قصور سے دنیا میڈیا گروپ کے نمائندوں نے کافی عرصہ پہلے عوامی احتجاج کی خبریں دینا شروع کر دی تھیں‘ لیکن ہر بار انتظامیہ کی طرف سے تردیدیں اور وضاحتیں آتی رہیں اور اصل جرائم کا ذکر تک نہیں ہونے دیا جاتا تھا‘ لیکن ہمارے نمائندے مسلسل اپنی خبر پر اصرار کرتے رہے۔ اعلیٰ حکام کی طرف سے نوٹس لیا گیا‘ تو مقامی اتھارٹیز نے اس معاملے کو حیلے بہانوں سے ٹالنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ معاملہ کچھ ایسا تھا کہ ہمارے معاشرے میں اس قسم کے جرائم کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والے بچے خود بھی بات کرنے سے گھبراتے تھے اور جس بچے نے ہمت کر کے گھر والوں کو خود پر ہونے والے ظلم کی کہانی سنائی‘ تو والدین بھی صبر کا گھونٹ پی کر رہ جاتے۔ جب یہ سلسلہ رکنے میں نہ آیا‘ تو آہستہ آہستہ زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں نے آواز اٹھانا شروع کی۔ کچھ والدین نے حوصلہ کر کے‘ پولیس میں رپورٹ بھی کر دی‘ لیکن ساری انتظامیہ نے مل کر اس کیس کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس چھوٹے سے گائوں کے مظلوم بچے اور ان کے والدین‘ انٹرنیشنل مافیا کے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں۔ ایسی غلیظ ویڈیوز‘ دنیا بھر کے بگڑے ہوئے لوگوں کا پسندیدہ میٹریل ہے‘ جوانتہائی خفیہ طریقے سے اندر ہی اندر پھیلتا ہے۔ ایسی ویڈیوز بہت مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے ‘ انتہائی رازداری سے اپنا کاروبار جاری رکھتے ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق لاکھوں بلکہ کروڑوں ڈالر کی یہ خفیہ مارکیٹ ‘ تمام حکومتی کوششوں اور خفیہ ایجنسیوں کی نظروں سے بچ کر ‘ اپنا کاروبار جاری رکھتی ہے۔ کم و بیش دنیا کے ہر قابل ذکر ملک میں یہ غلیظ کاروبار ہوتا ہے۔ مختلف ملکوں نے باہمی تعاون کر کے‘ ایسے مافیازکو گرفت میں لیا ہے اور سزائیں دی گئی ہیں۔ مگر ایک گروہ قانون کی گرفت میں آتا ہے‘ تو کوئی دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ مکروہ کاروبار مکمل طور پر کبھی بند نہیں کیا جا سکتا۔
چند سال پہلے بھارت میں ایک بہت بڑا نیٹ ورک بے نقاب ہوا تھا۔ وہاں غیرملکی مجرموں نے پسماندہ علاقوں میں اپنا جال پھیلایا تھا۔ وہاں غربت بھی انتہا کی ہے۔ جو واقعات منظرعام پر آئے‘ ان کے مطابق ایک یا دو گورے کسی گائوں میں جا کر رہنے لگتے اور اپنی موجودگی کا جواز پیدا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر لیتے۔ جیسے ایک مجرم نے جڑی بوٹیوں کی تلاش کا بہانہ بنا رکھا تھا۔ مقامی لوگوں کو ایک آدھ پودے کے پتے دے کر وہ کہتا کہ جہاں پر یہ بوٹی مل جائے‘ اسے لے جا کر وہ جگہ بتا دو۔ وہ اچھا خاصا معاوضہ دے دیتا۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ وہ اس بوٹی کو کب اور کہاں لے جاتا ہے؟ ظاہر ہے‘ یہ سب ڈھکوسلا تھا۔ اس بہانے وہ گائوں والوں کو اچھی خاصی رقوم دے کر‘ ان کا مددگار بن جاتا اور خفیہ طور سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھتا۔ جو واقعات سامنے آئے‘ ان کے مطابق اس گائوں کے لالچی مردوں عورتوں کو اعتماد میں لے کر‘ ان سے لڑکے اور لڑکیاں منگواتا
اور ان کے ساتھ ویڈیوز بنائی جاتیں۔ کبھی اس کے اپنے ساتھی ملوث ہوتے اور کبھی مقامی نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں کو شامل جرم کر لیا جاتا۔ بھارتی حکومت نے مختلف ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد لی اور اس تعاون کے نتیجے میں آخرکار وہ نیٹ ورک پکڑا گیا اور مجرموں کو کافی سخت سزائیں دی گئیں۔ وہ نیٹ ورک تو پکڑا گیا‘ لیکن دیگر چھوٹے چھوٹے گروہ‘ مقامی طور پر یہ کام آج بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے کسی نیٹ ورک کی خبر نہیں آئی۔البتہ کراچی میں ایک گروہ کی خفیہ برانچ یہ غلیظ کام کرتی تھی‘ اس کی بنائی ہوئی ویڈیوز ایک مقدمے کے سلسلے میں عدالت میں بھی لائی گئیں‘ جنہیں دیکھ کر جج صاحبان کو بے حد دکھ ہوا‘ لیکن مجرموں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ اس کی تفصیل منظرعام پر نہیں آئی اور اگر آئی‘ تو مجھ تک نہیں پہنچی۔ میں طبعاً بھی ایسے گندے سکینڈل کے بارے میں کچھ کہنا سننا پسند نہیں کرتا‘لیکن میرا خیال ہے کہ قصور والا نیٹ ورک یقینی طور پر کسی نہ کسی انٹرنیشنل تنظیم سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے پاس روپے پیسے اور اثرورسوخ کی کمی نہیں‘ ورنہ میڈیا کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ سلسلہ قریباً دس سال سے جاری ہے اور زیادتی کا شکار ہونے والے ہر خاندان نے رسوائی سے بچنے کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والے شرمناک واقعات پر پردہ ڈالنا ہی مناسب سمجھا۔ کچھ خاندانوں کو اس گروہ نے خود ویڈیو ‘ نیٹ پر ڈال دینے کی دھمکی دے کر بلیک میل کیا۔ یہ کہانیاں بھی اخبارات میں آ چکی ہیں کہ بچوں سے روپیہ لانے کو کہا جاتا اور مظلوم بچے ذلت سے بچنے کی خاطر‘ گھر سے پیسے اور زیورات وغیرہ چُرا کر ‘ ان ظالموں کا منہ بند رکھنے کی کوشش کرتے۔ ایک متوسط خاندان کے بچے کی ماں نے روتے ہوئے اخبارنویسوں کو بتایا کہ وہ اب تک 14لاکھ روپے دے چکی ہے۔ اس کا صبر جواب دے گیا ہے اور اب وہ عزت کا بھرم رکھنے پر سچ بولنے کو ترجیح دے گی اور تھانے جا کر ایف آئی آر لکھوائے گی۔ گزشتہ چند ہفتوں کے اندرایسے بہت سے لوگوں نے ایف آئی آر لکھوائیں‘ لیکن اسے ریکارڈ میں نہیں آنے دیا گیا۔ بہت زیادہ شور مچنے پر پولیس نے 8ایف آئی آرز کا اعتراف کیا ہے۔ درجنوں افراد ‘ ایف آئی آر لکھوانے کی کوشش کر چکے ہیں‘مگر پولیس انہیں خاطر میں نہیں لا رہی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پولیس‘ مختلف کہانیاں گھڑ کے میڈیا کو جھٹلاتی رہی۔ تازہ ترین کہانی یہ بنائی گئی کہ اصل میں یہ دو پارٹیوں کے درمیان زمین کا جھگڑا ہے۔ دونوں ہی سرکاری زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہانی ایک اعلیٰ پولیس افسر نے پریس کانفرنس میں بیان کی۔
حیرت ہوتی ہے کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ‘ ایسے واقعات پر پردہ ڈالنے کے لئے‘ کیسی کہانی تخلیق کی؟ عام لوگ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ زمین کا جھگڑا اگر ہے بھی‘ تو وہ اتنے برسوں تک نہیں چل سکتا۔ جب باقاعدہ لڑائی ہو رہی ہو‘ تو وہ ایک دو سالوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ زمین کا تنازعہ اگر عدالت میں چلا جائے‘ تو یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ وہ طویل مدت سے چل رہا ہے‘ لیکن جب لڑائی کا ذریعہ اختیار کر لیا جائے‘ تو دونوں میں سے ایک فریق‘ دوسرے پر غالب آ کر معاملہ نمٹا لیتا ہے اور یہ بات تو اب اس علاقے کا ہر شخص جانتا ہے کہ دو فریقوں کی لڑائی میں ایک بہت بڑے علاقے کی آبادی‘ عورتوں اور بچوں سمیت جمع ہو کر‘ اس طرح کے مظاہرے نہیں کرتی۔ دوخاندانوں کی لڑائی میں عام لوگ اس طرح متحد ہو کر نہ تو پُرجوش اور جذباتی مظاہرے کرتے ہیں‘ نہ پولیس کے لاٹھی چارج کے سامنے ٹھہرتے ہیں اور نہ جواب میں خود پتھر مار کے غیظ و غضب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اب یہ معاملہ عالمی میڈیا میں آ گیا ہے اور مزید تفصیلی رپورٹیں شائع ہوں گی۔ پاکستان کو پہلے ہی دہشت گردوں نے‘ دنیا بھر میں بدنام کر رکھا ہے‘ مگر ایسی بدکرداری کی تجارت کم از کم ہمارے ملک میں نہیں تھی۔ یہاں ہر قسم کے گناہ ہوتے ہیں‘ لیکن اس طرح بدکاری کے کسی انٹرنیشنل گروپ کے ساتھ مل کر یہ گندا کام نہیں ہوتا تھا۔جو دلخراش کہانیاں اب سامنے آ رہی ہیں‘ انہیں پڑھ اور سن کر روح کانپ جاتی ہے۔ ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ پولیس والوں کو تو خصوصاً ایسے جرائم پر پردہ ڈالنے کا گناہ کبیرہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اس جرم کا نوٹس لیا ہے اور ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی ہے‘ لیکن جس سست رفتاری سے یہ کام ہو رہا ہے‘ اسے گوارا کرنا شہبازشریف کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کو اصل حقائق پر مبنی رپورٹ پیش نہیں کی گئی‘ ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ معاملہ اتنا طول پکڑتا۔ بدکاری کا یہ سلسلہ پولیس کے سائے میں جاری رہتا۔ لوگ احتجاج کرتے اور شہبازشریف کی حکومت کی طرف سے کوئی فوری اقدام نہ ہوتا۔ ظاہر ہے‘ اب یہ معاملہ اسمبلی میں بھی آئے گا ۔ ہم سب کے سر شرم سے مزید جھکیں گے۔ دنیا میں ہماری الگ رسوائی ہو گی۔ ہم سر اٹھانے کے قابل اسی وقت ہوں گے‘ جب ہم بدکاری کے اس کاروبار میں ملوث مجرموں کو پکڑ کر عبرت ناک سزائیں دیں گے۔ میں اس مطالبے کی حمایت کرتا ہوں کہ اس مکروہ کاروبار کے سارے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیں‘ کیونکہ جو تشدد بچوں اور ان کے اہل خاندان کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘ اس سے زیادہ تشدد اور کیا ہو سکتا ہے؟ ایسے اندوہناک واقعات پر عوامی احتجاج کو‘ زمین کے جھگڑے کا نتیجہ قرار دینے والے لائق اور فائق افسر سے خود وزیراعلیٰ کو انٹرویو ضرور کرنا چاہیے۔متاثرین سڑکوں پر مظاہرے کر کے‘ اپنے دکھ بیان کر رہے ہیں اور پولیس کے صاحب بہادر فرماتے ہیں کہ ہم نے تو مساجد میں اعلانات کئے مگر لوگ ہی اپنی شکایت لے کر پولیس کے پاس نہیں گئے۔