تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-08-2015

جرنیل زیرِ احتساب… مگر جج اور جرنلسٹ؟

جنرل راحیل شریف کے بارے میں خبر کسی رپورٹر نے نہیں چلائی۔سب جانتے ہیںافواہ ''فیڈ‘‘ کرنے والا کون ہے اور اس کے پیچھے بلکہ اس کے بھی پیچھے کون کون چُھپا ہوا ہے۔یہاں یہ کہنا بر محل ہوگا کہ ہمارے جیسے ملکوں میں کچھ بھی بلاوجہ ہوتا ہے نہ ہی بلا معاوضہ۔ اگر ''افواہ فروش‘‘ کی شناخت کر لی جائے تو پھر وہ بھی پکڑے جا سکتے ہیں جن کو عرف ِعام میں گاہک یا انوسٹر کہتے ہیں‘ لیکن جس ملک میں جواب دہی اور احتساب پٹواری بادشاہ سے شروع ہو کر کلرک بادشاہ پر ختم ہو جائے وہاں کون کس کو پکڑے گا۔ابھی ملین ڈالر ''ماڈل‘‘ والا قصہ تازہ ترین مقدمہ ہے۔بڑے ملزموں کی ویڈیو سامنے ہے ۔سب پہچانے جا رہے ہیں مگر سنگ و خشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد۔کوئی نہیں جانتا کہ منی لانڈرنگ کے اس ہائی پروفائل مقدمے کے تفتیشی افسر کو قتل کس نے کیا۔جہاں شہید قائد عوام کے عدالتی قتل،شہید لیاقت علی خان اور شہید بینظیر بھٹو کا قتل بھی ہضم کیا جا سکتا ہے‘ وہاں ریلوے کے 200,100انجن دو نمبر نہیں بلکہ 9 نمبر والے خرید لیں تو بھی کیا فرق پڑتا ہے۔
ہاں البتہ، عساکرنے ایک بار پھرپیغام دیاکہ طاقت ور ترین اداروں کے اندر بھی احتساب ہوسکتا ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ احتساب کرنے والے کی نیت اور قبلہ درست ہو۔4دن پہلے این ایل سی سکینڈل کا ری ٹرائل ہوا۔دوبارہ چلائے گئے اس مقدمے میں تین جرنیل حضرات کو فوج نے پھر سے نوکری پر طلب کیا۔فوجی عدالت بیٹھی۔ شہادت پیش ہوئی۔ ایک صاحب کارینک،عہدہ اور مراعات واپس لے لیے گئے۔ دوسرے کا جرم ڈانٹ ڈپٹ کے برابر تھا۔ اسے سرزنش کر دی گئی۔ تیسرا بے گناہ نکلا اور بری ہوگیا۔ اس سے بھی پہلے ایک آرمی چیف آرٹیکل 6کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ ایل ایف او کا ساتھ دینا پورے ملک میں تنہا اس کا جرم ٹھہرا۔اس سے بھی بہت سال پہلے ایک نیول چیف سزا یاب ہوچکا۔اس سے کم از کم اتنا تو ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی ملٹری سروس کے سٹرکچر میں خرابی کو درست کرنے کی گنجائش موجود ہے اور سارے جرنیل مقدس گائے نہیںسمجھے جاتے ۔جو واردات کرے گا وہ پکڑا جائے گا۔
پاکستان میں احتساب کی تاریخ شروع سے ہی مقدس ٹرائیکا کے لیے ''رضیہ‘‘ بن گئی۔ جی ہاں وہی بے چاری جو مسٹنڈوں کے درمیان اکیلی پھنس گئی تھی۔کچھ احتساب کار، ڈنڈا بردار تھے جن کی لاٹھی نے بھینس کی ملکیت ان کے نام کروادی۔ ہر مارشل لاء میں ہر اس شخص کا احتساب ہوا جو مارشل لاء کا حامی نہیں تھا۔جو غیر آئینی اقدام کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا اسے لوٹوں کے تالاب میں اشنان دے کر پاک صاف کیا جاتا رہا۔اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بڑے بڑے عہدوں پر موجود اکثر خواتین و حضرات لوٹا تالاب کے نہائے ہوئے ہیں۔سیاسی جماعتوں کے دورِ اقتدار میں بھی سیاسی مخالفوں کے علاوہ کسی کا احتساب نہ ہوا۔دو دن پہلے سندھ سے تازہ ترین شکایت سامنے آئی۔ایف آئی اے کی کارروائیوں کو وزیراعلیٰ نے سیاسی کہا۔کچھ دن اور یہی سلسلہ چلا تو قائم علی شاہ جیسا مفاہمت کا مارا ہوا بھی اسے سیاسی انتقام کہہ دے گا۔اس وقت اپوزیشن کے نام پر اقتدار کے مزے لینے والے پیپلزپارٹی کے لیڈر وں کی پالیسی بالکل وہی ہے جو جنرل مشرف کے دور میں مولوی حضرات نے اپنائی تھی۔ مارشل لاء کی الائچی سے بھرپور خوشبودار حلوہ کھانے کے بعد ایم ایم اے نے جنرل مشرف کی وردی کو حلوے کی برکت سے آئینی قرار دیا۔ اس کے لیے باقاعدہ اسمبلیوں میں ''وردی بچاؤ‘‘ ووٹ بھی ڈالاگیا۔تب انہیں دو صوبوں میں اقتدار اور مرکزمیں اپوزیشن کی ڈبل ٹوپی پہنادی گئی۔اس ٹوپی نے اقتدار پرست مُلا ملٹری اتحاد کے دو نتائج نکالے۔
ایک صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دہشتگردی کی لہر اُٹھی۔دوسرے اسی لہر کے بطن سے ایم ایم اے کا سیاسی تابوت برآمد ہوا۔آج قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان میں سندھ کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے دونوں اپوزیشن لیڈر سندھ میں ایف آئی اے کی کارروائیوں پر ''چُوں‘‘ بھی نہیں کرسکتے۔حالانکہ کون نہیں جانتا کہ کرپشن چاروں صوبوں کا ناسور ہے۔کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت خود اپنے ہی دو وزیروں کو گرفتار کر چکی۔ یہ بڑی جر أت کا کام ہے۔اس سے پہلے یہی کام شہید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جو نیجو نے اپنے دور اقتدار میں کیا۔بلوچستان کو این ایف سی کی آمد کے بعدملنے والی رقم اگر اس کی کل آبادی میں کیش کی صورت میں بانٹی جائے تب بھی بلوچستان کا ہر شہری کروڑ پتی بن سکتا ہے۔مگر اس صوبے کے سیاسی مالکان اور ان کے مزارعے ہر نئے بجٹ کے بعد لندن، دبئی، کراچی ، اسلام آباد میں نیا بنگلہ ،نئی گاڑی اور نئی شادی کا اضافہ کر کے پھر غربت کے حق میں ڈھول بجاتے ہیں۔سندھ میں وڈیرا شاہی مافیا بن چکی‘ جبکہ پنجاب میں لٹیرا شاہی کا راج ہے۔
پنجاب کے عوام ،تاجر،جج،وکیل بلکہ 3سال سے5سال کے بچے تک روزانہ قتل ہو رہے ہیں یا بچوں سے ایساوحشیانہ سلوک ہوتا ہے جس کے نتیجے میں وہ زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ہر بڑا ٹھیکہ رولز کو پامال کر کے اور ہر بڑا پراجیکٹ انگلی کھڑی کر کے دیا جاتا ہے۔ہو سکتا ہے قائم علی شاہ کی شکایت غلط ہو‘ مگر یہ شکایت ایف آئی اے کی ساری کارروائی صرف سندھ تک محدود کرنے کی حد تک واقعاتی طور پربالکل درست ہے۔ اس ''ٹارگٹ کرو‘‘ آپریشن کے دو مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔پہلایہ کہ ملک بھر کی ساری کرپشن، مالی بد انتظامی اور رشوت خوری صرف سندھ تک محدود ہے۔ اگر یہ فلسفہ تسلیم کر لیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ ایک ہی ہو گا‘ یہ کہ باقی چاروں صوبوں‘ وفاقی دارلحکومت،فاٹا،آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں بیورو کریسی کے اندر سادھو،سنت،فقیر،درویش بھرتی ہو گئے ہیں اور ان علاقوں کے سیاستدان ولی اللہ، فرشتے، معصوم الدّم، جوگی، کشٹ اور بن باس کاٹنے والے ہیں۔دُور سے ہی کرپشن کو دیکھ کر رام رام کرتے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ چُن چُن کر سیاستدانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔کبھی سیاسی مصلحت اور منافقت کے تحت خاص سیاسی پارٹی نشانہ بنتی ہے۔بے لاگ احتساب ہو تو پھر عدلیہ میں سول جج،ایڈیشنل جج ،ریڈر اور اہلمد کے بجائے آئین کا آرٹیکل 209حرکت میں آجائے۔آج تک قوم کی آنکھیں ترس گئی ہیں اور بول بول کر وکیلوں کے گلے خشک ہو چکے ہیں‘ مگر اعلیٰ عدالتوں کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل ،احتساب کے لیے کبھی حرکت میں نہیں آئی اور پھر وہ جرنلسٹ جو ریستورانوں کے مالک،سو،سو کنال کے پلاٹوں کے لیز ہولڈرز، رپورٹر، اینکر ساتھ ساتھ کئی کئی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹیو بھی ہیں‘ ان کوکون پوچھے گا کہ آپ پر سیاست کے ساون میں میٹھی گوگیاں کیونکر برستی ہیں۔اُس لالچی پیر کی طرح جس نے بارش زدگان کے حق میں دعا کی تو یوں:
الٰہی، اب کے ساون میں
فلک سے گوگیاں برسیں
'گوگی‘ پوٹھوہاری زبان میں میٹھی روٹی کوکہتے ہیں‘ مگر یہ میٹھی روٹی تافتان جیسی نہیں ہو سکتی جو وزیراعظم صاحب کی پسندیدہ کشمیری بریڈ ہے۔جرنیل تو زیرِ احتساب ہیں... مگر جج اور جرنلسٹ؟؟؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved