تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-08-2015

اچھے طالبان کو پھر خوش آمدید

جب کابل میں، پچھلے ہفتے ملاعمر کے جانشین ملامنصور کے طالبان کے بدترین حملوں، جن میں پچاس عورتیں اور بچے مارے گئے، پر ماتم ہورہا ہے، پاکستان میں افغان طالبان اور ان کے لیڈر ملاعمر کی شان میں ہمارے کالم نگاروں اور دانشوروں کے درمیان قصیدہ گوئی کا مقابلہ جاری ہے۔ 
ملاعمر کے حق میں لکھے گئے قصیدوں کے درمیان، دل کو چیرنے والی ایک تصویر نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس دردناک تصویر میں ایک بوڑھا افغان باپ فرش پر اپنی جوان بیٹی کی سفید کفن میں لپٹی لاش کے قریب سر پکڑ کر بیٹھا رو رہا ہے۔ اس بوڑھے افغان کا چند دن کا ایک نواسہ ہے جو اپنی ماں کی نعش کے ساتھ زمین پر پڑا ہے۔ ماں پچھلے ہفتے کابل میں طالبان کے حملوں میں ماری گئی۔ ان حملوں میں کل پچاس افغان شہری مارے گئے، ڈھائی سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں چالیس افغان عورتیں اور تیس افغان بچے بھی شامل ہیں۔ صرف ایک نیٹو فوجی مرا۔ یہ ہے وہ قیمت جو ایک عام افغان شہری ادا کر رہا ہے اور جو پاکستانی کالم نگاروں اور دانشوروں کو نظر نہیں آتی‘ جن کے دل پتھر کے ہو چکے ہیں۔ ان کے نزدیک ملا عمر کی موت وہ خلا ہے جو پُر نہ ہوگا ۔ افغان بچوں اور عورتوں کا کیا ہے، مر بھی گئے تو کچھ اور پیدا ہو جائیں گے۔ ملاعمر تو ایک ہی تھا۔ وہ پریشان نہ ہوں، ملا منصور نے کام وہیں سے شروع کیا ہے جہاں ملا عمر چھوڑ گیا تھا۔ افغانوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ شاید اپنے آبائو اجداد کے گناہوں کا کفارہ ادا کر رہے ہیں جنہوں نے ہندوستان پر حملے کر کے ہزاروں بے گناہ مارے تھے۔ اب ان کی باری ہے۔ جو بھی کابل جاتا ہے، وہ لہو کی ندیاں بہانے جاتا ہے۔ روس سے لے کر حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور امریکیوں تک، سب نے لاکھوں افغان مارے۔ برسوں سے کابل ایک جہنم کا منظر پیش کرتا ہے۔ 
میں سمجھا تھا پشاور سکول میں ایک سو چالیس بچوں کی دردناک موت کے بعد ہم نے سبق سیکھا ہو گا کہ ہر قسم کے طالبان بُرے ہوتے ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور لکھاری ہمیںبتاتے رہے کہ جو افغانستان اور بھارت میں دہشت گردی کرتے ہیں وہ اچھے طالبان ہوتے ہیں اور جو پاکستان میں کرتے ہیں وہ بُرے طالبان۔ ہم اسی میں خوش رہے کہ چلیں ہمارے اچھے طالبان نے افغانستان میں بے گناہ لوگوں کو مارنے کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ ہمارے لیے بہتر ہے۔ جواباً بھارت اور افغانستان نے بھی پاکستان میں اپنے طالبان پال لیے کہ چلو پاکستانیوں کو مارو۔ پشاور سکول ٹریجڈی کے بعد پاکستانیوں کو طالبان سے نفرت ہونا شروع ہوئی تھی ۔ قوم کو پتہ چل گیا تھا کہ اچھے طالبان کوئی نہیں، وہ سب انسانی لہو بہاتے ہیں ۔ اس سے طالبان کے حمایتی مایوس ہوئے کہ پاکستانی قوم کو کیسے عقل آگئی؟ سب کی دکانیں بند ہونے لگی تھیں۔ اب اچانک ملا عمر کی موت نے انہیں ایک موقع دے دیا ہے۔ ملا عمر کی ایسی ایسی صفات بیان کی جارہی ہیں کہ وہ خود بھی پڑھتا تو حیران ہوتا۔ ان کا خیال ہے کہ پوست ختم کر دینے سے وہ بڑے حکمران بن گئے تھے۔کابل اور قندھار میں عورتوں پر سرعام تشدد کر کے عالم اسلام کے ہیرو بن گئے تھے۔ اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں پناہ دے کر انہوں نے اسلام کی خدمت کی تھی ۔ پٹھانوں اور افغانوں کی روایات کی پاسداری کی تھی۔ دس لاکھ افغان مارے گئے۔ افغانوں کے بچے آج پاکستان میں بھیک مانگتے ہیں ۔ افغان عورتوں کی دردناک کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ وہ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ بھیک مانگتے افغان بچے اور عورتیں ہمارے ان لکھاریوں کے نزدیک ملاعمر کی جرأت اور شجاعت کی علامت ہیں۔ 
اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ افغان طالبان تو پاکستان کے دوست تھے۔ میں بعض ایسے کالم نکال کر دکھا سکتا ہوں جن میں انہوں نے افغان طالبان کے پریس ریلیز شائع کیے کہ پاکستانی طالبان، جو پاکستان کے اندر قتل و غارت کر رہے ہیں، ان کو افغان طالبان کی پوری حمایت حاصل ہے۔ یہ کالم اب بھی اخبارات کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اگر افغان طالبان اچھے تھے اور ملاعمر پاکستان کا دوست تھا تو اس نے اپنے افغان طالبان کے ذمے یہ کام کیوں نہ لگایا کہ پہلے ان پاکستانی طالبان کو ٹھکانے لگائو جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے اندر دہشت گردی کر رہے ہیں؟ یہ طالبان نیٹو فورسز کے خلاف افغانستان میں لڑسکتے ہیں اور کابل میں معصوم بچوں اور عورتوں کو مار سکتے ہیں تو پھر وہ فضل اللہ کو کیوں نہیں مار سکتے تھے؟ 
غور کریں، کیسے کیسے ہم نے اپنی بربادی کا سامان کیا ۔ اپنے قاتلوں سے پیار کیا۔گلے سے لگایا ۔ ان کی شان میں کالم لکھے، ٹی وی شوز کیے۔ طالبان نے ہمارے ایک سو چالیس بچوں کوقتل کیا لیکن آج بھی ہمارے دل میں ان کے لیے محبت ہے، پیار ہے، عزت ہے۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ افغان طالبان کسان تھے اور غریب تھے۔ پھر وہ غریب ہمارے ہاتھ لگ گئے۔ ہم نے انہیں پالا پوسا۔ پاکستانیوں کے ٹیکسوں سے ان کو اربوں روپوں کا بجٹ دیا گیا ۔ ہمارے پیسوں سے اسلحہ خرید کر دیا گیا۔ علاج معالجہ کے لیے کوئٹہ اور پشاور میں بندوبست ہوئے۔ کوئٹہ شہر میں پاکستانی سیٹلرز کو مارا گیا اور وہاں افغانوں اور وار لارڈز کو جائیدادیں لے کر دی گئیں۔ ان اچھے طالبان کے خاندانوں کی رہائش، بچوں کی پڑھائی سب کچھ ہمارے ذمے تھا اور ہم نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی۔ ہم نے دنیا کو تاثر دیا کہ اگر طالبان تک پہنچنا ہے تو پھر یہ راستہ ہمارے ذریعے کھلتا ہے۔ طالبان نے غیرملکی اغوا کیے تو اس ملک نے ہم سے رابطہ کیا اور ہم نے ڈیل کرائی ۔ کسی کا جہاز وہاں اغوا کر کے لے جایا گیا تو بھی ہم سے رابطہ ہوا۔ بل کلنٹن پاکستان آیا تو جنرل مشرف سے اس نے درخواست کی کہ اسامہ کو طالبان سے کہہ کر واپس کرائیں۔ جنرل معین الدین حیدر اس کام کے لیے قندھار بھی گئے۔ گیارہ ستمبر کے بعد بش نے جنرل مشرف کو یہی کہا تو جنرل محمود کو اس کام کے لیے بھیجا گیا ۔ یوں سب کو پتہ چل گیا کہ طالبان کے اصل گاڈفادر ہم ہیں۔ 
پھر جب دنیا نے ہمیں دہشت گردوں کا ساتھی کہنا شروع کیا تو ہم حیران ہونا شروع ہوگئے کہ دیکھو یار یہ کتنی زیادتی کی بات ہے۔ اور پھر ایک دن پتہ چلا ہمارے ایک سو چالیس بچوں کے قاتل افغانستان میں بیٹھے ہیں۔ سب کابل دوڑ پڑے۔ وعدے ہوئے، وعید ہوئے، اچھے برے طالبان کی تمیز مٹانے کے دعوے سنے گئے۔ اور پھر پتہ چلا، ملا عمر دو سال پہلے مر چکے ہیں۔ 
ملاعمر کبھی جرأت نہ کر سکا کہ وہ اسامہ سے پوچھ سکتا کہ یاحبیبی! آپ ہمارے ہاں دہشت گردی کی تربیت کیوں دے رہے ہیں؟ کیوں عالمی قوتوں کو ہمارا دشمن بنا رہے ہیں؟ آپ کے پاس اتنا پیسہ ہے تو یہاں یونیورسٹیاں کیوں نہیں بناتے؟، موٹروے کیوں نہیں بناتے؟، افغانستان کو جدید مسلم ریاست بنانے میں کیوں مدد نہیں کرتے؟
خود کوئی ہمارے گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ پھینک جائے تو اس کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ سڑک پر گاڑی کی ٹکر ہوجائے تو فائرنگ شروع کردیتے ہیں لیکن ہم کیسے یہ توقع کیے بیٹھے تھے کہ امریکہ میں تین ہزار بندے مارے جانے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعدبھی اسامہ کے خلاف یورپین کارروائی نہ کرتے؟
جس دن اسامہ نے ویڈیو کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، ملاعمر کو اسی دن اسے ریاست سے نکال دینا چاہیے تھا۔ امریکہ نے طالبان سے یہی کہا تھا کہ ہماری آپ سے لڑائی نہیں، اسامہ سے ہے جس نے حملوں کی ذمہ داری لی ہے۔ وہ ہمارے حوالے کر دیں، کوئی جنگ نہیں ہو گی۔ 
یہ ہمارے دانشور جو آج ملاعمر کی موت پر غم زدہ ہیں، انہوں نے ہی اس وقت لکھا تھا کہ ملا عمر کمزور نہ پڑنا، اسامہ آپ کا مہمان ہے، دس لاکھ افغانی مروا دینا ، عورتوں اور بچوں سے پاکستان اور ایران میں بھیک منگوا لینا لیکن جھکنا مت۔ ایسی ایسی افسانوی داستانیں سنائی اور لکھی گئیں کہ افغان طالبان سولی پر چڑھنے کے لیے تیار ہوگئے۔ افغانستان میں امن سے ہم سب بیروزگار ہوتے ہیں، ڈالرز ملنے بند ہوتے ہیں، لہٰذا وہاں لہو کا بہتے رہنا ہمارے مفاد میں ہے۔ پشاور سکول سانحہ کے بعد ہم کالم نگاروں اور دانشوروں کی دکان ٹھنڈی پڑی تھی جو ملاعمر کی موت کے بعد نئے سرے سے ہم نے سجا لی ہے ۔ میں بھی کیا رام لیلا لے کر بیٹھ گیا ہوں ۔ اب اتنے بڑے مفادات کے کھیل میں بھلا کس کو اس بوڑھے افغان کی فکر ہوگئی جو اپنے نواسے کو جوان بیٹی کی لاش کے قریب رکھ کر سڑک کنارے بیٹھا رو رہا ہے۔ 
خوش آمدید ہمارے اچھے طالبان!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved