تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     10-08-2015

ایک نیا سوال، نظام ِ انصاف کے بارے میں

خواجہ سعد رفیق پاکستان ریلویز میں آنے والی بہتری کے بارے میں بتاتے ہوئے جب ریلوے کی زمینوں کی طرف آئے تو یکایک ان کے لہجے میں مزاحمت در آئی۔ وہ مزاحمت، جو کسی سیاسی کارکن کے لہجے میں اس وقت آتی ہے جب اسے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے ناحق ہونے پر سو فیصد یقین ہوتا ہے۔ان کی گفتگو میں سختی محسوس ہوئی تو ریلوے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ہم تمام صحافی ان کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے: ''زمینوں کے معاملے میں ہمارے ہاتھ اسٹے آرڈرز نے باندھ رکھے ہیں، خاص طور پر ضلعی عدالتوں میں کئی بار تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں سنا ہی نہیں گیا۔ اس میں جہاں ریلوے کے شعبۂ قانون کی کمزور ی کا دخل ہے وہاں کچھ نہ کچھ ذمہ داری ضلعی عدالتوں پر بھی آتی ہے جو ایک سرکاری محکمے کے مؤقف کو وہ اہمیت نہیں دیتیں جو اس کا حق ہے، یہی وجہ ہے کہ ریلوے کی زمینوں کے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں‘‘۔ صحافیوں کو بخوبی علم ہے کہ خواجہ سعد رفیق اگر خود وفاقی وزیر نہ ہوتے تو وہ کیا کچھ نہ کہہ ڈالتے مگر وزارت کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے بس یہیں تک اکتفا کی اور بات بدل دی۔ 
ضلعی عدلیہ میں منصفوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں اور ایک ترقی پذیر ملک میں یہ سوالات نظام کی زندگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ انہی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش میں نظام ِ انصاف خود کو بہتر بناتا چلا جاتا ہے، لیکن اب یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ سوال ، اعتراض بنتے جاتے ہیں اور نظام میں اصلاح احوال 
کے لیے کوئی جنبش نظر نہیں آتی۔ عین ممکن ہے کہ اندر ہی اندر اس طرح کی کوششیں ہورہی ہوں لیکن وہ اتنی کم ہیں کہ ایک وفاقی وزیر بھی ان کا سراغ لگانے سے قاصر ہے جبکہ یہ وزیر تو وزیر، عام آدمی کا بھی حق ہے کہ انہیں معاشرے میں توازن پیدا کرنے والے اس نظام کے اداروں کے بارے میں سب کچھ نہیں تو بہت کچھ معلوم ہو۔ اس کے برعکس ہمیں نظر آرہا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں اس نظام میں خود کو ہرصورت میں ٹھیک سمجھنے کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے اور اکابرینِ انصاف باہر سے آنے والی تجاویز کو بھی سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں یہ تاثر زور پکڑتا جارہا ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف وکلا اورعدالت کا ایک درمیانی معاملہ ہے جس میں کسی کو دخل کی اجازت نہیں ۔ قومی اسمبلی میں تو پھر بھی کبھی کبھار کوئی آواز اس بارے میں سنائی دے جاتی ہے لیکن صوبائی اسمبلیاں اور صوبائی حکومتیں کسی ''انجانے‘‘ خوف کے تحت خود کو عدالتی معاملات سے بارہ پتھر باہر رکھتی ہیں۔ ان کا تو عالم یہ ہے کہ ضلعی عدلیہ کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے ایک رکن نے کوئی سوال پوچھا تو سپیکر نے یہ سوال ریکارڈ پر لانے کی اجازت ہی نہ دی۔ ایک صوبائی وزیرِ قانون سے اس بارے میں بات ہوئی کہ ضلعی عدالتوں کا نظام بہتر بنانے کے لیے حکومت کیا کرسکتی ہے تو ہنس کر بولے ''ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی‘‘ اور بات ختم کردی۔ 
وزیر قانون خواہ کتنا ہی لاچار کیوں نہ ہو بہرحال ایک وزیر ہوتا ہے اس لیے جہاں چاہے بات ختم کردے لیکن اس کے کہنے سے بات ختم نہیں ہوجاتی۔ کوئی بھی ریاست جو باقی رہنے کی تمنا رکھتی ہو اپنے کسی بھی ادارے کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ اپنے آپ میں مگن ہوکر جو چاہے کرتا پھرے۔ اس اصول سے نظامِ انصاف کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ پاکستانی معاشرہ خود کو روایت سے جوڑ کر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت میں شاید دنیا بھر میں یکتا ہے۔ یہاں جب ایک بامعنی سوال پیدا ہوجاتا ہے تو پھر اس کا جواب تلاش کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ آج سے چند سال پہلے جب ایک آمر کے ہاتھوں ایک چیف جسٹس کی تذلیل کا واقعہ رونما ہوا تو پوری قوم نے مل کر یہ اصول طے کردیا کہ قانونی معاملات میں اس طرح کی مداخلت خواہ کسی طرف سے بھی ہو،برداشت نہیں کی جائے گی۔اب مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ اس اصول کی آڑ لے کر ہمارا نظامِ انصاف جائز تنقید کو توہین اور مشورے کو مداخلت قرار دینے پر مائل نظر آتا ہے۔اپنے طے کردہ اصول کی یہ تشریح و توضیح معاشرے کے فعال طبقات میں بظاہر قابل قبول نظر نہیں آتی اس لیے ایک نیا سوال پیدا ہوگیا ہے کہ اکابرینِ انصاف کے اس رویے کو درست کرنے کے لیے کونسا راستہ اختیار کیا جائے۔ میڈیا احترام میں مبتلا ہو کر خاموش رہے اورقانون ساز خوف کا شکار ہوکر چپ رہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام بھی اکابرینِ انصاف کی حرکات و سکنات پر دم سادھے بیٹھے رہیں۔ 
نظام انصاف میں عدالت اور وکلا کے علاوہ عوام ایک اہم بلکہ اہم ترین فریق ہیں۔ اس لیے نظام میں آنے والی کوئی بھی تبدیلی ، یہاں تک کے اس کے اندر پائے جانے والے بڑے چھوٹے اختلافات سے بھی کوئی سمجھدار شخص لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اب وکلا میں سے براہِ راست ایڈیشنل سیشن ججوں کی تقرری اور سول ججوں پر ایڈیشنل سیشن جج کا امتحان دینے کی پابندی کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے، اس کو جس انداز میں نمٹانے کی کوشش ہو رہی ہے اسے مستحسن کہنا بہت مشکل ہے۔ اس معاملے نے ضلعی عدلیہ میں اختلاف کا ایسا بیج بو دیا ہے جس سے اگنے والے کانٹوں میں قانون دانوں کا دامن کئی سال تک الجھتا رہے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ اس معاملے میں جو کچھ ہو رہا ہے قانون دانوں کی خواہش کے احترام میں نہیں بلکہ قواعدکے عین مطابق ہے لیکن ان قواعد کا کیا کیجیے جو ازکار رفتہ ہوکر بے انصافی اور سول ججوں کی دل شکنی کا باعث بن رہے ہیں؟ اکابرین ِ انصاف کی بلند مسندوں تک تو شاید احساسِ محرومی کا شکار ہونے والے سول ججو ں کے دل میں سلگتی آگ کا دھواں بھی نہ پہنچ پائے لیکن یہ طے ہے کہ اس آگ میں انصاف جل کرکوئلہ ضرور ہوجائے گا۔ 
خواجہ سعد رفیق ایک وزیر ہونے کے ساتھ قانون ساز ادارے کے رکن بھی ہیں۔ ضلعی عدالتوں میں پیدا ہونے والی مشکلات صحافیوں کے سامنے رکھنے کے علاوہ اگر وہ یہ معاملات قومی اسمبلی اور اپنی جماعت کے ذریعے صوبائی اسمبلی میں لے جائیں تو بہتری کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ ظاہر ہے جب موضوع ماتحت عدلیہ ہوگا تو پھر کئی دوسرے مسائل بھی سامنے آئیں گے لیکن احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر ہمارے قانون ساز اس کے ہر پہلو کا جائزہ لے کر نئی قانون سازی کے امکانات پر غور کرسکتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے دھیمے سروں میں ہی سہی یہ بتا دیا ہے کہ نظام ِ انصاف میں سب کچھ ٹھیک نہیں ، اکابرینِ انصاف کو بھی اب جائزہ لینا چاہیے کہ خلقِ خدا ان کے بارے میں غائبانہ سوچ بچارکرتی رہتی ہے۔ اس جائزہ لینے کی مشق کے دوران انہیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے بلکہ آپ کے ساتھ مل کر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے، آخر آپ ہمارے ہی تو ہیں،نظام انصاف کوئی کمیونٹی کلب تو نہیں جہاں داخلے کے حقوق من چاہے لوگوں کو ہی دیے جاتے ہوں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved