یادش بخیر ! اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ریاستی ادارہ بنام ''پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) ‘‘ قائم ہے ۔ ہمیں آج تک اس ادارے کی کارکردگی یا کسی نتیجہ خیز مساعی کا پتا نہیں چل سکا، چند افراد کی پر کشش ملازمتوں کے سوا یہ ادارہ بے فیض ہے ۔ یہ الیکٹرانک میڈیا کے کن اُمور کو پابند ضوابط بنا تا (Regulate) یا کرتا ہے، اس کا کنٹرول کس حد تک ہے ، اس کے پاس اپنے احکام کی تنفیذ کے اختیارات کیا ہیں اور جو ادارہ یا ٹیلی وژن چینل قانون شکنی کرے ، یہ اس کے خلاف کیا کیا انضباطی یا تعزیری اقدامات کر سکتا ہے ، یہ اُمور واضح نہیں ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اہل ِ اقتدار کافی حد تک ذہنی بلوغت (Maturity) کی منزل میں داخل ہو چکے ہیں ، لہذا وہ الیکٹرانک میڈیا کی اُگاڑی اور پچھاڑی دونوں سے بچ کر چلتے ہیں ، کیونکہ اس کے سینگ اور دولتیاں دونوں انتہائی حد تک خطر ناک ہیں ، ان کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں ہے اور نہ ہی ان کے زہر کا کوئی تریاق ہے ۔ البتہ سیاستدان ایک دوسرے کو زخمی حالت میں تڑپتا ہوا دیکھ کر لطف ضرور اٹھاتے ہیں ، لیکن غالب کی اس نصیحت کو انہوں نے پلے باندھ رکھا ہے اور پل بھر کے لیے بھی نہیں بھولتے ؎
خواہ وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کوہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں ؟
لیکن حال ہی میں پیمرا نے ٹیلی وژن چینلز کے نام ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے ، جس کا متن درجِ ذیل ہے :
پیمرا نے ''سینٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات اور قومی ورثہ ‘‘کے جاری ہدایت نامہ 3جولائی2015ء کے پیشِ نظر تمام پرائیویٹ چینلز کو ہدایت نامہ جاری کی ہے، جس میں غیر اخلاقی پروگراموں، گانوں اور مقررہ حد سے زائد اشتہارات و غیر ملکی مواد کو روکنے کے لیے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔ پیمرانے متعدد عوامی شکایات کے پیش نظر تمام ٹی وی چینلز کی طرف سے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں نیلام گھر طرز کے پروگرام نشر کرنے اور مقدس مہینے کے تقدس کو پامال کرنے کا بھی سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے تمام پروگراموں کو مستقبل میں نشر نہ کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ اتھارٹی کے جاری کردہ ہدایت نامہ کے مطابق مندرجہ ذیل طرز کے پروگرام نشر کرنے کی سختی سے ممانعت ہوگی :
(1) 10فی صد سے زائد غیر ملکی پروگراموں کا نشر کرنا (2)12 منٹ فی گھنٹے سے زائد اشتہارات (3) ماہ رمضان میں نیلام گھر طرز کے پروگرام (4) نیوز بلیٹن میں تفریح کی آڑ میں غیر اخلاقی غیر ملکی گانوں کے کلپس (5) پروگراموں یا اشتہارات میں غیر اخلاقی مواد (6) جرائم کے پروگراموں کی منظر کشی جو کہ جرم کی تشہیر کا باعث ہو ں ،وغیرہ ۔
علاوہ ازیں اتھارٹی نے تمام ٹی وی چینلز کو ہدایت کی ہے کہ وہ روزانہ اپنی نشریات کا آغاز قومی ترانہ سے کریں جیساکہ ہمارے پڑوسی ممالک میں بھی روایت ہے تاکہ عوام میں قومی جذبے کو اجاگر کیا جا سکے ،بالخصوص بچوں سے متعلق صحت مندانہ پروگرام اور کارٹون وغیرہ نشر کرنے کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ پیمرا کے مطابق پاکستان ٹی وی چینلز میں بچوں کے پروگراموں کی طرف انتہائی کم توجہ ہے اور پاکستانی بچے صرف دو غیر ملکی چینلز پر انحصار کیے ہوئے ہیں، جس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے، (فخرالدین مغل ہیڈ میڈیا و تعلقاتِ عامّہ )‘‘۔
اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید پیمرا خواب خرگوش سے جاگ اٹھا ہے اور اب اس کی آنکھیں دیدہ و بینا اور کان سماعت سے آشنا ہو گئے ہیں اور دل و دماغ کے بند دریچے کھل گئے ہیں ، اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔ اس کے تتابُع (Follow up) چیئرمین پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن میر ابراہیم کی قیادت میں 5 اگست کو پیمرا کے ارباب اختیار کی ایک میٹنگ بھی منعقد ہو چکی ہے اور انہوں نے کچھ عہد و پیماں بھی کیے ہیں ۔
ٹیلی وژن چینلز نے گزشتہ ماہِ رمضان المبارک میں مختلف سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ رمضان کا ٹائٹل لگا کر اس ماہِ مقدس کی جو بے حرمتی کی ہے، اس پر جناب نہال ہاشمی کی سربراہی میں ''سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات ‘‘کا مرکزی ایجنڈا یہی تھا ، لیکن پیمرا کے ذمے داران پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسو سی ایشن کے ساتھ اپنے اجلاس میں اس کو زیرِ بحث ہی نہیں لائے اور کمالِ مہارت سے اصل موضوع کو نہ صر ف پسِ پشت ڈالا بلکہ ایک طرح سے ٹیلی وژن چینلز کا اس حوالے سے بپتسمہ کر کے انہیں پاک و صاف کر دیا، حالانکہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کا اصل مقصد اس حوالے سے ٹیلی وژن چینلزکا مؤاخذہ اور احتساب تھا، جب کہ پیمرا نے محض ہدایت نامہ جاری کرنے پر اکتفا کی ۔ کسی زمانے میں جناب ماہر القادری نے ''قرآن کی فریاد ‘ ‘ کے عنوان سے مندرجہ ذیل نظم لکھی تھی:
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جُزدان حریرو ریشم کے، اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے ، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے ، تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت ہوتی ہے ، ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں ، کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
مجھ سے محبت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ، یوں بھی میں ستایا جاتا ہوں
سو آج ماہِ نزول ِ قرآن اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ فریادی ہے کہ اس کے ساتھ وفا کی آڑ میں جو جفا کی جا رہی ہے ، کوئی صاحبِ اختیارو اقتدار آئے اور ان جفا کاریوں سے نجات دے ۔ تاویلات کا انبا ر، طرح طرح کے حیلے اور جواز سب تراش لیتے ہیں ، لیکن رمضان مبارک کی فریاد کوسننے والا کوئی نہیں ہے ۔''سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات ‘‘ کے تمام معزز ارکان اور اس کے چیئر مین جناب نہال ہاشمی سے گزارش ہے کہ ایک نیک کام کا بیڑا اٹھایا ہے تو از راہ کرم اسے کنارے لگا کر ہی دم لیں ، کشتی کو بیچ منجھدھار کے چھوڑدینا قرین انصاف نہیں ہے ۔ اس ماہِ رمضان میں بہت سے محترم کالم نگاروں اور اہلِ قلم نے بھی اپنے اپنے انداز میں اخبارات کے صفحات پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور رمضان کی فریاد کو اپنی نگارشات قلم کی تائید سے مؤیّدکیا ہے اور سنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، لیکن خواب ہنوز شرمندہ تعبیر ہے اور نہ جانے کب یہ اپنی تعبیر پائے گا ۔
ویسے تو ٹیلی وژن چینلز کے مالکان بھی ماشاء اللہ پاکستانی ہیں اور مسلمان ہیں ، ان کے کاروباری مفادات سے بھی ہمیں کوئی عناد نہیں ہے ، اللہ کرے ان کا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ لیکن میں پہلے بھی نہایت ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں اپنی معروضات پیش کر چکا ہوں کہ لِلّٰہ ُٓآپ خود ہی اس وطن ِ عزیز میں رہنے والے اہلِ اسلام اور دیگر پاکستانیوں کے لیے کوئی کم از کم اخلاقی اقدار کا معیار اور دینی شعائر کا ضابطۂ اخلاق وضع فرما دیں اور کسی انتظامی اور قانونی جبر یا دباؤ کے بغیر اس پر عمل کریں ۔یہ پاکستان اور اہلِ پاکستان پر آپ کا بڑا احسان ہو گا اور اس طرح آپ اپنے دینی اور ملی فریضے سے بھی عہدہ براں ہو سکیں گے ۔ آخر پاکستان اور ہندوستان کے الیکٹرانک میڈیا میں کوئی تو فرق دنیا کے سامنے نمایاں طور پر آنا چاہیے ۔ باقی حبّ الوطنی، آزادی ِافکار، آزادی ِ اظہار اور حقوق ِ انسانی کا درس تو آپ دیتے ہی رہتے ہیں اور ہم اس سے مستفید ہو تے رہتے ہیں ، ایک کڑوا گھونٹ یہ بھی اپنے حلق سے اُتار دیجیے ، آ پ کا کرم ہو گا ۔ سینٹ کی کمیٹی کے ہدایت نامے میں ''جرائم کے پروگراموں کی منظر کشی جوکہ جرم کی تشہیر کا باعث ہو ‘‘کی دفعہ بھی موجود ہے اور یہ از حد قابلِ توجہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیلی وژن چینلز کے پالیسی ساز ادارے میں اگرماہرینِ آئین و قانون، مذہبی شعبے سے وابستگان اور ماہرینِ نفسیات کو بھی شامل کر دیا جائے اور ان کی سفارشات کو پروگراموں کی تشکیل میں اہمیت دی جائے، تو شاید کافی بہتری آجائے ۔