کچھ اور ایسے اشعار بھی نظر آئے ہیں، مثلاً دوسری کتاب کے صفحہ 44 پر مصرعہ ہے ع
بیدل درِ کلیساء مضموں نہ بند کر
اس میں کلیسا کو کلیسہ پڑھنا پڑے گا جو کہ درست نہیں کیونکہ کلیسا کا الف اعلان کے ساتھ آیا ہے۔ صفحہ 69 پر ایک مصرعہ ہے ع
اپنا بھی مجھے خطرۂ پسپائی بہت ہے
یہاں بھی خطرے کو مفرس کر دیا گیا ہے جبکہ خطرہ کا لفظ فارسی لُغت میں ہے ہی نہیں بلکہ اس کی جگہ خطر استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اقبال کا شعر ہے ؎
خطرپسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیّاد
وہ خدشۂ پسپائی بھی لکھ سکتے تھے۔
صفحہ 54 کا ایک مصرعہ اس طرح سے ہے ع
میرے نصیب میں زخموں کا ہار ایسا ہے
کسی آدمی کے گلے میں زخموں کا ہار ہو، یہ ویسے ہی خلاف واقعہ اور ناممکن بات ہے کہ زخموں کا ہار پرو کر گلے میں کیونکر پہنا جا سکتا ہے، جبکہ یہ مضحکہ خیز بھی ہے۔
صاحبِ موصوف نے اپنے اور اپنی شاعری کے حوالے سے جو اقوالِ فیصل درج کر رکھے ہیں، اُن میں سے کچھ یہ ہیں:
شہکارِ ادب لکھ کے بھی محرومِ توجہ
میں سب سے بڑا اور مری اوقات بہت کم
اگر آپ کی طرف سے غمِ معتبر نہ ملتا
یہ غرورِ شعر و نغمہ مجھے عمر بھر نہ ملتا
اکیسویں صدی کے تقاضوں نے آخرش
آئندہ نسل کو مرا قاری بنا دیا
اس طرح بھیجتا ہوں خود پر درود بیدل
میری ہی لاش جیسے مجھ میں دبی ہوئی ہے
مجھے یقیں ہے میں زندہ رہوں گا ذہنوں میں
میں جب مروں تو مرے مرثیے نہ لکھے جائیں
ماجرہ کیا ہے انجمن میں آج
بیدل دیدہ ور نہیں آیا
(اگرچہ ماجرا اس طرح نہیں لکھا جاتا کہ اس کا الف بھی اعلانیہ ہے)
میری آواز پہ چونکے ہیں زمانے والے
شکر ہے میں روشِ عام سے ہٹ کر بولا
ہدف ہیں پھر بھی ہر اک آنکھ کا ہمیں بیدل
اگرچہ نابغۂ روزگار ہیں ہم لوگ
کرتے ہیں لوگ ہم سے حسد کی جو گفتگو
شاید ہمارے دور میں ہم سا کوئی نہیں
بیدل مجھے پڑھے گا ہر اک دور کا ادیب
میں مبتلا نہیں ہوں کسی شین کاف کا
میں اس فن کی بلندی پر ہوں بیدل
جہاں تخلیقِ فن خود بولتی ہے
ہماری زبردست خواہش تھی کہ بیدل صاحب لگے ہاتھوں شاعری کا کوئی تیرہواں ستون بھی نامزد کر جاتے، سو اس ضمن میں بھی انہوں نے ہمیں مایوس نہیں کیا جس کے لئے مجموعہ ''ان کہی‘‘ کا انتساب لائق توجہ ہے جو اس طرح سے ہے:
اپنے شاگردِ رشید
اور ادبی جانشین عزیزی
شکیل سروش
کے نام
چنانچہ پیشتر اس کے کہ کوئی اور گستاخ تیرہواں ستون ہونے کی بڑ ہانک دے، شکیل سروش صاحب کو اس گدی پر مضبوطی سے بیٹھ جانا چاہئے کہ اس سے بڑا سرٹیفکیٹ ان کے لئے اور کیا ہو سکتا ہے۔
عزیزی آفتاب اقبال کے مطابق کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ میں نے ایسے متنازع کالم لکھ لکھ کر اپنا گراف بہت نیچے کر لیا ہے، اس سلسلے میں عرض ہے کہ میں اپنا گراف بلند کرنے کے لئے نہیں لکھتا، صرف جو سچ ہے، وہ کہنے کی کوشش کرتا ہوں، بیشک ہمارے ہاں سچ سننے کی توفیق اور ہمت ہے نہ سچ سُننے کی کہ میں نے تو اپنا گراف گرنے کے لئے اور بھی بہت سے کام کر رکھے ہیں! شاعری میں شین کاف کی درستی کی خاطر مجھے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے، یوں سمجھ لیجئے کہ میں ننھیال سے لوہار ہوں اور ددھیال سے ترکھان۔ اس کے علاوہ کشور ناہید کو بھی شکایت ہے کہ میں معمولی شاعروں پر لکھتا اور ان کی تعریف کرتا رہتا ہوں۔ تاہم اب تو موصوفہ کو خوش ہو جانا چاہئے کہ اس بار میں نے ایک استادِ فن بلکہ جگت اُستاد پر قلم اٹھایا ہے۔ نیز یہ کہ میں اپنی یہ ادنیٰ کاوش اس بی بی ہی کے نام کرتا ہوں ع
گر قبول اُفتد زہے عز و شرف
نوٹ: ایک صاحب نے‘ جنہوں نے اپنا نام نہیں لکھا‘ ایس ایم ایس بھیجا ہے کہ لفظ 'سانس‘ مؤنث کے ساتھ ساتھ مذکر کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے‘ اگرچہ وہ فی الحال اس کی کوئی مثال نہیں دے سکتے۔ یہ صاحب اگر ٹھیک کہتے ہیں تو میں ان کا شکرگزار ہوں۔
(ختم )
آج کا مطلع
روز روز دل کی یہ حالت ہوتی رہنی چاہیے
مجھ سے اگر پوچھیں تو محبت ہوتی رہنی چاہیے