تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-08-2015

ہم بھی وہیں موجود تھے

عید کو گزرے 13 دن ہوچکے تھے۔ عید اور ملن دونوں کا تصور تک مٹ چلا تھا۔ ایسے میں روزنامہ دنیا کراچی کی انتظامیہ کو خیال آیا کہ اب عید ملن پارٹی منعقد کرلینی چاہیے۔ ہم نے پہلی بار دیر آید درست آید والی بات کو درست ثابت ہوتے دیکھا۔ 
ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہمارے ایڈیٹر احمد حسن صاحب کو شکار کا شوق بھی ہے۔ انہوں نے سوچا کہ عید ملن پارٹی کے نام پر تھوڑا سا ''ٹیلنٹ ہنٹ‘‘ بھی کرلیا جائے! ثابت ہوا کہ احمد حسن صاحب کو شکار کا محض شوق ہی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے فن میں ماہر بھی ہیں یعنی خرچہ وہی رہتا ہے اور ایک تیر میں دو تین نشانے لگالیتے ہیں! 
عید ملن پارٹی کے اعلان کے ساتھ ہی دفتر کے تمام شعبوں کے لوگوں کو فن کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ کوئی گانے کے لیے بے تاب ہوا تو کسی نے ضیاء محی الدین کی طرح کچھ سُنانے کا شوق ظاہر کیا۔ ہم نے بھی سوچا کہ جو الٹی سیدھی شاعری ہم سے سرزد ہوجاتی ہے اس کا کچھ حصہ دفتر کے ساتھیوں پر الٹ دیں گے۔ انعام کی نوید بھی سنائی گئی تھی۔ یعنی سوال صرف فن کے مظاہرے کا نہیں بلکہ مسابقت کا بھی تھا۔ 
ہم جانتے ہیں آپ یہ جاننے کے لیے بے تاب ہوں گے کہ مقابلے کے شرکاء نے کس کس طرح اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ یہ سب تو بعد کا معاملہ تھا۔ اس سے قبل بھی ایڈیٹر صاحب نے بھرپور تفریح کا اہتمام کیا۔ یہ تفریح مقابلے کے شرکاء کے انتخاب اور پھر ریہرسل کے نام پر ان سے فن کا مظاہرہ کرانے کی شکل میں تھی! ریہرسل کے مرحلے میں ہمارے دفتری ساتھیوں نے جو کچھ کیا اگر اس کے وڈیو کلپس انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیئے جائیں تو ہمیں یقین ہے کہ لوگوں کو خاصی طوفانی قسم کی تفریح میسر ہو! باتھ روم میں بھی ڈرتے ڈرتے گنگنانے والے ریہرسل کے دوران خود کو محمد رفیع، مہدی حسن اور کشور کمار سے کم سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے! بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا گیا کہ جو لوگ اس دنیا سے جاچکے ہیں ان کی ارواح کو یُوں اذیت دینا درست نہیں! 
ہمارے کالموں سے آپ نے تھوڑا بہت اندازہ تو لگا ہی لیا ہوگا کہ ہم، اللہ بُری نظر سے بچائے، خاصے بذلہ سنج واقع ہوئے ہیں۔ دفتری اوقات میں منصب کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو خوش رکھنے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ لوگ باتوں میں لگاکر ہم سے ایسے کئی جملے اگلوا لیتے ہیں جو اگر ہم بچاکر رکھیں یعنی لکھتے وقت استعمال کریں تو ہمارا ہر کالم مزید جاندار ہوجائے! بعض احباب کی فرمائش تھی کہ عید ملن پارٹی میں ہم صرف شریک ہی نہ ہوں بلکہ بذلہ سنجی کو عمدگی سے بروئے کار لاتے ہوئے خود کو ''ابراہیم شریف‘‘ یا ''ابراہیم اختر‘‘ ثابت کرکے دم لیں! جب ہم نے ان کی فرمائش کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے سے معذوری ظاہر کی تو انہوں نے اپنے زخموں کے حصے کا نمک ہم پر چھڑکتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے، ہم آپ کی غزل ہی کو کامیڈی سمجھ کر قبول کرلیں گے! 
چند احباب چاہتے تھے کہ ہم شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی کسی دل جلی قسم کی غزل پر طبع آزمائی کرکے ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والی کیفیت پیدا کریں یعنی خاں صاحب کی روح کو اذیت پہنچائیں! ہم نے یہ کہتے ہوئے جان چُھڑائی کہ ہمیں کیوں ''کشٹ‘‘ دیتے ہیں، اس کام کے لیے تو خاں صاحب کی ''سنتان‘‘ ہی کافی ہے! 
معاملہ چونکہ مسابقت کا تھا اس لیے ہم نے بھی (اپنی) کمر کس لی۔ ایک ہلکا پھلکا آئٹم، ایک قطعہ اور ایک غزل ... یہ سب کچھ ہماری زنبیل میں تھا۔ بہت دنوں کے بعد کسی مقابلے میں شریک ہونے کا لمحہ آیا تھا اس لیے ہم بھی پہلے انعام کے لیے اپنی تمام (یعنی بچی کھچی) صلاحیتیں بروئے کار لانے کو تیار تھے۔ مگر ہم یہ بھول گئے تھے کہ اِس ملک میں قدم قدم پر ''سازشیں‘‘ بکھری ہوئی ہیں۔ عید ملن پارٹی یعنی فنکاری کا مقابلہ شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل ایڈیٹر صاحب نے ہمیں اپنے کمرے میں طلب کیا۔ ہم پہنچے تو کہا کہ آپ کو آج ایک اہم کام کرنا ہے۔ ہم ڈر گئے کہ کہیں وہ ہم سے بریک ڈانس کی فرمائش نہ کر بیٹھیں! ہمیں سہما ہوا دیکھ کر بولے آپ جج کے فرائض انجام دیں گے۔ ہم یہ سن کر مزید سہم گئے۔ آپ سوچیں گے جج کا منصب تو بہت اہم اور باوقار ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے، مگر ہم نے اندازہ لگالیا کہ یہ منصب سونپ کر ہمیں مقابلے سے خارج کیا جارہا ہے! سیدھی سی بات ہے، دوسروں کو فاتح قرار دلانے کے لیے ہمیں ٹیلنٹ کے اظہار کی دوڑ سے الگ کیا گیا! 
نظامت کے فرائض محترم غلام مجتبیٰ اور بھائی رانا آصف کو سونپے گئے۔ ان دونوں کی نظامت کے درمیان ''بفر زون‘‘ کا کردار اسماء ایوب نے ادا کیا جو دو شرکاء کو روسٹرم پر بلانے کی ''سعادت‘‘ حاصل کرپائیں! باقی تمام مرغے غلام مجتبیٰ صاحب اور بھائی رانا آصف نے مل کر ''ذبح‘‘ کئے! جملہ معترضہ کے طور پر عرض کردیں کہ غلام مجتبیٰ صاحب کو زبان پر عبور ہے۔ کسی کو روسٹرم پر بلاتے وقت اِس طرح سراہتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بیان سُن کر پریشان سا ہوجاتا ہے! 
اسٹاف رپورٹر صلاح الدین نے ماحول کو تھوڑا سا رومانی و ملتانی کردیا یعنی خالد مسعود خان کے چند ''ماٹھے‘‘ اشعار پیش کرکے حاضرین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی اچھی کوشش کی۔ 
ہماری تقریب یکم اگست کو تھی مگر مرکزی نیوز ڈیسک کے سب ایڈیٹر زبیر امیر نے ''بھیگا بھیگا سا یہ دسمبر ہے‘‘ گاکر پتہ نہیں کیا پیغام دینے کی کوشش کی۔ اور کیا پتہ کسی کو پیغام مل بھی گیا ہو! 
اکاؤنٹنٹ کاشف ولی نے حساب کتاب ایک طرف رکھ کر ایک گیت کے ذریعے انٹری دی۔ ان کی بہکی بہکی سی گائیکی نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ع 
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا! 
مارکیٹنگ کے علی میمن صاحب نے کمال کردیا۔ روسٹرم پر وہ آئے گانے کے لیے مگر سُروں کے بجائے تقریر کا دریا بہانے پر تُل گئے! گانا شروع کرنے سے قبل انہوں نے اتنی لمبی تقریر کی کہ لوگ ہاتھ جوڑنے کی حد تک پہنچ گئے! انہوں نے ارشد محمود کا گایا ہوا گانا ''ہوسکے تو مِرا ایک کام کرو‘‘ گایا۔ حاضرین سوچتے رہے کہ ہمارا بھی ایک کام کرو یعنی مائیک چھوڑ دو! 
سٹاف رپورٹر حنیف اکبر نے شاید سوچ رکھا تھا کہ آج رنگ میں بھنگ ڈال کر ہی دم لینا ہے۔ انہوں نے اچھے خاصے چلبلے اور بھڑکتے، پھڑکتے ماحول کو امجد اسلام امجدؔ کی نظم ''تمہیں مجھ سے محبت ہے‘‘ پڑھ کر سنجیدہ بنانے کی اپنی سی کوشش کی! 
ہمیں روزانہ چائے پلانے پر مامور افتخار نے مائیک سنبھالا تو ایسا محسوس ہوا جیسے عطاء اللہ عیسٰی خیلوی تقریب میں چلے آئے ہوں! خیر گزری کہ افتخار میں عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کی روح نے زیادہ حُلول نہیں کیا ورنہ اپنی اپنی ناکام محبت کو یاد کرکے حاضرین میں سے پتہ نہیں کتنے ہی لوگ آنسو بہا رہے ہوتے! 
پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ کے مزمل شاہ نے وہی کیا جو آج کل ہمارے ٹی وی چینلز بخوبی کر رہے ہیں۔ خبر، سیاست، ٹریجڈی اور کامیڈی کا ملغوبہ عام ہے۔ مزمل شاہ نے بھی مزاح اور گلوکاری کا ملغوبہ تیار کیا اور میدان مار لیا۔ 
روزنامہ دنیا کراچی کے چیف رپورٹر عابد حسین رہ گئے۔ کسی نے ان سے کہا کہ وقت زیادہ ہوگیا ہے، اب آپ پرفارم نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ عابد حسین مان گئے۔ یُوں لوگوں کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ وہ خاں صاحب کے گائے ہوئے ایک سدا بہار گیت کے ذریعے بتانا چاہتے تھے کہ انہیں بھی کبھی ایک حسن کی دیوی سے پیار ہوا تھا! 
احمد حسن صاحب مبارک باد کے قابل ہیں کہ اُنہوں نے ایک ایسی محفل سجائی جس سے پتہ چل گیا کہ روزنامہ دنیا میں کام کرنے والے کس بندے کا اصل ٹیلنٹ کیا ہے اور وہ اب تک خواہ مخواہ الل ٹپ فیلڈ میں جھک مار رہا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved