تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     12-08-2015

14اگست اور نظریاتی لوگ

میں نے دسویں جماعت تک فارسی پڑھی۔ فارسی زبان کو ''قندِپارسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسی زبان جو شکر جیسی میٹھی ہو، برصغیر کی سرکاری زبان یہی تھی۔ شعراء اسی میں شِعر کہتے تھے، بادشاہوں اور نوابوں کے قصیدے پڑھتے تھے اور محبوب و معشوق کے گُن گاتے تھے۔ یہ شعراء وقت کی گرد میں غبار بن گئے۔ ان کے کلام پرانی لائبریریوں کی بند الماریوں میں دیمکی کیڑوں کی خوراک بن گئے۔ مگر ان شاعروں میں ایک منفرد شاعر نے فارسی میں اپنا دیوان لکھا‘ اردو میں بھی اپنا کلام کہا اور زندہ جاوید ہو گیا کہ اس کے کلام میں آفاقیت تھی‘ جذبہ تھا، اسلام کا درد تھا، امت کی فکر تھی، لائحۂ عمل تھا‘ طریق کار تھا، منہج تھا اور راستہ تھا۔ اس شاعر کو حکیم الامت کہا گیا اس لئے کہ اس نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نظریہ دیا تھا جو دو قومی نظریہ کہلایا، اس شاعر کا نام علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ہے۔ ان کے اشعار منبر رسولؐ پر ہر مسلک کے علماء کی زبان پر وعظ بن گئے۔ اللہ اللہ! ایسی قبولیت، ایسی عزت، ایسا افتخار! اور یہ آج تک موجود ہے اور بڑھتا ہی جائے گا۔ (ان شاء اللہ)... جی ہاں! یہ عزت اس لئے ملی کہ حضرت علامہ شعر ہی نہ کہتے تھے، عملی میدان میں بھی تھے۔ پاکستان کے مصور تھے۔ وہ کام اتنا سا کرتے تھے جس سے گھر کا گزارہ بخوبی چل جائے اور باقی وقت امت مسلمہ کے لئے تھا۔ ان کے فرزند جاوید اقبال خود کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی والدہ سے کہا، امی جان! لوگوں کے باپ کام پر جاتے ہیں، میرے ابا جان گھر میں ہی ہوتے ہیں، وجہ یہی تھی کہ علامہ اقبال وکالت کرتے، فیس لیتے اور پھر کوئی دوسرا کیس نہ پکڑتے۔ گھر پر امت کی راہبری کیلئے ریسرچ کرتے اور وقت گزارتے۔ کیسی قناعت پسندانہ زندگی تھی۔ اسی زندگی نے ان کو رہتی دنیا تک جاوداں بنا دیا۔
ان کے خوابوں کی تعبیر حضرت قائداعظم کا بھی یہ حال تھا کہ ساری جائیداد پاکستان کے نام کر دی۔ بیٹی نے پارسی بننا قبول کیا تو اس کو ایک دھیلا نہ دیا اور عاق کر دیا۔ اہل پاکستان کو اپنی اولاد سمجھا اور اسی کو اپنی جائیداد کا وارث بنایا۔ اسی کردار نے انہیں قائداعظم بنا دیا۔ لیاقت علی خان‘ جو نواب تھے اور ہندوستان میں اپنی ایک بڑی جاگیر چھوڑ کے آئے تھے۔ وہ پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ ایک بیوروکریٹ نے ان کے سامنے فائل رکھی کہ ہندوستان میں چھوڑی ہوئی جائیداد کے بدلے جونسی جائیداد آپ کو چاہئے اس پر نشان لگا دیں اور دستخط فرما دیں۔ لیاقت علی خان نے بیوروکریٹ آفیسر کی طرف دیکھا اور تاریخی جملہ کہا، ''کیا ہر مہاجر کو اس کا حق مل گیا؟ لے جائو یہ فائل‘‘ لیاقت علی خان جب شہید ہوئے تو ان کا کل اثاثہ ایک سو روپے کے قریب تھا۔ مکان کرائے کا تھا۔ اسی کردار نے انہیں قائد ملت بنا دیا۔ کلیم داخل کروانے والی کمیٹی کے سربراہ حضرت مولانا دائود غزنوی رحمہ اللہ تھے۔ وہ شیش محل روڈ لاہور کے مدرسے میں دو کمروں کے اندر وقت گزار کر وفات پا گئے۔ انہوں نے جائیدادیں حقداروں کو دیں مگر سوائے مدرسہ کی ایک عمارت کے اپنی ذات کے لئے کچھ نہ لیا۔ یہ تھے پاکستان مسلم لیگ کے زعماء، لیڈر اور قائد... اللہ ان کو فردوس عطا فرمائے (آمین)
میرے پاکستان کی عمر 68سال ہو گئی ہے۔ میں اپنے ملک سے 11سال چھوٹا ہوں۔ اپنی زندگی میں ایوب خان سے لیکر آج تک کتنے ہی حکمران دیکھ لئے مگر کسی حکمران کے لئے دل سے دعا نہیں نکلی... ہاں! آج ایک ایسا حکمران ملا ہے کہ میں نے رات کے اندھیرے میں اور دن کے اجالے میں اس کے لئے اس طرح دعا کی کہ سجدے میں گیا، آنسو بہاتا رہا، پھر اٹھا‘ دو زانو ہو کر رب کریم کے دربار میں پیش ہوا اور ہاتھ پھیلا کر حکمران کے لئے دعائیں کرتا رہا... اس کا نام ہے سچی عزت۔ میرا اس حکمران سے نہ کوئی رابطہ ہے، نہ رابطے کا کوئی ذریعہ ہے، نہ پروگرام ہے، نہ دل میں کوئی خواہش ہے اور میں ایک نہیں‘ نہ جانے دنیا بھر میں کتنے لاکھ پاکستانیوں کے کتنے کروڑ سجدے اور دعائیں ہیں جو اس حکمران کے لئے ہیں۔ اس حکمران نے کیا کیا ہے؟ وہ معروف معنوں میں کوئی آئینی حکمران نہیں ہے لہٰذا اس کا نہ کوئی وعدہ ہے، نہ عہد ہے، نہ کوئی قوم سے خطاب ہے۔ نہ وہ بوگس قسم کا نوٹس لیتا ہے۔ بس اس کا عمل ہے جو بولے جا رہا ہے۔ کراچی میں امن ہو گیا، بھتہ ختم ہو گیا، ٹارگٹ کلنگ کا ہلکا ہلکا شائبہ رہ گیا، تاجروں نے اس رمضان کو جی بھر کر مسجدوں کو بھرا‘ دعائوں میں حکمران کو خوب یاد کیا، بلوچستان اب بدل چکا ہے، کرپشن میں کمی آ گئی ہے، وہ بھاگا پھرتا ہے۔ چترال کے پہاڑی سیلاب میں دیکھو تو وہ نظر آتا ہے‘ میدانی علاقوں کے سیلاب میں نظر ڈالو تو وہی وردی والا دکھائی دیتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں دیکھو تو دہشت گردوں کو نکیل ڈالتا وہ نظر آتا ہے‘ عید کو دیکھو تو عید کی رات اور عید کا دن جنوبی وزیرستان کے ان جوانوں کے ساتھ مناتا وہ نظر آتا ہے جنہوں نے آرمی پبلک سکول کے ننھے بچوں کے قاتلوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کر دیا ہے۔ کیسا ہے اور کون ہے یہ حکمران؟
آج تک سیاسی اور فوجی حکمرانوں کا وتیرہ یہی رہا ہے کہ بُری اور ملک دشمن روایتوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور پھر جس گاڑی میں سوار ہو کر آگے بڑھے وہ ایک کلومیٹر کا سفر آگے کو کرتی تھی تو مفاد پرستانہ حکمرانی کے لالچ میں وہ حکمران ریورس گیئر لگاتے اور پون کلومیٹر پیچھے کو آ جاتے۔ اس کے برعکس یہ جو موجودہ حکمران ہے یہ ایسی گاڑی میں سوار ہے جس کا ریورس گیئر ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کا کام اب آگے ہی بڑھنا ہے، پیچھے ہٹنے کا آلہ ہی موجود نہیں۔ اس حکمران کو ایسی توفیق کیوں ملی ہے؟ سوچتا ہوں تو بات ایک ہی سمجھ آتی ہے کہ وہ لالچ سے پاک ہے۔ پلاٹ پیش کئے گئے تو انکار۔ اٹھارہ لاکھ کی ساڑھیاں گھر کی دہلیز پر آئیں تو واپس وہیں چلی گئیں جہاں سے آئی تھیں۔ قائد ملت کے کردار کی خوشبو ایک بار پھر سونگھنے کو ملی، ہاں ہاں! ایک بار پھر مشّامِ جاں بنی... اللہ نے قرآن پاک میں اسی لئے فرمایا، جو کوئی دل کے لالچ سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ ہی کامیاب ہیں۔ جی ہاں! یہ حکمران کامیاب ہے۔ میں ایسے شخص کو سیاستدانوں کی متکبرانہ زبان میں 22ویں گریڈ کا افسر کہوں کہ حکمران کہوں، نہیں نہیں، میں کچھ بھی نہیں کہتا، افسر بھلا ایسے ہوتے ہیں؟ ہم افسر شاہی کو جانتے ہیں اور حکمران تو میں کہہ نہیں سکتا کہ آئینی موشگافی میں نہ جانے کیسا کیسا شگاف پڑ جائے۔ ہاں! یہ اک شخص ہے، عمومی معنوں میں حکمران ہے، حکمرانی کر رہا ہے اور اٹھارہ کروڑ دلوں پر اور اٹھارہ کروڑ دل اس کی حکمرانی کے والا و شیدا ہیں۔
اے کاش! سیاستدانوں کو اب بھی حکمرانی کا ڈھنگ آ جائے۔ میرے حضورﷺ نے فرمایا: ''تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں‘‘(مسلم) دونوں ایک دوسرے سے بغض رکھتے ہیں لیکن بدترین صرف حکمران ہیں جو عوام سے بغض کی پالیسیاں بناتے ہیں۔ جواب میں مظلوم عوام بغض ہی رکھ سکتے ہیں، ایسے حکمرانوں کے لئے دعا کہاں سے ہو گی اور کون کرے گا؟ تبدیلی حکمران لاتا ہے۔ میرے حضورﷺ نے قوم بنائی تھی، تبدیل کیا تھا، اسی لئے مائیکل ہارٹ نے 100اہم ترین شخصیات میں سے میرے حضورﷺ کو پہلا نمبر دیا تھا۔ قائداعظم نے اسی طرز پر نیشن بلڈنگ کا کام کیا، سنگاپور کا مسٹرلی ہو یا جنوبی افریقہ کا نیلسن منڈیلا، ملائشیا کا مہاتیر، انہوں نے اپنی اپنی اقوام کو تبدیل کیا... ہاں ہاں! اب میرے پاکستان کی قسمت بھی بدلنے چلی ہے۔ 2015ء کا 14اگست یہ پیغام لایا ہے، سندیسہ جس شخصیت کے کردار سے سنائی دے رہا ہے اس کا نام جنرل راحیل شریف ہے، پاکستان میں شریفانہ اقتدار تو 25سال سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں مگر اب پیغام ملا ہے کہ شرافت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ بم دھماکے ختم ہیں، امن کی شاہراہ پر جیپ دوڑ رہی ہے، میں یہ جیپ سارے ملک میں دوڑتی دیکھ رہا ہوں، اے پاکستانیو! موجودہ 14اگست مبارک ہو۔( پاکستان زندہ باد)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved