تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-08-2015

لمحۂ فکریہ

فوجی عدالتوں پر بحث کرتے ہوئے جسٹس طارق محمود، علی احمد کرد اور ان کے رفقا آئین اور قانون کے سنہری قوانین پر بڑی دردمندی سے روشنی ڈال رہے ہیں ۔کرد صاحب بنیادی انسانی حقوق کا رونا رو رہے ہیں ۔ بنیادی طور پر دہشت گردوں کو سزا سنانا فوج کا کام نہیں لیکن بنیادی طور پر دہشت گردوں کو ڈھونڈ کر ان سے لڑنا بھی اس کا کام نہیں۔ آئین کے تحت اس کا کام سرحد کی حفاظت ہے ۔ جب ایک ایسے گلے سڑے نظام کی موجودگی میں ، جہاں پولیس، تفتیش، استغاثہ، قانون اور عدالتی نظام میں ایسے اور اس قدر سقم موجود ہوں ، جب کچھ گواہ قتل اور باقی روپوش ہوجائیں‘ جب ملک کے سب سے بڑے شہر کی موثر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مسلّح گروہ تشکیل دیں تو کیسا قانون ، کہاں کا آئین؟ ولی بابر قتل کیس میں گواہان کے ساتھ کیا ہوا؟ آٹے کے تھیلے میں کئی چھید کر کے آپ اسے ایک شخص کے حوالے کر تے ہیں‘ اس شرط کے ساتھ کہ سوراخ بند بھی نہ کیے جائیں اور ضیاع بھی نہ ہو۔ 
سب قانون ، سب آئین ، سب ضابطے اور اصول وہاں معطل ہو جاتے ہیں ، جہاں جان کا خوف آڑے آجائے۔ اللہ نے سب جانداروں میں بقا کی جبلّت رکھی۔ جہاں جان جانے کا خوف ہو ، وہاں خدا اپنے بنائے ہوئے ضابطے بھی معطل کر دیتاہے ۔ ایک طرف وہ ان لوگوں پر سخت ناراضی کا اظہا رکرتا ہے ، جو اس کی طرف سے حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیں ۔ دوسری طرف وہ یہ استثنیٰ دیتاہے کہ جب موت کا خوف ہو تو حرام حلال میں بدل جاتاہے۔ شاید وکلا اس بنیادی اصول کوسمجھ نہیں پا رہے ۔ اٹھارہ کروڑ افراد اور ریاست کی جان کو خطرہ ہے اور وہ ''آئین، آئین‘‘ کی گردان میں مصروف ہیں۔ جہاں بھی ریاست کو خطرہ ہوگا، اصول او رضابطے معطل ہو جائیں گے ۔ بھارت اگر ایٹمی ہتھیار بناتا ہے تو پاکستان کو عالمی قوانین ایک طرف رکھ کر جوہری ہتھیار بنانا ہوں گے ، خواہ اس کے لیے بلیک مارکیٹ ہی سے پرزے خریدنا پڑیں ۔ 
مشرق میں بھارت او رمغرب میں افغان سرحد پر بدترین دبائو کا سامنا کرنے والی افواجِ پاکستان ملک کے طول و عرض میں دہشت گردوں سے نبر د آزما ہیں ۔اب انہوں نے کرپشن کے خلاف بھی ایک بڑی پیش رفت کی ہے ۔ چند ماہ قبل ڈی جی رینجرز جنرل بلال اکبر نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں جرائم کی سالانہ آمدن 230ارب روپے ہے ( اور وہ دہشت گردوں کے لیے آکسیجن کا کام کرتی ہے) یہ بھی کہ سندھ حکومت ا ور افسر شاہی بھی مجرموں کی پشت پناہی کرتی ہیں ۔ اس پسِ منظر میں رینجرز نے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت اہم مقامات پر چھاپے مارے ۔ فوج کے پیدا کر دہ دبائو تلے وفاقی حکومت کی طرف سے نیب اور ایف آئی اے نے سندھ میں کرپٹ افراد پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو صوبائی حکومت چیخ پڑی۔ زرداری صاحب نے جرنیلوں کی کارستانیاں منظرِ عام پر لانے کی دھمکی دی ۔ فوج کی 
طرف سے این ایل سی سکینڈل میں دو سابق جنرل حضرات کو سزا سنانے کے بعد اب صورتِ حال بدل گئی ہے ۔ فوج اب اس اخلاقی برتری کی حامل ہے ، جہاں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ مالی جرائم میں ملوّث افراد پر بھی وہ ہاتھ ڈالے تو عوام اس کی پشت پر کھڑے ہوں گے ۔ بنیادی طور پر یہ وفاقی او رصوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن فی الحال ان کی توانائیوں کا رخ کسی او رطرف ہے ۔ 
رفتہ رفتہ او ربتدریج فوج مضبو ط ، سیاسی قوتیںکمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہیں ۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں تحریکِ انصاف اور نون لیگ دو سال تک مسلسل حالتِ جنگ میں رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف کی صفِ اوّل کی قیادت جہانگیر ترین،پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی ، عبد العلیم خان ، محمود الرشید ، اعجاز چوہدری اور دیگر مختلف دھڑوں کی سربراہی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں ۔ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کو پارٹی الیکشن چرانے کا ذمہ دار قرار دینے والے ، الیکشن ٹربیونل کے سربراہ جسٹس وجیہ الدین احمد کے ساتھ کیا ہوا ، یہ سب کے سامنے ہے ۔ جسٹس صاحب نے انکشا ف کیا ہے کہ کنٹونمنٹ الیکشن میں لاہور سے ٹکٹ بیچ دیے گئے تھے ۔ تحریکِ انصاف نے بحیثیتِ مجموعی 70کے مقابلے میں 40سیٹیں حاصل کرتے ہوئے اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کیا تھالیکن لاہور سے اس کا صفایا ہو گیا تھا۔پنجاب کے بلدیاتی الیکشن میں تحریکِ انصاف کی کارکردگی کنٹونمنٹ کی نسبت بہت کمتر رہنے کی توقع ہے ۔ 
پیپلز پارٹی زوال کی اس نہج تک آپہنچی ہے ، جہاں اسے پارٹی ٹکٹ کے امیدوار ڈھونڈنا پڑتے ہیں ۔ لندن میں منی لانڈرنگ اور قتل کیس سے بڑھ کر بی بی سی کی طرف سے ایم کیو ایم کے ''را‘‘ سے تعلقات کا انکشاف اور خود اس کے گرفتار کارکنوں کا اعترافِ جرم ، متحدہ کی طرف سے بھارت سے مدد طلب کرنے کے بعد ایم کیو ایم کا کردار مستقبل کی قومی سیاست میں ختم ہو چکا ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ ایم کیو ایم ختم ہو جائے گی‘ میرے خیال میں وہ ختم ہو چکی ہے۔ 2023ء کے الیکشن تک ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا صرف نام ہی باقی رہ جائے گا۔ برسبیلِ تذکرہ‘ پرویز مشرف کے اس بیان پر کہ بھارت سے ایم کیو ایم کے روابط کی تحقیقات ہونی چاہئیں ، بندہ پیٹ پکڑ کے ہنس ہی سکتا ہے ۔ آرمی چیف ملک کا سب سے با خبر آدمی ہوتاہے ۔ پھر مشرف صاحب تو آٹھ سال تک بلا شرکت غیرے اس ملک پر حکومت کرتے رہے ۔ اپنے سیاسی مفاد کے لیے انہوں نے جہاں سرحد میں مولوی صاحبان کو دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے دی ، وہیں ایم کیو ایم کے ''را‘‘ سے روابط پر بھی آنکھیں بند کیے رکھیں ۔ سیاسی مقاصد تو انہوں نے حاصل کر لیے کہ متحدہ مجلسِ عمل نے سترہویں ترمیم میں انہیں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار عطا کیا اور 12مئی جیسے واقعات وقوع پذیر ہوئے، جہاں ایم کیو ایم نے وکلا تحریک کے خلاف اپنی قوت کا مظاہرہ کیا۔ 
پرویز مشرف ہی کا تو دور تھا، جب ایم کیو ایم نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ اس نے اپنے عسکری ونگ کو نئے سرے سے فعال کیا (بعد میں اے این پی اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنی اپنی بساط اور توفیق کے مطابق یہی کیا) اب وہ ایم کیو ایم ، بھارت تعلقات کی تحقیقات کا معصومانہ مطالبہ کر رہے ہیں ۔ وہ تو خیر یہ بھی کہنے کو آزاد ہیںکہ کارگل میں بھارت کو انہوں نے گردن سے پکڑ لیا تھا۔
فوج مقبول سے مقبول تر ہوتی چلی جا رہی ہے لیکن یہ چہ مگوئیاں بے بنیاد ہیں کہ مارشل لا آرہا ہے ۔ 2008ء میں پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد 7سالہ تکلیف دہ دور کے بعد ، جس میں وہ بے رحمانہ تنقید کا نشانہ تھی ،بڑی قربانیوں کے بعد اس نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس حاصل کی اوراس میں اضافہ کیا ۔مارشل لا لگا تو یہ سب مٹی میں مل جائے گا اور فوج کو اس بات کا ادراک ہے ۔کمزور سیاسی قوتوں کے لیے بہرحال یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ فوج ملک کے لیے ایک بائنڈنگ فورس ہی نہیں بلکہ نجات دہندہ کی حیثیت سے ابھری ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved