ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ امریکہ کے لوگ دنیا والوں کو زیادہ حیران کرنا چاہتے ہیں یا پریشان۔ ایک طرف امریکی پالیسیاں ہیں جو ساری دنیا کو پریشانی سے دوچار کئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف امریکیوں کا عمومی رویہ ہے جو اہل جہاں کو حیران کیے دیتا ہے۔ دنیا سمجھ نہیں پاتی کہ آخر امریکی چاہتے کیا ہیں۔ اور یہی امریکیوں کی فتح ہے کہ ان کے ارادوں کا بارے کسی کو ٹھیک ٹھیک اندازہ ہی نہیں ہو پاتا!
چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔ ایک امریکی نے مرغی خریدی۔ سوچا تھا کہ خوب انڈے دے گی تو دکان سے انڈے نہیں خریدنے پڑیں گے۔ مگر اسے کیا معلوم تھا کہ مرغی بھی امریکی ہے! مرغی نے کئی دن تک انڈے دینا تو درکنار، انڈے دینے کا نام بھی نہیں لیا۔ امریکی عام طور پر زیادہ دن صبر کرتے نہیں ہیں مگر اس امریکی نے صبر کیا اور یہ آس لگائے بیٹھا رہا کہ آج نہیں تو کل، مرغی انڈے ضرور دے گی۔ مگر صاحب، مرغی تو واقعی امریکی نکلی یعنی مالک کی ساری توقعات پر انڈے ... اوہ معاف کیجیے گا، ہمارا مطلب ہے پانی پھیرتے ہوئے انڈا دینے کا نام ہی نہیں لیا۔
مرغی کے مالک کو تو بہت غصہ آیا۔ اس نے ناہنجار مرغی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اب سوال یہ تھا کہ مرغی تو بے زبان ہے، اسے کیا سبق سکھایا جائے۔ اور یہ کہ دنیا والوں کو بھی اس کی اصلیت معلوم ہو۔ اس نے مرغی پر مفت خوری، ہڈ حرامی اور کام چوری کا ''الزام‘‘ عائد کرتے ہوئے نوٹ لکھا اور اس کا پرنٹ نکال کر ایک ڈبے پر چسپاں کردیا۔ اور مرغی کو ڈبے کے اوپر باندھ دیا تاکہ آتے جاتے لوگ دیکھیں اور انہیں مفت خور، کام چور مرغی کی اصلیت معلوم ہو!
کام نہ کرنے پر مرغی کو سزا دینے کا یہ انوکھا طریقہ کتنا کارگر ہوا یعنی مرغی انڈے دینے پر مائل ہوئی یا نہیں یہ تو معلوم نہیں مگر ہاں اتنا ضرور ہے کہ لوگوں کو مرغی کے بارے میں جان کر مزا آیا۔ یعنی مرغی اپنے علاقے میں تو سیلیبریٹی بن ہی گئی!
کام نہ کرنے اور مفت کی روٹیاں توڑنے پر کسی کو مطعون کرنے کا یہ طریقہ کسی امریکی کے ذہن کی پیداوار ہوسکتا ہے، یہ جان کر ہمیں حیرت ہوئی۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ امریکیوں کو اندازہ ہے کہ ان کے ہاں تشکیل پانے والی حکومتوں نے اپنی انٹ شنٹ پالیسیوں کے ذریعے دنیا بھر میں کیا اندھیر مچا رکھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکی پالیسیاں بھی اپنی اصل میں اِس مرغی ہی کی بہن ہیں! جس طور اس مرغی نے بہت کچھ کھایا مگر کچھ نہ دیا بالکل اُسی طرح امریکی پالیسیاں بھی دنیا بھر کے وسائل ڈکار جاتی ہیں مگر اس کے عوض دیتی کچھ نہیں! امریکی سرکار دعوے تو بہت کرتی ہے کہ یہ کردے گی وہ کردے گی مگر جب کچھ کر دکھانے کا وقت آتا ہے تب وہ بھی اِس مفت خور مرغی کی بہن سی دکھائی دینے لگتی ہے! جی بھر کے دانہ دُنکا چگنے والی امریکیوں پالیسیوں سے جب کوئی انڈے کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ سراسر ''کڑک‘‘ ثابت ہوتی ہیں!
ایک زمانے سے اہل جہاں یہ تماشا دیکھتے آئے ہیں کہ امریکی جہاں جاتے ہیں، اصلاحِ احوال کے نام پر صرف خرابیاں پیدا کرتے ہیں اور دعوٰی یہ کیا جاتا ہے کہ سب کچھ درست کردیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ جناب، کیا درست ہوا ہے تو اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو بھرے مجمع میں خان صاحب نے ایک معترض سے کیا تھا۔
ایک خان صاحب مجمع میں کوئی دوا بیچ رہے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دوا کھانے سے جسم میں فولادی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ انہوں نے ایک لیموں کے دو ٹکڑے کیے اور دونوں کو بھرپور نچوڑ دیا۔ اب خان صاحب کا دعویٰ تھا کہ اس لیموں سے مزید رس یعنی ایک قطرہ بھی نچوڑا نہیں جاسکتا۔ اُنہوں نے حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے سوال کیا کہ کسی کو کوئی شک ہے؟ ایک مریل سے شخص نے ہاتھ اٹھایا تو خان صاحب نے ڈانٹتے ہوئے کہا خوچہ تم چپ کرو، کسی اور بھائی کو کوئی شک!
امریکہ سرکار سے کوئی مفت خوری اور لوٹ مار کا حساب طلب نہیں کرسکتا۔ بھرے مجمع میں جو بھی ہاتھ اٹھاتا ہے اُسے ڈانٹ سننا پڑتی ہے اور اِس کے بعد عملی اقدامات شروع ہوجاتے ہیں۔
ہم یہ سوچنے لگے کہ ایک امریکی نے انڈے نہ ملنے پر اپنی مرغی کا احتساب کیا اور اسے بھری کمیونٹی میں ذلیل کردیا۔ احتساب کی یہ کوئی بری مثال نہیں۔ مرغی جب دانہ چگ رہی ہے، پانی پی رہی ہے یعنی کھا پی کر مسٹنڈی ہوتی جارہی ہے تو اُسے انڈے دینے کی طرف بھی مائل ہونا چاہیے۔ جس طور مرغی پر مفت خوری اور کام چوری کا لیبل چسپاں کیا گیا اُسی طور اگر امریکا کی حکومتی مشینری کا بھی احتساب کیا جائے تو؟ ایک عام امریکی کو اپنی حکومت اور اس کی پالیسیوں سے جس طرح کے انڈوں کی توقع ہے وہ تو اُسے مل ہی نہیں پارہے۔ ایسے میں اگر وہ احتساب کرے تو برا کیا ہے؟
امریکی پالیسی میکرز نے اب تک جو کچھ کیا ہے اُس کی روشنی میں تو اُن پر بھی ہڈ حرامی اور مفت خوری کا لیبل چسپاں کیا ہی جانا چاہیے۔ امریکی پالیسیوں پر عمل کے حوالے سے دنیا بھر میں جو کچھ کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے وہ کئی اعتبار سے انتہائی خسارے کا سودا ہے۔ ایک طرف تو امریکی پالیسیاں وہ ثمرات نہیں دیتیں جن کی ان سے توقع وابستہ کی جاتی ہے۔ اور دوسری طرف اِس سے کہیں زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ امریکی پالیسیوں کی زد میں آنے والے معاشرے بھی بانجھ ہوتے جاتے ہیں۔ یعنی ایک طرف تو امریکی مرغیاں انڈے نہیں دیتیں اور دوسری طرف دیگر معاشروں کی مرغیوںکو بھی انڈے دینے کی صلاحیت اور سکت سے محروم کیا جارہا ہے! اور اگر اِس روش پر کوئی اعتراض کر بیٹھے تو اُس کی بھی شامت آجاتی ہے۔ بانجھ امریکی پالیسیاں ہر مخالف معاشرے کو بھی بانجھ بنانے پر تُلی رہتی ہیں۔ یہ سب کچھ اِتنا عجیب ہے کہ لاکھ سوچنے پر بھی کہیں سے ڈور کا کوئی سِرا ہاتھ نہیں آتا۔
ایک امریکی نے انڈے نہ دہنے پر اپنی مرغی کو سزا دے کر بظاہر احمقانہ حرکت کی ہے۔ کسی بے زبان سے کیا حساب کتاب؟ مگر صاحب، اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کو اب تک یاد ہے کہ اگر متوقع کارکردگی دکھائی نہ دے تو احتساب کیا جانا چاہیے۔ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر امریکا کے لوگ مرغی کے مالک والی سوچ اپنائیں اور اپنی حکومت سے جواب طلب کرنے پر مائل ہوں تو جو بہت کچھ ٹیڑھا دکھائی دے رہا ہے وہ بہت حد تک سیدھا ہوسکتا ہے! ایمان داری کی بات یہ ہے کہ امریکی پالیسی میکرز اب تک انڈے نہ دینے والی اِس مرغی کی طرح کڑک ہی ثابت ہوئے ہیں۔ قوم نے اُن سے جتنی بھی توقعات وابستہ کی تھیں وہ اب تک بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ محض مفت خوری یا کام چوری کا لیبل چسپاں کردینا کافی نہیں۔ امریکیوں کو چاہیے کہ جن پالیسیوں سے خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اُنہیں یکسر مسترد کردیں اور اُن پالیسیوں کے تیار کرنے اور اُن پر عمل کرنے والوں کو بھی سسٹم سے نکال کر پھینک دیں۔ اِسی صورت اُن تمام معاشروں کے آنسو پُنچھ سکتے ہیں جن کا سب کچھ امریکی پالیسیوں نے برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک عام امریکی انڈے نہ ملنے پر اپنی سرکاری مرغی سے جواب طلب کرے، اُس کا محاسبہ کرے۔ امریکا میں سرکاری مشینری کو دوبارہ انڈے دینے کے قابل بنانے کی یہی ایک کارگر صورت ہوسکتی ہے۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ جس طور انڈے نہ دینے پر ایک بے زبان مرغی کا احتساب کیا گیا ہے بالکل اُسی طور کچھ نہ کر دکھانے پر امریکا کی سرکاری مشینری کے اُن پُرزوں کا بھی احتساب ہوگا جو مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں اور اپنی ہر خامی کو خوبی ظاہر کرکے اب تک مزے کی زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔ ایک امریکی نے اپنی مرغی کو مطعون کرکے مثال تو قائم کردی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر امریکی کچھ سیکھتے ہیں یا موجودہ روش پر گامزن رہ کر حکومت سے کوتاہیوں پر جواب طلب کرنے سے مجتنب رہتے ہیں۔