تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-08-2015

کیا ایسا ہو گا؟۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟

وزیراعلیٰ شہبا زشریف نے غیر معمولی حالات میں یہ کیسا معمول کا حکم نامہ جاری کر دیا؟ جوڈیشل کمیشنوں کی پاکستان میں وقعت کیا ہے؟ جج حضرات اپنی دیانت اور پیشہ ورانہ مہارت کو خلوص نیت سے استعمال کر کے‘ اپنی رپورٹ تیار کرتے ہیں اور اسے طاق نسیاں میں رکھ دیا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام ایسے کمیشن اور ان کی رپورٹوں کا انجام اچھی طرح جانتے ہیں۔ نئی نسل بھی حمودالرحمن کمیشن سے لے کر‘ ماڈل ٹائون کمیشن تک‘ گرد سے بھری رپورٹوں کے انجام دیکھ چکی ہے۔ معاملات وہ بھی معمولی نہیں تھے۔ ایک طرف دنیائے اسلام کے سب سے بڑے ملک‘ پاکستان کے ٹوٹنے کا معاملہ تھا اور دوسری طرف 14 انسانی جانیں اور 100 کے قریب افراد پر براہ راست چلائی گئی گولیوں کی بے رحمانہ حرکت ۔ ہر کمیشن نے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا کر رپورٹیں تیار کیں اور وہ بند کی بند‘ ہمارے سر پر مار کے‘ فراموش کدے میں پھینک دی گئیں‘ لیکن یہ معاملہ زیادہ سنگین ہے۔ پاکستان کا ٹوٹنا انسانیت کا قتل نہیں‘ ایک قوم کی غلطیوں کا خمیازہ تھا اور ماڈل ٹائون کا سانحہ انتظامی نا اہلی اور درندگی کا واقعہ‘ لیکن قصور کا سانحہ‘ اپنے اندر بے شما رسانحوں کے صدمات سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ انسانیت کا قتل بھی ہے۔ قانون کی ہلاکت بھی۔انصاف فراہم کرنے والی مشینری کی بے رحمانہ توڑ پھوڑ بھی۔ مائوں کے دلوں میں‘ برسوں تک ہر لمحہ زخم لگانے کی بہیمانہ اور ناقابل معافی حرکت بھی۔ معصوم بچوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کا جرم بھی۔ ساری دنیا کی رائے عامہ کی نظر میں‘ پاکستان کے امیج کو مسخ کرنے کی کوشش بھی۔ کتنے ظلم گنوائوں‘ جو قصور میں کئے گئے اور ہمارے برق رفتار وزیراعلیٰ‘ نے مادرِ سانحات کو یوں دیکھا‘ جیسے اندھوں پر پولیس کی برسائی ہوئی لاٹھیوں کے واقعے کی فائل کو دیکھا ہو گا۔ہمارے حکمران آئین کے پابند ہیں لیکن اسے پامال کرتے ہوئے بھی ذرا نہیں جھجکتے۔ عدلیہ کا احترام ان پر واجب ہے لیکن عدلیہ کے احکامات کو روندنے کی ضرورت پڑے‘ تو وہ ایسا بھی کر گزرتے ہیں۔ جمہوری حکمرانوں کو عوام کا خوف ہوتا ہے لیکن وہ اس کے برعکس عوام ہی کو خوف زدہ رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ چل جاتا ہے لیکن قصور کا کیس‘ اللہ تعالیٰ کے خوف کا امتحان ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں‘ جن کے دلوں میں خوفِ خدا کا گزر نہیں ہوتا مگر جنہیں خلقِ خدا پر حکمرانی کا موقع ملتا ہے‘ ان پر اللہ تعالیٰ کی چشم نگراں کسی بھی وقت نہیں جھپکتی اور شہباز شریف کا جس خاندان سے تعلق ہے‘ وہاں خوفِ خدا بہر حال پایا جاتا ہے۔ یہ شہباز شریف کے خوفِ خدا کا امتحان ہے۔ ان کے تمام خیر خواہوں کی دعا ہو گی کہ وہ اس میں پورا اتریں۔جو مظالم وہاں ڈھائے گئے ہیں‘ وہ ناقابلِ معافی ہیں۔ شہباز صاحب خود بھی ایک باپ ہیں۔ وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس ماں کے بیٹے کی زندگی بھر کی غیرت کو کچل کے‘ اس کی شخصیت تباہ و برباد کر دی گئی ہے۔وہ باپ جس کے بیٹے سے‘ اس کا شرف انسانی چھین کر‘ اسے زندگی بھر کی ذلت کے احساس میں ڈوب کر جینے کے جہنم میں دھکیل دیا جائے، جس کے بھائیوں کو‘ ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہونے کی سزا دے دی گئی ہو، جس کے پورے خاندان کو ساری بستی میں رسوا کر کے رکھ دیا گیا ہو، جسے انصاف کے ہردروازے پر دستک دینے کے جرم میں ٹھوکریں ملی ہوں، جس کے والدین کو پہلے جرم کرنے والوں نے لوٹا ہو اور وہ انصاف مانگنے جائیں تو پولیس نے ان کی جمع پونجی چھین لی ہو، جہاں خدا جانے کتنے افراد ایسے ہوں گے‘ جن کو ایک مظلوم کی طرح‘ اچھی بھلی دکانداری تباہ کر کے‘ روز کی مزدوری پر لگنا پڑا ہو، یہ دس برس کا عذابِ عظیم جس بستی پر اترا ہے‘ اس بستی کو انصاف دینے کے ذمہ دار شہباز شریف ہیں۔
جتنا بڑا ظلم قصور میں ہوا‘ وہ پاکستان پر ہونے والے ہر ظلم کے مقابلے میں‘ سب سے زیادہ تباہ کن ہے۔ پاکستان کو بہت سی بدنامیاں نصیب ہوئیں۔ جنگ میں شکست کی بدنامی سے لے کر‘ دہشت گردی کی سرپرستی کی رسوائی تک ہر صدمہ ہمیں سہنا پڑا۔ ڈرگ سمگلنگ میں ہمارا نام بدنام ہے۔انسانوں کی سمگلنگ میں ہماری شہرت ہے۔ سعودی عرب میں کاٹے گئے سر‘ سب سے زیادہ ہم پاکستانیوں کے ہوتے ہیں مگر ان سارے جرائم کے ذمہ دار وہ افراد ہیں جو اپنی ریاست کے بھی مجرم ہیں۔ جس بستی میں یہ ظلم ہوا‘ اسے انصا ف دینے کے ذمہ دار شہباز شریف ہیں۔ ہمارے وزیراعلیٰ کو یقیناً علم ہو گا کہ پورنو گرافی کا غلیظ اور مکروہ بزنس‘ آج کی دنیا میں سب سے بڑی خفیہ تجارت ہے، جس میں اندھا دھند دولت کمائی جاتی ہے۔جو لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں‘ انہیں دولت کی کمی نہیں ۔ ان کی بنائی گئی ویڈیوز کا خریدار‘ کوئی مافیا بن جائے تو مال فراہم کرنے کے ذمہ دار کروڑوں ڈالروں میں کھیلتے ہیں۔ مجھے قصور کا گروپ ابھی تک‘ کسی انٹرنیشنل مافیا سے منسلک نظر نہیں آتا، اسی لئے اس کی آمدنی بھی واجبی سی معلوم ہوتی ہے مگر اتنی کم بھی نہیں کہ پورا تھانہ خریدا نہ جا سکے۔ یہ انہوں نے دس سال تک خریدے رکھا۔ ا ن کے گناہوں کی جو کہانیاں گائوں کے بچے بچے اور ہرفردکی زبان پر رہیں‘ وہ دس سال کے طویل عرصے میں میڈیا تک نہیں پہنچ پائیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہاں کے اخباری نمائندوں میں سے‘ بہت سوں کو ان کہانیوں کا علم تھا۔ انہیں کس طرح اتنے عرصے تک خاموش رکھا گیا؟ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ جب کسی بڑے جرم کا راز‘ صحافی تک پہنچ جاتا ہے تو پھراس کے محفوظ رہنے کے طریقے کئی ہوتے ہیں۔ یہ راز اگر کسی کو معلوم ہوا اور اس نے اپنے اخبار یا چینل کو نہیں بھیجا ‘تودال میں کہیں نہ کہیں کالا ضرور ہے مگر مجھے اپنے پیشے سے مخلص رپورٹروں کے بارے میں علم ہے کہ انہوں نے جب بھی سنی سنائی کہانیوں کی کھوج لگانے کی کوشش کی تو ان پر معلومات کے تمام دروازے بند کر دئیے گئے۔ ایسا کرنے میں پولیس‘ علاقے کے چوہدری اور سیاست دان سب نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہو گا۔ کسی نے غفلت سے‘ کسی نے دانستہ۔آخر کار چند سر پھرے رپورٹروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اتنے بڑے علاقائی مافیا کو للکارا‘ جو اتفاق سے انٹرنیشنل مافیا سے منسلک نہیں ہے۔ایسا ہو جاتا تو پھر جو چند لوگ نہیں خریدے جا سکے‘ انہیں بھی خرید نے کی کوشش کی جاتی۔ بھارت میں انٹرنیشنل مافیا موجود ہے مگر وہ قصور کے انسانیت فروشوں سے رابطے میں نہیں آیا۔ایک دو ادنیٰ سے سمگلروں نے یہ ویڈیو بھارت ضرور سمگل کی اور بابر اعوان کی اطلاع کے مطابق ‘وہ سرحد کے دوسری طرف پچاس پچاس روپے میں بکتی رہی۔
اب اس کہانی کا اگلا باب شرو ع ہونے والا ہے۔ یہ خبر بی بی سی پر آچکی ہے۔ عالمی میڈیا کے کچھ دیگر حصوں میں بھی آچکی ہو گی۔اب کوئی نہ کوئی انٹرنیشنل مافیا بھی یہ ویڈیوز حاصل کر کے‘ انٹرنیٹ پر لوڈ کر کے دولت کمائے گا۔ عالمی میڈیا کے نمائندے پاکستان پہنچ چکے ہوں گے۔ وہ قصور کا دورہ بھی یقیناً کریں گے۔ متاثرین سے بھی ملیں گے اور ان کی رپورٹیں بیرونی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پڑھی اور دیکھی جائیں گی۔اگر مجرموں کو ا ن کے سرپرستوں سمیت عبرت ناک سزائیں دے کر‘ ہم نے عالمی میڈیا میں ان کا چرچا نہ کیا تو پھر اس جرم میں ہم سب کو شریک سمجھا جائے گا اورہر پاکستانی کی طرف ‘دنیا تمسخر انگیز نگاہوں سے دیکھے گی۔ ایسی نگاہوں سے سارے پاکستانی‘ ساری دنیا میں‘ صرف ایک طریقے سے بچ سکتے ہیں کہ اس جرم میں حصے دار وںاور مجرموں کو تحفظ دینے والے تمام افراد کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ یہ کام وزیراعلیٰ اور عدالت عالیہ دونوں کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے کسی رعایت کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ قصور سکینڈل کے مجرموں کو سخت سزا دی جائے۔مجھے اس کے بعد مجرموں کے لئے کسی رعایت کی گنجائش دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کے باوجود اگر وہ بچ نکلتے ہیں تو یہ ہماری قومی بدقسمتی کا سب سے بڑا واقعہ ہو گا۔مظلوم بچوں اور ان کے والدین کو نفسیاتی شفا دینے کے لئے‘ پاکستان کے تمام فلاحی اداروں اور دنیا بھر کی انسان دوست تنظیموں سے مدد لینی چاہئے۔ تمام کے تمام متاثرین‘ کسی نہ کسی انداز میں دکھ ‘ صدمے اور ندامت سے طرح طرح کی الجھنوں میں مبتلا ہو گئے ہوں گے۔ ان کے لئے ہمیں ہر کسی سے مدد لینا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو حکومت کو بھی اپنا فرض ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سانحہ معمولی نہیں۔ مجرموں کو تحفظ دینے والے پولیس ملازمین کو بھی نشانِ عبرت بنانا چاہئے۔ مقصد صرف انہی کو سزا دینا نہیں ہو گا بلکہ پاکستان کی ساری پولیس کو پیغام بھی دینا ہو گا کہ وہ جتنے گناہ کرتے ہیں‘ ان سب سے جہاں تک ممکن ہو بچنے کی کوشش کریں مگر اس گناہ کی طرف گئے تو پھر وہ قصور پولیس کے انجام کو ضرور یاد کر لیں۔کیا ایسا ہو گا؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved