹر زمین موجود ہے۔ (ایک ہیکٹر قریباً اڑھائی ایکڑ کے برابر ہوتا ہے) جس میں سے محکمے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ ہیکٹر پر قبضہ ہے۔ کمشنر لاڑکانہ غلام اکبر لغاری کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر کچے کا علاقہ جنگلات کے لیے مختص ہوتا ہے۔ وہاں فصل اور آبادی نہیں ہونی چاہیے۔''یہاں بدقسمتی سے یہ ہوا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں لوگوں نے جنگل کاٹ دیے اور زمین کی کاشت شروع کر دی‘ جس کو سب نے نظر انداز کیا۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ کاشت ہو رہی ہے لوگوں کو روزگار ملا ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے کہ جنگلات کاٹ کر آپ لوگوں کو روزگار دیں۔ اس کا کوئی اور متبادل ہونا چاہیے تھا۔‘‘
صوبائی وزیر آبپاشی نثار احمد کھوڑو کا کہنا ہے کہ ''کچے میں سیلاب سے دہرا فائدہ ہوتا ہے۔ موجودہ فصل پانی میں ڈوب گئی لیکن اس کے بعد ربیع کی فصل آئے گی یعنی گندم، جس کی بمپر پیداوار ہوتی ہے۔ اگر سیلاب نہ آئے تو کپاس اور گنے کی کیش کراپ ہو جاتی ہے۔ اس لئے کچے کے لوگ اپنے حال میں خوش ہیں۔‘‘ دریائے سندھ کے کچے میں سرکاری اندازوں کے مطابق دس لاکھ سے زائد آبادی رہتی ہے۔ کئی بڑے بڑے زمینداروں کی کچے میں ہزاروں ایکڑ زمین ہے جو سیاست میں بھی متحرک ہیں۔صوبائی وزیر آبپاشی نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ کچے کے لوگ صدیوں سے آباد ہیں وہ غیر قانونی طور پر نہیں رہتے۔ ''خدارا کبھی نہیں سوچئے گا کہ انہیں بیدخل کر کے کچے کو ویران کر دیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ کچے میں باقاعدہ سڑکیں بنائی جائیں اور بجلی سمیت جدید دنیا کی تمام سہولیات میسر ہوں۔‘‘ سیلاب میں جانی و مالی نقصان ہونے کے باوجود معاشی، قبائلی اور سیاسی مفادات لوگوں کے پیروں کی زنجیر بن چکے ہیں جو انھیں کچے سے نکلنے نہیں دیتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved