سپریم کورٹ نے آئین کی اٹھارویں اور اکیسویں ترمیم کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کا فیصلہ سنایا، تو اس کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ الیکٹرانک میڈیا میں گھمسان کا رن پڑ گیا ، قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کی ڈھنڈیا پڑ گئی، جس کے جو ہاتھ آیا، اُس نے اپنی سکرین پر لا بٹھایا۔ مختصر حکم میں بتایا گیا تھا کہ کثرت رائے سے تمام درخواستوں کو رد کر دیا گیا ہے۔ سماعت فل کورٹ نے کی تھی، جو اس وقت17ججوں پر مشتمل ہے، لیکن فیصلہ چیف جسٹس ناصر الملک اور جسٹس دوست محمد خان کے دو رکنی بنچ نے پڑھ کر سنایا۔ اٹھارویں ترمیم سے متعلق درخواستوں کو مسترد کرنے والے ججوں کی تعداد14تھی، جبکہ تین نے اس کے خلاف رائے دی۔ اکیسویں ترمیم کے خلاف درخواستیں11ججوں نے رد کی تھیں، جبکہ6نے ان سے اختلاف کیا تھا۔ یاد رہے اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے دائر کی جانے والی درخواستوں میں سے زیادہ تر کا تعلق اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری سے تھا۔ اس حوالے سے دستور میں دفعہ175-A کا جو اضافہ کیا گیا تھا، اسے اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دیا جا رہا تھا، لیکن فاضل عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا‘ جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے قیام کو عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دینے سے انکار کر دیا۔ جداگانہ انتخاب کے خاتمے کے بعد اقلیتوں کو بھی اکثریتی مسلک (مسلمانوں) کی طرح ووٹ کا حق استعمال کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ ان میں سے جو چاہے وہ کسی عام نشست پر انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسمبلیوں میں اقلیتوں کے لئے چند نشستیں مخصوص کر دی گئی ہیں جن کا چنائو متناسب نمائندگی کے طریقے پر ہوتا ہے۔ اسمبلیوں میں حاصل کردہ نشستوں کے تناسب سے مختلف سیاسی جماعتیں اقلیتی امیدواروں کو کامیاب کرا لیتی ہیں۔ یہ مخصوص نشستیں ایک اضافی فائدہ ہے، جو اقلیتوں کو پہنچایا گیا ہے۔ بھارت یا بنگلہ دیش میں اس طرح کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ وہاں ووٹ اور امیدواری کا حق بلا تمیز ہر شہری کو حاصل ہے، لیکن دوہری نمائندگی کے اُس تصور کو تسلیم نہیں کیا جاتا ، جو پاکستان میں نافذ کر دیا گیا ہے۔ اسے اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا تھا کہ اس طرح مختلف سیاسی جماعتوں کے ''گماشتے‘‘ تو نشستیں حاصل کر لیتے ہیں، لیکن اقلیتوں کے ''حقیقی‘‘ نمائندے اسمبلیوں میں نہیں پہنچ پاتے، جب جُداگانہ انتخاب رائج تھا، تو اس پر یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ اقلیتی امیدواروں کا حلقۂ انتخاب بہت وسیع ہو گیا ہے۔ انہیں پورے مُلک (یا صوبے) میں ووٹ حاصل کرنا پڑتے ہیں، یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ جب اس کا ''ازالہ‘‘ کیا گیا تو دوسری شکایت پیدا ہو گئی۔جسٹس جواد خواجہ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے اقلیتوں کو اپنے نمائندے خود چننے کا حق دینے پر زور دیا اور اس کے لئے انتظامات کو وفاق کی ذمہ داری قرار دیا، لیکن دوسرے15فاضل جج اس سے متفق نہیں تھے، اس لیے اقلیتوں کی نمائندگی کا موجودہ نظام برقرار رہے گا۔ اس بنیاد پر بحث البتہ جاری رہ سکتی ہے۔
جہاں تک اکیسویں ترمیم کا تعلق ہے، اسے بھی کثرت رائے سے ''آئینی‘‘ قرار دے دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مخصوص شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کو بھجوائے جا سکیں گے، اور آرمی ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم کے مطابق وہ ان کی سماعت کر سکیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس ناصر الملک، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اقبال حمید الرحمن کے علاوہ تمام ججوں نے سپریم کورٹ کو آئین میں کی جانے والی ترامیم پر نظرثانی کا حق دینے پر زور دیا ہے، مذکورہ بالا چار ججوں کی رائے ہے کہ پارلیمنٹ کو دستور میں ترمیم کا کلی اختیار حاصل ہے، اسے کسی طور چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کے علاوہ وہ تمام جج (خواہ ان کی رائے درخواستوں کو مسترد کرنے کے حق میں تھی یا خلاف) دستور کے نمایاں اوصاف (Salient Features)کی روشنی میں کسی بھی آئینی ترمیم کو قبول یا رد کرنے کے اختیار سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ دستور کے بنیادی ڈھانچے یا نمایاں اوصاف جیسی اصطلاحات کو استعمال نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا لامحدود حق، خود آئین نے نہیں دیا، اس لئے اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔یہ فیصلہ اپنے استدلال اورمواد کی بنیاد پر بہت توجہ طلب ہے، اسے سرسری انداز میں پڑھا نہیں جا سکتا۔
جن جج صاحبان نے اٹھارویں اور اکیسویں ترمیم کو سند ِ جواز عطا کی ہے، انہوں نے اس کی بنیاد یہ بنائی ہے کہ ان سے بنیادی ڈھانچہ یا نمایاں اوصاف متاثر نہیں ہوتے۔ اکیسویں ترمیم کے تحت قائم عدالتیں ایک عارضی انتظام ہیں، دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی حد تک جن کا جواز موجود ہے، تاہم فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے مقدمات سے لے کر ان کے فیصلوں تک عدالتی نظرثانی کے تابع ہیں۔پاکستان کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ یا نمایاں اوصاف کیا ہیں، اور کیا سپریم کورٹ کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ ان کی بنیاد پر پارلیمنٹ سے بالاتر یعنی سپر پارلیمنٹ کا کردار ادا کرے۔ یہ سوال پاکستان میں گزشتہ کئی عشروں سے زیر بحث ہے، اور آئندہ بھی یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے فی الوقت یہ تنازع طے کر دیا ہے۔ جب تک اس پر نظرثانی نہیں کی جاتی یا پارلیمنٹ اس تصور کو رد کرنے کے لیے پوری طاقت سے میدان میں نہیں آتی ، اور اپنی پرفارمنس سے لوگوں کے دِلوں کو مٹھی میں لے کر اپنا نقش نہیں جماتی، اس کے منظور کردہ آئینی ترمیمی بل حتمی شکل اختیار نہیں کر سکیں گے۔ عدالتی نظرثانی کی تلوار ان پر لٹکی رہے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ902صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ پڑھنے سے پہلے ہی مختلف قانون دان اور تجزیہ کار اپنے اپنے اوزار لے کر میدان میں آ گئے۔ ان میں سے بعض تو وہ تھے جو فریقین میں سے کسی ایک کے باقاعدہ وکیل تھے، اور عدالت کے سامنے اپنے دلائل تفصیل سے دے چکے تھے، فیصلے کے بعد وہ اپنے مسترد شدہ (یا قبول کردہ) ارشادات کی جگالی میں مصروف تھے،اور سننے والوں سے اس بے سُری پر سر دھننے کی توقع کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں جو کہا جائے، اور جو لکھا جائے، اس نے یہ پیغام تو بہرحال دے دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے تمام ادارے، پارلیمنٹ، فوج اور عدلیہ ایک صفحے پر ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق کی دہائی دے کر دہشت گردوں کو انسانی جانوں سے کھیلنے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی، جنگ کے زمانے میں امن کے قوانین دہشت گردوں کو تحفظ دے سکتے ہیں، انسانوں کو نہیں۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)