تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     09-08-2015

مودی پر کانگریس کی مہربانی

کانگریس کے اراکین پارلیمنٹ کو معطل کرنے کا جرم لوک سبھا سپیکر سمترا مہاجن پر مڑھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کانگریسی جو چاہتے تھے سمترا مہاجن نے وہی کیا ہے۔ کیا کانگریسی نہیں چاہتے تھے کہ انہیں معطل کیا جائے؟وہ تو شاید چاہ رہے ہوں گے کہ مارشل انہیں ٹنگا ٹولی کر کے باہر پھینکے تاکہ وہ 'پاگل بکسوں‘ کے پردوں پر چھائے رہیں۔ انہیں پتا ہے کہ جس طرح کی حرکت وہ کر رہے تھے 'اس کے بنا ان کی سرگرمیاں بے اثر ہوتی جا رہی تھیں۔ بی جے پی کے لیڈروں کو کانگریسیوں کی مجبوری کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ سپیکر صاحبہ نے تقریباً دو ہفتوں تک کانگریسیوں کی نوٹنکی کو برداشت کیا، صبر رکھا، جذباتی نہیں ہوئیں ۔اب جبکہ کانگریسی ممبر سپیکر اور وزرا کے سامنے نعروں کی تختیاں اڑا رہے تھے‘ انہیں بولنے نہیں دے رہے تھے تو کیا اس سے پارلیمنٹ کے اصولوں کی دھجیاں نہیں اُڑ رہی تھیں‘ کیا پارلیمنٹ کی توہین نہیں ہو رہی تھی؟
لیکن سپیکر صاحبہ کے اس قدم نے اب اپوزیشن کو ایک جُٹ کر دیا ہے۔ کانگریس کے ساتھ اب 9 پارٹیاں بائیکاٹ کریں گی۔ جو کانگریس اپنی ضد کے سبب اکیلی پڑ گئی تھی‘ اب اسے علاقائی‘ ذات اور فرقہ پرست پارٹیوں کا سہارا بھی مل گیا ہے‘ لیکن ایک الٹا انجام بھی اپنے آپ سامنے آ رہا ہے۔ اس کی طرف میں اپنے قارئین کا دھیان دلا رہا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ مودی سرکار کی گرتی ہوئی عوامی مقبولیت سے لوگوں کا دھیان ہٹ گیا ہے‘ یعنی کانگریس نے اپنے کرتوتوں سے پہلے مودی کو جتوایا‘ اب وہ اسے ٹکے رہنے میں مدد دے رہی ہے۔ اس کا افسوس کیوں کریں؟ کانگریس اپنا نقصان خود کر رہی ہے۔
کانگریس کی یہ دلیل بھی غلط ہے کہ 1989ء اور 2013ء میں بھی اپوزیشن نے پارلیمنٹ کو نہیں چلنے دیا تھا۔ ان دنوں میں بھی کئی ارکان پارلیمنٹ تھوک میں معطل کیے گئے تھے۔ میں پوچھتا ہوں کہ تب ان کی معطلی ٹھیک تھی تو اب وہ ٹھیک کیوں نہیں ہے؟ اس وقت ٹھکر کمیشن‘ بوفورس اور گزشتہ پارلیمنٹ میں اربوں روپیہ کی بدعنوانی کے مدعے تھے اور وہ عدالت میں بھی تھے لیکن اب تو ایسا کوئی مدعا نہیں ہے ،ویاپم کی جانچ چل رہی ہے۔ سشما اور وسندھرا کے معاملے میں انسانی زیادتی ضرور ہوئی ہے لیکن انہیں بھی مجرم کی لائن میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر کانگریس جلدی میں مستی کرنے کی بجائے ان سب معاملات کی جم کر چیر پھاڑ کرتی تو اسے ان کا سیاسی فائدہ کہیں زیادہ ملتا۔ بھارتی عوام کی سیاسی تربیت ہوتی۔ لیڈر حضرات اپنی خبرداری بڑھاتے لیکن بنا لیڈر کی کانگریس نے بچپنے کا مظاہرہ کیا۔ اب بی جے پی کو چاہیے کہ لوک سبھا میں وہ دنادن سارے بل پاس کرے اور راجیہ سبھا میں مستی کرنے والوں کو باہر کروائے تاکہ پارلیمنٹ باعزت طریقے سے چلتی رہے۔ 
طالبان: بھارت کا نکما پن 
طالبان کے سب سے بڑے لیڈر ملا عمر کے انتقال کی خبر اب پختہ ہو چکی ہے۔ اب کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ وہ زندہ ہے۔ اب بحث اس بات پر چل رہی ہے کہ ملا عمر کی جگہ متعین کیے گئے ملا اختر محمد منصور کو سارے طالبان اپنا رہنما ماننے کو تیار ہیں یا نہیں۔ منصور پچھلے پندرہ بیس سال سے عمر کے دائیں ہاتھ کی طرح کام کرتے رہے ہیں۔ ان کو چیلنج کرنے والے دو لوگ ہیں‘ ایک ملا عمر کا بیٹا یعقوب اور دوسرا طالبان کا فوجی کمانڈر ملا قیوم ذاکر! دونوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں کچھ لوگوں نے منصور کو اپنی ذاتی مرضی سے طالبان کا سربراہ بنانے کااعلان کر دیا ہے‘ ہم پوری 'شوریٰ‘ کی بیٹھک بلائیں گے اور ملا عمر کا جانشین چنیں گے۔
طالبان کے بیچ یہ اختلاف رائے ایسے وقت میں ابھرا ہے جب امریکہ افغانستان چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے اور طالبان سے قطر ‘چین اور پاکستان میں بات چیت چل رہی ہے۔ اس بات چیت سے پاکستان‘ چین امریکہ اور افغان سرکار جڑی ہوئی ہیں۔ طالبان کے آپسی اختلاف صرف ملا عمر کے جانشین کے سوال پر ہی نہیں ہیں بلکہ اس مدعا پر بھی ہیں کہ کابل کی 'کٹھ پتلی سرکار‘ سے بات چیت کی جائے یا نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نواز اور خود پرست گروہ بھی ہیں۔طالبان کے بیچ اتنا ہی نہیں‘ قندھار‘ کابل‘ ہرات اور قندوز کے کئی طالبان لیڈر خود مختار ہیں۔ وہ اپنے سربراہ خود ہیں۔ انہیں جو ٹھیک لگتا ہے‘ 
وہی کرتے ہیں۔ کچھ طالبان وطن پرست زیادہ ہیں اور کچھ مذہب پرست! طالبان کے بیچ اس اختلاف کو داعش کے نئے دہشت گردوں نے کافی تیز کر دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں طالبان میں جتنی زیادہ پھوٹ بڑھے گی‘ افغانستان میں اتنا ہی تشدد اور لاقانونیت بڑھے گی۔
یہ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ پریشانی کی بات ہے، لیکن اس معاملے میں سب سے زیادہ ذمہ داری بھارت کی ہے۔ بھارت سرکار اس سنجیدہ مسئلے پر نکمے پن کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اسے پتا ہی نہیں کہ اسے کرنا کیا ہے؟ اس نے طالبان کو صرف ان ٹچ (شودر) سمجھ رکھا ہے۔ گزشتہ بیس سالوں میں طالبان لیڈروں سے میری کابل‘ پشاور‘ تہران اور واشنگٹن میں ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں اور میں نے پایا کہ ان سے بھارت کی بات ہو سکتی ہے۔ وہ بنیادی طور پربھارت کے خلاف نہیں ہیں۔ انہیں بھارت کے خلاف اکسایا جاتا ہے۔ انہیں پتا ہے کہ افغان عوام بھارت کے احسان مند ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی کسی مطلب کے بغیر مدد کرتا ہے۔ اگر بھارت اس وقت متحرک ہو جائے تو اگلے برس پاکستان‘ افغانستان اور بھارت کے لیے جو سر درد پیدا ہونے والا ہے‘ اس کا تھوڑا بہت علاج ہو سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved