مجھے کیا تعلق مری آخری سانس کے بعد بھی دوشِ گیتی پہ مچلے
مہ و سال کے لازوال آبشارِ رواں کا وہ آنچل جو تاروں کو چھو لے
مگر آہ! یہ لمحۂِ مختصر جو مری زندگی‘ میرا زادِ سفر ہے
مرے ساتھ ہے‘ میرے بس میں ہے‘ میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبالب پیالہ
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لیے اس خراباتِ شام و سحر میں‘ یہی کچھ
یہ اک مہلتِ کاوشِ دردِ ہستی! یہ اک فرصتِ کوششِ آہ و نالہ
1993ء کے الیکشن ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے۔ پروفیسر عبدالغنی جاوید نے ایک شام اچانک یہ کہا: ''پارلیمنٹ پہ مشکل وقت آیا چاہتا ہے‘‘۔ ایم این اے ہوسٹل میں‘ سینیٹر طارق چودھری کے کمرے میں‘ وہ ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے کہ سینیٹر صاحب ایک مکان میں منتقل ہو چکے تھے۔ مجھے گھر کی تلاش۔ اس اثنا میں‘ وہیں پڑا تھا۔ ایک سے ایک ممتاز سیاستدان اپنی تقدیر کا سراغ لگانے ان کے پاس آیا کرتا۔ اپنے ساتھی کا بھی وہ زائچہ بناتے مگر مجھے اپنی تاریخ پیدائش معلوم نہ تھی۔ چک نمبر42 جنوبی کے پرائمری سکول میں داخل کرایا گیا تو اندازے سے لکھ دی گئی۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ تھوڑی سی ریاضت کے ساتھ تعین کیا جا سکتا ہے۔ مجھے مگر گریز تھا۔ میں دیکھتا کہ خوش بختی کے آرزومند لیڈر‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توہم پرست ہوتے چلے جاتے۔
فلسفے کے طالب علم‘ خوش ذوق اور ادبی جمالیات کے رسیا‘ ایک بلا کے داستان گو اور نہایت ہی صداقت شعار۔ ان کے ساتھ گزرتے وقت کے بہائو میں ایک جمال کارفرما تھا۔ زود رنج آدمی‘ لیکن بہت ہی شائستہ مزاج۔ احترام ان کا بہت تھا مگر یہ ناچیز اپنی افتادِ طبع سے مجبور۔ عرض کیا: پروفیسر صاحب اللہ اللہ کیجیے۔ پارلیمنٹ پہ افتاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ کا علم آپ کی عقل کو فریب دے رہا ہے۔ رسان سے وہ بولے: کئی بار حساب لگا چکا ہوں‘ پارلیمنٹ کی سنگ بنیاد پر لکھی گئی تاریخ اگر درست ہے تو فلاں دن‘ مصیبت اس پر ٹوٹ پڑے گی۔
ٹھیک اس دن‘ پارلیمنٹ کی عمارت میں آگ بھڑک اٹھی۔ نہایت انکسار کے ساتھ اس پر ستارہ شناس نے یہ کہا: افتاد کی نوعیت کا میں اندازہ نہ کر سکا مگر اللہ کا شکر ہے کہ زائچہ پڑھنے میں غلطی نہ ہوئی۔
مقدر کا لکھا ٹل نہیں سکتا۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ آدم زاد جہاں جہاں رکے اور ٹھہرے گا‘ جہاں بالآخر وہ اپنے انجام کو پہنچے گا‘ وہ ایک کتابِ مبین میں لکھ دیا گیا ہے۔ کہنے کو اقبالؔ نے یہ کہا تھا ؎
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
مشاہدہ مگر یہ کہتا ہے کہ کوئی صاحب نجوم ایسا بھی ہوتا ہے‘ گاہے تعین کرنے میں جو کامیاب رہتا ہے۔ کوئی ہاتھوں کی لکیروں کو پہچاننے والا بھی۔ رہے صوفیا تو وہ صوفیا ہیں۔ آنے والے دنوں کو گاہے وہ اس طرح پہچان لیتے ہیں‘ جس طرح سائنس دان ماہتاب کے طلوع و غروب پر پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ پندرہ برس ہوتے ہیں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات راستے میں اچانک ملے۔ حال پوچھا تو کہا: مستعفی ہونے کا ارادہ ہے۔ جنرل مشرف کے پاس جاتا ہوں۔ افسر شاہی کام کرنے نہیں دیتی۔ فوجی حکومت ہے؛ چنانچہ خفیہ ایجنسیوں کے افسر آپے سے باہر۔ ذہن میں اچانک خیال کا ایک کوندا سا لپکا۔ عرض کیا: توقف فرمائیے۔ اگر ممکن ہو تو کل غریب خانے پر تشریف لائیے۔ ماحضر تناول فرمایا اور کہانی کہی۔ گزارش کی: درویش سے بات کی ہے۔ کل گیارہ بجے کا وقت عنایت فرمایا ہے۔ گھنٹے بھر کے سفر میں اندیشہ سر اٹھاتا رہا۔ اگر وہ ان کی مدد نہ کر سکے؟ سرکارؐ کا یہ قول کئی برس کے بعد سنا کہ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ نیت نیک ہو اور حکمت سے کام لیا جائے تو فکرمندی میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔
سردار صاحب آزردہ تھے۔ بے تکلف ماحول میں دل کا حال کہہ سنایا۔ عارف نے کہا: جس حریف سے آپ کو خطرہ ہے‘ اس کی شخصیت میں وہ عوامل ہی کارفرما نہیں‘ جو عوامی مقبولیت کو لازم ہوتے ہیں۔ رہی خفیہ ایجنسیوں کی بات تو دلیل کے ساتھ انہیں قائل کیا جا سکتا ہے۔ انہیں بتانا چاہیے کہ زیادہ مداخلت سے خرابی جنم لے گی۔ اگلے تین برس سردار صاحب نے ٹھاٹ سے حکومت کی‘ مگر وہیں‘ اسی وقت ایک اور عجیب واقعہ بھی رونما ہوا۔
یکایک درویش نے سوال کیا: کیا آپ نے کبھی اپنے قلب کا معائنہ کرایا ہے؟ وزیر اعظم نے بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ انہیں دیکھا اور بولے: بھلا چنگا ہوں‘ معائنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ بولے: جی نہیں‘ دل دھوکہ دینے پر آمادہ ہے۔ چند ہفتے کے بعد سردار صاحب کے دل کا آپریشن ہوا۔ ایک عشرے تک دادِ سیاست دی۔ کہن سال ہیں مگر ماشاء اللہ اب تک جیتے ہیں۔
سردار عتیق کا جوڑتوڑ رنگ لے آیا کہ اس پیدائشی لیڈر سردار عبدالقیوم خان کے فرزند تھے۔ پھر سردار فاروق حیدر‘ سکندر حیات کے جانشین ہوئے۔ صاف ستھرے مگر من موجی بلکہ آخری درجے کے لاابالی۔ سیاسی مخالف تو تھے ہی‘ آزاد کشمیر کے چیف جسٹس سے ان کی ٹھن گئی اور وہ بڑا ہی بارسوخ آدمی تھا۔ عام ججوں سے بالکل مختلف۔ سیاستدان کیا‘ سول اور فوجی افسر شاہی میں بھی گہرے رسوخ کا حامل۔ ذاتی طور پر اس ناچیز کے کرم فرما تھے۔ ملے تو اندازہ ہوا کہ آمادۂ فساد ہیں۔ انا اور عزتِ نفس کا پرچم بلند ہے اور حکومت کو تیاگ دینے پر آمادہ۔ للو پتو کر کے‘ سمجھا بجھا کر میں درویش کے ہاں لے کر گیا۔ دعا تعلیم کی‘ راستہ بتایا اور اطمینان دلایا کہ کچھ نہ ہو گا۔ اتفاق سے چک لالہ کے ہوائی اڈے پر وی آئی پی لائونج میں جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ بے دھڑک آدمی ہیں۔ ان کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور یہ کہا: فیصلہ میرٹ پہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں میرٹ پر۔ سب جانتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی سیاست میں عسکری قیادت کا عمل دخل قدرے زیادہ ہے‘ جس طرح کہ تھر کے ریگستان میں۔ سرحدی علاقے ہیں اور دفاعی اعتبار سے بہت حساس۔ اب یہ معلوم نہیں کہ جنرل صاحب نے جائزہ لے کر‘ ان کے حق میں رائے قائم کی یا دوسرے عوامل بروئے کار آئے۔ فاروق حیدر نہ صرف بچ نکلے بلکہ کسی طرح کی کوئی بھی شرط تسلیم کیے بغیر۔ آزاد کشمیر کے ان دونوں سیاستدانوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ ملیں تو بے حد تپاک سے ملتے ہیں۔ بھلا دیں تو یکسر بھلا دیتے ہیں۔ ان لوگوں سے فاروق حیدر نے پلٹ کر کبھی پوچھا ہی نہیں‘ جو ان کے خیرخواہ تھے‘ ان کے لیے جو فکرمند رہے۔ سردار سکندر حیات کا حال بھی یہی تھا۔
ہر روز ڈھلوان کو ایک زینہ اترتے الطاف حسین اور ہر روز بربادی کو رواں ایم کیو ایم کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ آدمی بالکل سامنے کے حقائق کس طرح نظرانداز کرتا ہے کہ سردار صاحبان یاد آئے۔ پھر ایک خیال کا اکھوا پھوٹا: اگر وہ پلٹ کر دیکھتے؟ اگر وہ پشت پناہی کرنے والوں سے بے نیاز نہ ہوتے؟ میرا خیال ہے کہ نتائج مختلف ہوتے۔
تقدیر کا لکھا مگر کون ٹال سکتا ہے اور کتنے لوگ ہیں جو لمحۂ رواں کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں۔ مجید امجد نام کا ایک شاعر ہو گزرا ہے اور اس نے یہ کہا تھا۔
مجھے کیا تعلق مری آخری سانس کے بعد بھی دوشِ گیتی پہ مچلے
مہ و سال کے لازوال آبشارِ رواں کا وہ آنچل جو تاروں کو چھو لے
مگر آہ! یہ لمحۂِ مختصر جو مری زندگی‘ میرا زادِ سفر ہے
مرے ساتھ ہے‘ میرے بس میں ہے‘ میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبالب پیالہ
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لیے اس خراباتِ شام و سحر میں‘ یہی کچھ
یہ اک مہلتِ کاوشِ دردِ ہستی! یہ اک فرصتِ کوششِ آہ و نالہ