تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-08-2015

آم مودی کا زہر کم نہ کر سکے

نریندر مودی اور بھارتی میڈیا کی جانب سے دیا جانے والا یہ تاثر قطعاً درست نہیں کہ2002ء میںگجرات کے قتل عام کے بعد سے وہاں مسلمانوں اوردوسری اقلیتوں کے خلاف ہندوانتہا پسندوں نے مذہبی دہشت گردی نہیں کی۔ بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے پھیلایا گیا یہ تاثر من گھڑت اور غلط ہے۔ ریکارڈ گواہی دے رہا ہے کہ بڑودہ (گجرات) کے شرمناک مسلم کش فسادات کے بعد بھی نریندر مودی نے اپنی دس سالہ وزارت اعلیٰ میں ایک نہیں بلکہ بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے مسلمانوں کے خلاف تقریباً بیس پر تشدد واقعات کو سپورٹ کیا۔ 2002ء میں امریکہ نے تین ہزار سے زیادہ مسلمان بچوں اور عورتوں کے قتل عام اور اجتماعی آبرو ریزی پر شدید ناپسندیدگی ظاہرکرتے ہوئے نریند رمودی کو اپنے ملک کا ویزہ حاصل کرنے کے استحقاق سے محروم کر دیا تھا۔ لیکن امریکہ کے اس انتہائی اقدام سے بھی مودی کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔اس نے غصے اورانتقام میں گجرات کے مسلمانوں کی زندگیاں جہنم بنائے رکھیں۔
اس وقت کی مرکزی حکومت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق250 مساجد اور مزار زمین بوس اور ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلمان بے گھر کر دیے گئے، 250 مسلمان بچیوں اور عورتوں سے گینگ ریپ کیا گیا۔ نریندر مودی کی زیر نگرانی آر ایس ایس اور بجرنگ دل جس کا لیڈرگجرات سے منتخب ہونے والا ایم ایل اے بھاٹیہ تھا، کے انتہا پسند اس حد تک بے خوف ہو چکے تھے کہ کوئی ان کے خلاف آوازاٹھانے کی جرأت نہیںکر سکتا تھا۔ گجرات کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بے بس نظر آنے لگیں ، جس پر ممبئی اور دوسری بھارتی ریاستوں کی کچھ لبرل تنظیموں نے مسلمانوں کی مدد کر نے کی کوشش کی لیکن ان کا بھی جینا دوبھرکر دیا گیا۔ ان کے گھروں کے باہر انتہا پسند راشٹریہ سیوک سنگھ کے غنڈوں نے مظاہرے شروع کر دیے کہ یہ لوگ مسلمانوں کا ساتھ دے کر ہندو دھرم کی بد نامی کا باعث بن رہے ہیں۔ان کا جرم اس حد تک ناقابل معافی ہو گیا کہ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کے ارکان کے خلاف سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) حرکت میں آگئی اوراس کے ایجنٹ ممبئی میں مقیم اس کی لیڈر teesta Setalved اور ان کے شوہر جاوید آنندکی رہائش گاہ پرطوفان بن کر چڑھ دوڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے گھر کی ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی۔ ان میاں بیوی کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنی سب رنگ کمیونیکیشن، سب رنگ ٹرسٹ اور سٹیزن آف جسٹس اینڈ پیس کے ذریعے گجرات میں نریندر مودی کی 'مارشل لائی‘ وزارت اعلیٰ کے دوران راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے ہاتھوں تین ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے منظم قتل عام کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھنے اور اس کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے کئی طرح کی رکاوٹوں اور مخالفتوںکے باوجود عدالتی جنگ لڑ نے میں مصروف ہیں۔ان کے اس 'جرم‘ اور بھارت ماتا کے خلاف کی جانے والی گستاخی کی پاداش میں ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف گجرات اور ممبئی کے مختلف تھانوں میں مقدمات درج کرانے کا سلسلہ جو نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے زمانے سے شروع ہوا تھا،اب تک جاری ہے۔نریندر مودی حکومت کے لئے سب رنگ کمیونیکشن اور پیس اینڈ جسٹس کی سرگرمیاں شاید اس لئے ناقابل برداشت ہوگئیںکہ لالچ اور دھمکیوں کے باوجود جاوید آنند اور ان کی بیگم کی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ بھارت کی طاقتور سی بی آئی اس لئے پریشان تھی کہ ایک طرف بڑودہ کے قتل عام کے بارے میں13جولائی کوگجرات ہائی کورٹ میں بابو بجرنگی اور مایاکدنانی کی اپیلوں کی سما عت تھی اور27 جولائی کو اسی عدالت میں مشہور بیکری قتل عام ، جس میں 89 افراد کو زندہ جلا دیا گیا تھا کی مدعیہ ذکیہ جعفری کی اپیل کی آخری سماعت شروع ہونے والی تھی۔اس قتل عام کی عدالتی کارروائی کے لئے سپورٹ سٹیزن آف
جسٹس اینڈ پیس کے یہی لوگ کر رہے ہیں اور میڈیا کا ایک مختصر سا گروپ بھی ان کا ساتھ دے رہا ہے۔نریندر مودی 2014ء میں جب سے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے تبھی سے ان کی نام نہاد جمہوریت نے بھارت میں اقلیتوںکا جینا دوبھرکر رکھا ہے۔ایک طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اقلیتوں کے بارے میں بڑے فخر سے توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب انتہا پسند ہندو تنظیمیں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر حملوںکا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ مہاراشٹر میںکمیونسٹ پارٹی کے سینئر لیڈرگووند پنسرے اور نریندر دبھولکر کا اس سال فروری میں کیا جانے والا اندوہناک قتل سب کے سامنے ہے جن کے قاتلوںکو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا ۔
گجرات حکومت اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا عالمی فورم پر یہ کہنا کسی طور بھی درست نہیںکہ ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران سوائے گودھرا ٹرین واقعہ پر رد عمل کے سوا گجرات میں مسلمانوں کے خلاف کہیں کوئی بڑی کارروائی نہیں کی گئی۔اگر نریندر مودی کو آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی عادت ہے توگجرات میں 2002 ء کے قتل عام کے بعد 2003ء سے2013ء تک کے دس برسوں میں ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران کم از کم 20 مزید خونی کارروائیاں کی گئیں۔ سب جانتے ہیںکہ نریندر مودی نے اپنی زندگی کا جنم ہی راشٹریہ سیوک سنگھ کی مسلم دشمنی سے لیا۔ مودی کے جسم میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے بھیجے گئے میٹھے آم بھی اس زہر کی تلخی کم کرنے میں ناکام رہے۔
نریندر مودی نے اپنے نامزد کردہ جانشین ،گجرات کے نئے وزیر اعلیٰ آنند پٹیل کو بھی مسلمانوں سے نفرت کی گھٹی دی ہے۔ رمضان المبارک میں نماز عشا اور تراویح کے دوران مسلمان عبادت گزاروں کے خلاف جس طرح منظم بد معاشی کی گئی اس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ نہ جانے کیا وجہ ہوئی کہ بھارت کے میڈیا نے اس ظلم کی خبروں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے دبا دیا۔ لیکن سفارتی اور انسانی حقوق کی کچھ تنظیموں کو اس کی خبر ہوئی توانہوں نے ثبوت جمع کئے اور انہیں عام کیا۔ظلم کے اندہناک مناظر دیکھ کر سب کے دل دہل گئے۔پولیس کمشنر ستیش شرما سے پوچھا گیا کہ پولیس کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں ہوا تو وہ یہ کہہ کر صاف مکر گئے کہ کوئی فائرنگ نہیں ہوئی، ہو سکتا ہے کسی نے کریکر پھینک دیئے ہوں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا کریکر سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوتے ہیں؟ جب انہیں بتایا گیا کہ یہ غنڈہ گردی اور فساد ''بچھو گینگ‘‘ کی جانب سے کیا گیا تو پولیس کمشنر اس کا نام سنتے ہی بے بسی کی تصویر بن گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved