پنجابی زبان کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں اگلے روز لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں جہاں یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہم پنجابیوں کو سب سے پہلے اپنے آپ پر پنجابی زبان نافذ کرنی چاہیے جبکہ ''پلاک‘‘ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صغریٰ صدف کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے اُردو اخبارات کو ایک صفحہ پنجابی شعر و ادب کے لیے مختص کرنا چاہیے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اپنے وقت میں احمد ندیم قاسمی نے ''امروز‘‘ میں ہفتے میں ایک دن اسی مقصد کے لیے ایک صفحہ مخصوص کر رکھا تھا جو ظہیر بابر‘ مسعود اشعر اور اُن کے بعد تک جاری رہا۔ گورنمنٹ کالج کے میگزین ''راوی‘‘ میں اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ پنجابی منظومات بھی شائع ہوا کرتیں‘ حتیٰ کہ اے جی جوشؔ کے پرچے ''ادب دوست‘‘ میں شروع سے ہی پنجابی کا ایک باقاعدہ حصہ شامل رہا ہے بلکہ ملتان سے ڈاکٹر انوار احمد اور ڈاکٹر عامر سہیل کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے ''پیلوں‘‘ میں اردو کے ساتھ پنجابی اور سرائیکی زبانوں کی نگارشات بھی باقاعدگی سے شائع کی جاتی ہیں۔ مؤقر انگریزی روزنامہ 'ڈان‘ جسے صرف ایک اخبار نہیں بلکہ پوری کتاب کہنا چاہیے‘ اس میں ہر ہفتے شفقت تنویر مرزا کسی نہ کسی پنجابی کتاب یا رسالے پر تبصرہ کیا کرتے تھے جن کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ مشتاق صوفی نے جاری رکھا اور جواب بوجوہ بند ہے۔
یہ بات بجا طور پر کہی گئی ہے کہ اس کوتاہی کے ہم خود ذمہ دار ہیں کیونکہ ہمارے گھروں میں پنجابی کی بجائے اردو کا رواج ہے‘ حتیٰ کہ ہمارے بچے‘ نوکر‘ ڈرائیور تک سے ہم اردو میں بات کرتے ہیں بلکہ اب تو پنجابی کے ساتھ ہمیں اردو کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں جسے پیچھے دھکیل کر انگریزی اپنا تسلط قائم کرنے لگی ہے۔ اردو سے کسی کو کوئی پرخاش نہیں کیونکہ نہ صرف وہ ہماری قومی زبان ہے بلکہ ہم اہل پنجاب کی تخلیقات بھی کم و بیش ساری کی ساری اردو زبان میں ہیں۔ یہ بات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ کم از کم پرائمری تک ذریعۂ تعلیم مادری زبان ہونا چاہیے اور یہ اصول باقی تینوں صوبوں سندھ‘ پختونخوا اور بلوچستان تک میں عملی طور پر رائج ہے جبکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب اس سہولت سے محروم ہے بلکہ اگر کوئی قسمت کا مارا پنجابی میں ایم اے کر بھی لے تو اس کو جاب نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں بیوروکریسی کو تو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اس کے سب سے بڑے مجرم ہم خود ہیں۔
ویسے‘ منانے کو ہم ہر سال ماں بولی دیہاڑ بھی مناتے ہیں جس میں تقریروں کے علاوہ پنجابی ادیبوں کی واک بھی شامل ہوتی ہے۔ ''پلاک‘‘ سمیت کچھ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بھی اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ ماہوار پنجابی رسالوں میں ''ترنجن‘‘، ''پنچم‘‘، ''پنجابی ادب‘‘ اور ''لہراں‘‘ وغیرہ کے ساتھ کسی روزنامے کی جھلک بھی کبھی کبھار نظر آ جاتی ہے۔ مختلف انجمنیں بھی موجود ہیں جن میں اس زبان میں ہفتہ وار اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ اکیڈمی سمیت کچھ اداروں کی طرف سے ہر سال پنجابی کتابوں پر ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے جن میں مسعود کھدرپوش ایوارڈ بطور خاص شامل ہے جو پنجابی کے ایک بہت بڑے سٹال وارٹ کے وارث تھے اور جنہوں نے اذان اور نماز بھی پنجابی زبان میں ادا کرانے کی کوشش کی۔
پنجابی زبان کی ترویج و ترقی میں معروف ادیب فخر زمان کا کردار بطور خاص قابلِ ذکر ہے جنہوں نے ایک تو بحیثیت چیئرمین اکادمی ادبیات تمام علاقائی زبانوں کو قومی زبانیں قرار دیا بلکہ ان کے زیرِ اہتمام ''ورلڈ پنجابی کانگریس‘‘ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں جس کے اجلاس بھارت سمیت دنیا بھر میں ہوتے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ خود بھی پنجابی زبان ہی کے ادیب ہیں جن کے ناولوں اور شاعری کا کئی مغربی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح پنجاب کے سابق چیف منسٹر چودھری پرویزالٰہی اور ان کے کزن چودھری شجاعت حسین نے بھی اپنے دورِ وزارت میں اس سلسلے میں بعض بنیادی کام کیے جن میں ''پلاک‘‘ کے ادارے کا قیام اور اس کی قابلِ رشک عمارت کی تعمیر شامل ہے۔ موجودہ چیف منسٹر بھی پنجابی ہیں لیکن اس سلسلے میں اُن کی طرف سے کسی خصوصی جوش و خروش کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
حنیف رامے کی کتاب ''پنجاب کا مقدمہ‘‘ ایک اور یادگار کام ہے جو اس سلسلے میں سرانجام دیا گیا۔ دوسرے صوبوں کی طرح ہمارے ہاں بھی ایک بورڈ قائم ہے جسے پنجابی ادبی بورڈ کا نام دیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ اتنا فعال نہیں ہے جتنا کہ مثلاً سندھ ادبی بورڈ وغیرہ ہیں۔ اس میں بھی ہمارے اپنے تساہل اور بے حسی کی کارفرمائی زیادہ ہے۔ پنجابی زبان کے حق میں کبھی کبھار کوئی تحریک بھی چلتی نظر آتی ہے لیکن بنیادی کمزوریوں کے باعث اس کا بھی کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ سبط الحسن ضیغم واحد پنجابی ادیب تھے جو اس سلسلے میں ہمیشہ فعال رہے حالانکہ نجم حسین سید جیسی ہستیاں ہمارے درمیان اب بھی موجود ہیں جن کے لیے اپنے وجود کا احساس دلانا ہنوز باقی ہے جبکہ پنجابی زبان سے زبانی کلامی اظہارِ محبت کرنے والوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں ہے۔
ہمارے کئی ادیبوں نے بھی حسبِ استطاعت اپنی اردو تصنیفات میں پنجابی الفاظ اور لب و لہجے شامل کرنے کا اہتمام کیا ہے جن میں عبداللہ حسین‘ مستنصر حسین تارڑ‘ محمد سعید شیخ‘ عطاالحق قاسمی اور امجد اسلام امجد بطور خاص شامل ہیں۔ اگرچہ اسے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ اس کا اپنا انداز ہی مزاحیہ ہے۔ استاد امام دین کی نگارشات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم پنجابی سے اس لیے بھی خاص اعتناء نہیں کرتے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اردو پنجابی ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس میں اگرچہ حقیقت کا عنصر بھی موجود ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجابی نہ صرف اردو کی ماں ہے بلکہ یہ اردو سے کہیں وسیع اور بڑی زبان ہے جس کے اندر ہمارا شعری اثاثہ آج بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پنجابی کا اس ضمن میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ ایسے کئی الفاظ جو ہماری نظر میں بنیادی طور پر اس زبان سے تعلق رکھتے ہیں‘ کئی اساتذہ مثلاً ولی دکنی تک نے اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں۔ معروف ادیب اشفاق احمد نے ''اردو کے خوابیدہ الفاظ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ رکھی ہے جس میں ایسے الفاظ کی باقاعدہ فہرست دی گئی ہے جو عرصۂ دراز تک اردو میں مستعمل رہے اور جو بنیادی طور پر پنجابی ہیں۔ سو‘ اردو اور پنجابی کا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہے‘ جھگڑا صرف ہماری غیرت کا ہے جسے جگانے کی ضرورت ہے تاکہ اس ضمن میں وہ کچھ کیا جا سکے جسے نہ کرنے کے ہم خود قصوروار ہیں۔
آج کا مقطع
سو بھی ظفرؔ ہوا ہوں مٹی کے ساتھ مٹی
باقی تھا ایک میں ہی اس کی نشانیوں میں