تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     10-08-2015

سیاستی اخلاقیات

ریحام خان نے کہا:عمران خان وزیراعظم نہیں بننا چاہتے۔ کیا یہ کوئی ماننے والی بات ہے؟ سیاست اقتدار کے لیے ہو تی ہے۔ جو اِس کا انکار کرتا ہے، وہ لوگوں کو دھو کہ دیتا ہے۔کیا بقائمی ہوش وحواس ہم مان سکتے ہیں کہ نوازشریف صاحب وزیراعظم نہیں بننا چاہتے تھے۔کیا عوام نے ان کے گھرکا گھیراؤ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ تشریف لائیں اور ہماری قیادت فرمائیں؟ہمارا مشاہدہ اس کے بر خلاف ہے۔انہوں نے بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ مل کر آئین میں ترمیم کروائی اوراس قیدکو ختم کیا کہ کوئی دو بار سے زیادہ ملک کا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ہم جانتے ہیں کہ بیس کروڑ عوام میں آئینی ترمیم کا فائدہ صرف دو شخصیات کو ہو سکتا تھا: بے نظیر بھٹو اورنوا زشریف۔اس کے بعد بھی اگر شریف خاندان دعویٰ کرے کہ وہ اقتدار کے لیے سیاست نہیںکرتا توکیا ہم اسے مان لیں گے؟کیا خادمِ اعلیٰ کہلوانے سے کوئی خادم بن جاتا ہے؟
ہمارا اصل مسئلہ اخلاقی ہے۔عوام سے جھوٹ بو لنا ہمارا سیاسی روز مرہ ہے۔ اسے کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا اور بد قسمتی یہ ہے کہ لوگ اسے قبول کرتے ہیں۔اہلِ مذہب کا تجربہ اس معاملے میں چشم کشاہے۔جماعت اسلامی سے زیادہ، اخلاقی معاملات میں شاید ہی کوئی حساس رہا ہو۔ایک دور میںجماعت کے نزدیک خود کو کسی منصب کے لیے پیش کر نا حرام تھا۔ایک فرد کے نااہل ہونے کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ خود کوکسی منصب کے لیے پیش کرے۔انتخابات کا وقت آیا تو جماعت کو یہ چیلنج درپیش ہوا کہ وہ ان میں کیسے حصہ لے۔ایک پیچیدہ طرزِ عمل اختیارکیا گیا۔اہلِ حلقہ کی کمیٹی بنی کہ وہ کسی سے درخواست کرے کہ وہ ان کی نمائندگی کے لیے آمادہ ہو۔امیدوار خود ووٹ نہیں مانگتا تھا،اس کے لیے ووٹ مانگے جا تے تھے۔سیاست کے مگر اپنے اطوار ہیں۔آہستہ آہستہ حجاب اٹھنے لگے ۔پھر وہ وہ وقت آیا کہ امیدواری حلا ل ہوگئی۔اب تو کسی امیدوار کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ وہ کسی حرام کام کا مرتکب ہو رہا ہے۔وہ اپنی تشہیر کرتا اور لوگوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اسے ووٹ دیں۔
سیاست میں یہ فرق تو ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی ذات کے لیے اقتدار چاہتے ہیں یا کسی اعلیٰ مقصد کے لیے۔یہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی اقتدار کی خواہش نہ رکھتا ہو لیکن وہ عوام کی خدمت کے لیے ریاست کے وسائل استعمال کر نا چاہتا ہو۔اب وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی ذات کے لیے نہیں،کسی مقصد کے لیے اقتدار چاہتا ہوں لیکن وہ اس کا مطلق انکارکیسے کر سکتا ہے کہ اقتدار نہیں چاہتا۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق نہ ہو۔وہ ایک سیاسی مہم چلائے کہ صرف بہتر لوگ پارلیمنٹ اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچیں۔آپ اقتدارکی دوڑ میں شریک ہوں، انتخابی جیت کے لیے خیر اور شر کی تمیز سے بے نیاز ہو جا ئیں، اس کے بعد آپ کی خاتون ِ خانہ انکشاف کرے کہ آپ وزیراعظم نہیں بننا چاہتے تو اس کے بعد 
صرف وہی آپ کی بات پر اعتبار کر سکتا ہے جس نے اپنی سوچ آپ کے پاس گروی رکھوا دی ہو۔
مو جودہ اہلِ سیاست میں، میں کسی ایسے آ دمی کو نہیں جا نتا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ و ہ اقتدار نہیں چا ہتا۔ درویشی کے لبادے میں بھی اگر جھانکیے تو کسی کونے میں حبِ جاہ بیٹھی دکھائی دے گی۔مو جودہ جمہوریت کا ایک فائدہ البتہ یہ ہے کہ اقتدار عوام کی منظوری سے مشروط ہے۔عوام کی رائے ہی سے اقتدار کی دیوی کسی پر مہربان ہو سکتی ہے۔یہ رائے اسی وقت آپ کے حق میں ہوگی جب آپ عوام کی خوشنودی کا خیال رکھیں گے۔یہ بات اب اہلِ سیاست کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اقتدار میں آنے اور رہنے کے لیے عوام کی خدمت کو شعارکریں۔یوں سیاست کا معاملہ محض گمان یا تاثر پر منبی نہیں رہا، یہ اب عقلی تجزیے پر منحصر ہے۔یوں دورِ جدید میں نظری یاجذباتی بنیاد پرسیاسی استحصال کا امکان بہت کم ہو گیا ہے۔
جمہوریت کا یہ تصور چو نکہ مغرب سے آیا ہے،اس لیے یہ لبرل اخلاقیات کا پابند ہے۔لبرل اخلاقیات اپنے مظاہر میں مذہبی اخلاقیات سے زیادہ مختلف نہیں۔ ان میں اصل فرق ماخذ کا ہے۔مذہبی اخلاقیات کی اساس مابعد الطبیعیاتی ہے۔ ماخذ کا فرق معمولی نہیں ہو تا۔اس سے ایک فعل کا مقصد بھی تبدیل ہو جا تا ہے، جیسے لبرل اور مذہبی، دونوں اخلاقیات میں سچ بولنا چاہیے۔ مذہب اس کا اجر آخرت سے متعلق کرتا ہے، لبرل اخلاقیات میں سچ کا فائدہ ہم اسی دنیا میں اٹھاتے ہیں۔سیاست جب لبرل اخلاقیات کے تحت سچ کی پابند ہوتی ہے تو اس لیے نہیں کہ سیاست دان اخروی اجرکا مستحق ہے۔اس میں عوام جھوٹے کو کسی منصب کے لیے نا اہل سمجھتے ہیں کیو نکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسے آ دمی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے میں نقصان ہے۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر ہمارے سیاست دانوں کو ایسی باتیں کہنے سے گریز کر نا چاہیے کہ ہم تو وزیراعظم نہیں بننا چاہتے یا ہم تو خادمِ عوام ہیں۔یہ لوگوں کو دھوکہ دینا ہے۔انہیں اپنا مقدمہ عقلی بنیادوں پر پیش کر نا چاہیے کہ ہم اقتدار میں آ کر عوام کے لیے فلاں فلاں کار ہائے نمایاں سرانجام دیں گے۔اگر وہ کوئی کام اللہ کے لیے کرتے ہیں تو یقیناً انہیں آ خرت میں اجر ملے گا۔عوام کو اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ آپ ان کا کام دیانت داری سے کریں۔ان کے پیسے ناجائز استعمال نہ کریں اور انہیں اچھی حکومت فراہم کریں۔اگر ہم اپنی سیاست کو ان بنیادوں پر آگے بڑھائیں تو پھر عوام کا جذباتی اورمذہبی استحصال بند ہو 
جائے گا۔ پھر نظامِ مصطفیٰ کے عنوان سے کوئی عوام کو دھو کہ دے سکے گا نہ تبدیلی کے نام پر۔
ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہمارے سیاسی، مذہبی اور سماجی رویے، عقلی بنیادوں پر ترتیب نہیں پا سکے۔ یہاںلوگوں نے دانستہ ہیجان، رومان اور جذباتیت کو فروغ دیا۔یہی وہ روزن ہیں جہاں سے استحصال کو سیاست میں گھسنے کا موقع ملتا ہے۔ رومان کا معاملہ تو ہوتا ہی غیرمنطقی ہے۔ رہا مذہب تو یہ جذباتی استحصال کا ایک آ زمودہ نسخہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذکے لیے سیاست کرتے ہیں۔کیا یہ کوئی ماننے والی بات ہے؟ برادری، خاندان کی عصبیت بھی اسی روزن سے داخل ہوتی ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ اخلاقی ہے۔ہم اجتماعی معاملات میں،کاروبار ہو یا سیاست،اخلاقیات پر یقین نہیںرکھتے، اس لیے ہم استحصال کوجائز رکھتے ہیں۔میں مذہبی اخلاقیات کا قائل ہوں ؛ تاہم میرا خیال ہے کہ اگر ہم اپنی سیاست کو لبرل اخلاقیات کے تابع کر سکیں تو یہ بھی غنیمت ہے۔ مغرب میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہم وزیراعظم نہیں بننا چاہتے یا ہم خادمِ ِاعلیٰ ہیں۔ تاہم اگر صدر کلنٹن عوام سے جھوٹ بولے تو اس کا سیاسی مستقبل تاریک ہو جا تا ہے۔اس کے لیے لیکن لازم ہے کہ دلیل اور استدلال کو بطور قدر مستحکم کیا جا ئے۔ بصورتِ دیگر کوئی ہمیں آ کر بتائے گا کہ میں بطریقِ منام امام ابو حنیفہؒ کا شاگرد ہوں تو ہم آنکھیں بند کر کے اس کی بات مان لیں گے۔ پھر ہم یہ بھی مان لیں گے فلاں صاحب وزیراعظم نہیں بننا چاہتے۔ جو دھوکہ کھانے پر تیار ہو اسے دھوکے سے کون روک سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved