کراچی پر جو کچھ پندرہ بیس برس میں گزری ہے وہ کچھ اس نوعیت کی ہے کہ یاد بھی کیجیے تو دل دکھتا ہے، آنکھ بھر آتی ہے۔ جو حال پورے ملک کا تھا وہی کراچی کا بھی تھا۔ جس طور ملک کو لاوارث سمجھ لیا گیا تھا بالکل اُسی طرح کراچی کو بھی بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ ملک بھر میں دہشت گردی کا بازار گرم تھا۔ ایسے میں کراچی میں بھی اگر قتل و غارت کا رواج سا چل پڑا تھا تو اس میں حیرت کی کیا بات تھی؟
کراچی ہو یا کوئی اور شہر۔ یا کوئی دیہی علاقہ، ہر اعتبار سے محفوظ ترین ماحول عوام کا حق ہے تاکہ وہ پرسکون زندگی بسر کریں، بہتر ڈھنگ سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور قومی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ کہیں دھماکے، کہیں فائرنگ۔ اور کہیں اغوا برائے تاوان کے واقعات۔ لوٹ مار کا کلچر اُس پر مستزاد۔ ایسے میں عوام کا مایوسی کے گڑھے میں گرنا افسوسناک ضرور تھا، حیرت انگیز نہ تھا۔ چونکانے والی بات وہ ہوتی ہے جو اچانک ہو۔ جب بہت سے عجیب اور افسوسناک واقعات تواتر سے ہو رہے ہوں تو حیرت کا عنصر ختم ہو جاتا ہے اور صرف تاسّف باقی رہتا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں یہی تو ہوا تھا۔ جن واقعات کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا وہ ایسے تواتر سے ہو رہے تھے کہ دل گرفتہ ہوکر اللہ سے کرم کی بھیک مانگنے کے سِوا چارہ نہ رہا۔
کراچی کا حال تو یہ ہوگیا تھا کہ لوگ اپنے ہی گھر کے دروازے پر لُوٹے جارہے تھے۔ ایسے کئی واقعات ہوئے کہ کوئی رات کو اپنی گلی میں پہنچا اور اپنے گھر کی ڈور بیل دباکر دروازہ کھلنے کا انتظار ہی کر رہا تھا کہ موٹر سائیکل پر نوجوان آئے اور اسلحے کے زور پر لُوٹ لیا! کسی بھی معاشرے میں عوام کا اعتماد مجروح، بلکہ شکستہ کرنے کا اِس سے اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ جب کوئی اپنے گھر کے دروازے پر لُٹ جائے تو جینے کی حقیقی امنگ کہاں سے لائے گا؟
قتل و غارت اور لوٹ مار سے کراچی کو ویسے تو اور بھی اچھا خاصا نقصان پہنچا مگر سب سے بڑا نقصان وہ تھا جس کا خبروں میں ذکر ہے نہ تجزیوں میں۔ کراچی کے شہری اپنی ہی گلیوں میں اجنبی سے ہوکر رہ گئے تھے۔ جن علاقوں میں زندگی بسر ہوئی ہے وہی علاقے اچانک علاقہ غیر کا سا ماحول پیش کرنے لگتے تھے۔ صبح کام پر روانہ ہونے سے شام کو واپسی تک اہل خانہ کے دل دھڑکتے رہتے تھے کہ کوئی ایسی ویسی خبر نہ آجائے۔ جب بندہ شام کو خیریت سے گھر واپس آ جاتا تھا تب گھر والے سکون کا سانس لیتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔
مقامِ شکر ہے کہ اب کراچی کے وہ حالات نہیں۔ شہر کی رونقیں بحال ہوتی جارہی ہیں۔ لوگ اب رات کے تین بجے بھی بیوی بچوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ منظر اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کا اعتماد بحال ہوچکا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اعتماد بحال ہوا ہے یا کیا گیا ہے۔
اہل کراچی بھی ملک کے دیگر حصوں کے باشندوں کی طرح حالات سے تنگ آچکے تھے۔ بہت کچھ تھا تو بگڑتا ہی جارہا تھا اور اصلاحِ احوال کی کوئی صورت دکھائی ہی نہ دیتی تھی۔ ایسے میں اگر لوگ مایوس تھے تو غلط کیا تھا؟ جب معاملات بگڑتے ہی جارہے ہوں اور جن سے معاملات درست کرنے کی توقع وابستہ ہوں وہی آنکھیں بند کرلیں تو لوگ کیا کریں؟ کہاں فریاد کریں، کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ اہل کراچی بھی سوچ سوچ کر تھک چکے تھے مگر حالات کو بہتر بنانے کی کوئی صورت سمجھ میں نہ آتی تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ لوگوں کا سوچنا کسی کام کا نہ تھا۔ حالات عوام نے کب بگاڑے تھے؟ وہ تو بگاڑے گئے تھے اور وہ بھی منصوبہ بندی کے ذریعے۔ اور منصوبوں کا سامنا منصوبوں ہی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں عوام کی مایوسی اُسی وقت دور ہوئی اور ان کا اعتماد اسی وقت بحال ہوا جب ملک کے سیاہ و سفید کے مالک متحرک ہوئے اور کچھ کر دکھانے کی ٹھانی۔ ایک عام آدمی کے لیے بہتر زندگی بسر کرنے کے معاملے میں سب سے بڑا سہارا یہ ہوتا ہے کہ جن کے ہاتھ میں معاشرے اور ملک کی باگ ڈور ہے وہ معاملات کو درست کرنے پر مائل ہوں اور اس معاملے میں کوئی بھی پہلو نظر انداز نہ کریں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو سب کچھ درست ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور پاکستان کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔
مقتدر حلقوں نے جب یہ دیکھا کہ ملک بگڑتے بگڑتے افریقا کے تباہ حال ممالک کا سا ہوا جارہا ہے تو شرم و غیرت کے دریا میں کچھ طغیانی پیدا ہوئی۔ اور اس طغیانی کی مہربانی سے ایسے بہت سے معاملات غرقاب ہوئے جن کے باعث ایک عام پاکستانی زندہ در گور تھا۔
چوری چکاری ہر معاشرے میں ہوتی ہے۔ لوگ موقع پر پاکر کسی کو لوٹ بھی لیتے ہیں اور کبھی کبھی ''سپاری‘‘ لے کر کسی کو قتل بھی کردیتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ معاشرے کے عمومی چلن کا درجہ نہیں رکھتا۔ پاکستان اور خاص طور پر کراچی کی بدنصیبی یہ تھی کہ لُوٹ مار اور قتل و غارت کو معاشرے کی عمومی روش کا سا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ لوگ اپنے ہی علاقوں اور گلیوں میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے تھے۔ ذرا سے سنّاٹے والے علاقے سے گزرتے ہوئے لوگوں کے دل تیزی سے دھڑکا کرتے تھے۔ اور جب تک کسی بارونق علاقے میں داخل نہ ہوجاتے تب تک لوگ خوفزدہ اور بے چین رہا کرتے تھے۔
عام آدمی کے لیے سب سے زیادہ اطمینان بخش بات یہ ہوتی ہے کہ ریاستی مشینری پُشت پر کھڑی ہو، دلاسا دے رہی ہو کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ وردی کا یہی اثر ہوتا ہے۔ کراچی میں پولیس پر سے بھی عوام کا اعتماد اُٹھ چکا تھا۔ مگر خیر، بہت بُرے دنوں میں بھی لوگ پولیس کو دیکھ کر کسی حد تک تو مطمئن ہوجایا کرتے تھے۔ پولیس کا عام سپاہی بھی اور کچھ نہ سہی، ریاستی مشینری کا ایک پُرزہ اور ریاستی عملداری کا نمائندہ تو ہے۔ ہم نے بارہا یہ دیکھا کہ کسی خطرناک علاقے میں پولیس کی ایک وین کا معمولی سا گشت لوگوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ روزنامہ دنیا کراچی کا دفتر ایسے علاقے میں ہے جو رات آٹھ نو بجے سے سنّاٹے کی زد میں آجاتا ہے۔ ہم کاپی نمٹاکر رات کے ڈھائی تین بجے گھروں کو روانہ ہوتے ہیں۔ ملیری ندی میں کاز وے موجود ہے جس کے سِرے پر پولیس کے چند سپاہیوں کی تعیناتی ہم سمیت ہر گزرنے والے کو اطمینان دلاتی ہے کہ بے خوف ہوکر سکون سے گزریے، ریاست کھڑی ہے! جو لوگ اس راستے سے رات دس بجے کے بعد گزرنا انتہائی خطرناک سمجھتے تھے وہ اب بیوی بچوں کے ساتھ رات ڈھائی بجے بھی گزرتے دیکھے گئے ہیں! جب ریاست کھڑی ہو تو ہر خوف بیٹھ جاتا ہے!
کراچی سمیت ملک بھر میں امن بحال ہوا ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حالات خراب کرنے والوں کو اندازہ ہے کہ اُن کی دال نہیں گلے گی کیونکہ ریاست کھڑی ہے اور ہر معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ آج اہل کراچی اگر پہلے سے زیادہ پرامید ہوکر جی رہے ہیں، زندگی کو گلے لگائے ہوئے ہیں اور ان میں بھرپور اعتماد بحال ہونے لگا ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ریاستی مشینری کو اپنے حصے کا کام یاد آگیا ہے۔ جب ریاستی مشینری اپنا کام کر رہی ہے تو لوگ بھی اس سے تعاون کر رہے ہیں اور اس پر بھروسہ کرنے میں تامّل سے کام نہیں لے رہے۔ سیدھی سی بات ہے، تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔
پاکستان کو دوسرے بہت سے وسائل کی بھی ضرورت ہے مگر اِس کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ریاستی مشینری متحرک رہے۔ عوام کو جب بھی خراب حالات کا سامنا ہو تو اُنہیں یقین ہونا چاہیے کہ رہنمائی اور تعاون کے لیے ریاست مستعد کھڑی ملے گی۔ اللہ کے حضور دعا ہے کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے۔ عوام اور ریاست جو جس ڈور سے دوبارہ ملایا ہے وہ ڈور نہ ٹوٹے۔