دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیو ایم‘ تحریک انصاف کا کھیلا ہوا پتہ‘کھیلنا چاہتی ہے یا اس نے کوئی اور طریقہ تلاش کر لیا ہے؟ اجتماعی استعفوں کا راستہ تو جاوید ہاشمی نے بتا دیا تھا کہ سارے اراکین باری باری یا ایک ساتھ اسمبلی میں کھڑے ہو کر استعفیٰ سپیکر کی خدمت میں پیش کر دیں۔ یہاں بھی یہ قباحت پیش آئے گی کہ اس طریقے سے پیش کئے گئے استعفے قواعد کے مطابق ہوں گے یا سپیکر ایاز صادق کا زرخیز ذہن کسی نئی دلیل کے ساتھ استعفوں کو لٹکا دے گا؟ ایم کیو ایم نے آج دوپہر تک مخمصے کی جس کیفیت کا اظہار کیا ہے‘ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ ‘ تحریک انصاف کی طرح کسی طریقے کی تلاش میں ہے کہ استعفے بھی دے دیئے جائیں اور سپیکر کے لئے گنجائش بھی چھوڑ دی جائے کہ وہ معاملے کو التواء میں ڈال دیں۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کیا فیصلہ ہونے والا ہے؟ اگر ایم کیو ایم کی چھٹی کرانا طے پا گیا ہے‘ تو کسی بھی طریقے سے دیئے گئے استعفے قبول کئے جا سکتے ہیں اور اگر ایم کیو ایم کو مہلت دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے‘ توپھر استعفوں کے معاملے کو طول دے کر‘ اسے سودے بازی کا موقع دیا جائے گا۔ مگر ایم کیو ایم کے لئے راستے کچھ زیادہ کشادہ نہیں۔ کیونکہ استعفوں کا فیصلہ سیاسی وجوہ کی بنا پر نہیں کیا جا رہا۔ ایم کیو ایم نے آج تک کبھی سیاسی راستہ اختیار ہی نہیں کیا۔اس کی تمام دھمکیاںکسی نہ کسی عارضی مقصد کی خاطر ہوتی ہیں۔ یا اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کسی نرمی یا سختی کے سوال پر معاملہ طے کرنا ہوتا ہے۔ یا شریک اقتدار ہو کر‘ پسندیدہ وزارتوں کے سوال پر سودے بازی کرنا ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ ایم کیو ایم کے مسائل نہیں ہوتے۔ نہ وہ کسی نظریئے پر تنازعے میں پڑتی ہے‘ نہ قومی پالیسیوں میں ردوبدل پر وہ کوئی اصرار کرتی ہے اور نہ خارجہ یا دفاعی پالیسیوں میں وہ کسی قسم کی تبدیلی میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس کی زیادہ توجہ ہمیشہ اپنے ''مجاہدین‘‘ کی سہولتوں پر مرکوز رہتی ہے یا دو تین رس بھری وزارتوں پر۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اصولی طور پر ایم کیو ایم بہت آرام دہ کولیشن پارٹنر بن سکتی ہے۔ مگر حیرت ہے کہ وہ کبھی بھی مطمئن کولیشن پارٹنر نہیں ہوتی۔ ہمیشہ بے اطمینانی میں مبتلا رہتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اسے ایک مضبوط اور مستحکم قیادت میسر رہی۔ جس کا اسے فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔ لیکن قیادت کے سوال پر یہ جماعت بظاہر کبھی کسی تنازعے یا کشمکش کا شکار نہیں ہوئی۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ لیکن ہر وجہ کا تعلق الطاف حسین کے کنٹرول اور خواہشات سے ہوتا تھا۔ اب یہ صورتحال بدلتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اس مرتبہ یقین محکم رکھنے والا فوجی سربراہ ‘ نتائج حاصل کرنے کے معاملے میں ثابت قدم ہے۔اس کی دلچسپی کادائرہ محدود نہیں۔ وسیع تر قومی مفادات پر اس کی نظر رہتی ہے۔ وقت نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ فوج اپنی پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت داخلی معاملات میں بھی اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہے۔ جب تک فوج کی ذمہ داریوں میں سرحدی معاملات فوقیت رکھتے تھے‘ تو وہ داخلی پالیسیوں سے الگ تھلگ رہی۔ یہ ہماری فوج کا مزاج ہے۔ لیکن بدقسمتی سے فوج کے ہر سربراہ کا یہ مزاج نہیں رہا۔ جنرل موسیٰ خان‘ جنرل ٹکا خان‘ جنرل وحیدکاکڑ اور جنرل راحیل شریف جیسے فوجی سربراہوں کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ باقی جنرل جو دس دس برس تک پاکستان کے تمام اموپر چھائے رہے‘ ان کی دلچسپی فوج سے زیادہ ذاتی اقتدار میں تھی۔ اسی طرح کے جنرلوں نے ہمیں تباہی کی موجودہ حالت میں پہنچایا۔ خصوصاً دو جنرل ‘ملک کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوئے۔ جنرل ضیاالحق نے دوسروںکی جنگ سے فائدہ اٹھانے کی احمقانہ پالیسی اختیار کر کے‘ ہمارے ملک میں مسلح بیرونی عناصر کو کھل کھیلنے کاموقع دیا۔ نتیجے میں دہشت گردی ہمارے شہروں اور دیہات تک پھیل گئی اور اسی وبا کو جنرل پرویزمشرف نے فروغ دیا۔ ان کی دلچسپی ہر قیمت پر ڈالر بٹورنے میں تھی۔ان دونوں میں سے ایک کا قول یہ تھا کہ دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع دو۔ خصوصاً وہ امریکیوں کو ہدف بنا کر نقصان پہنچاتے رہیں اور پاکستان ‘ امریکہ کا ہمدرد بن کر‘ دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے اسلحہ اور ڈالروں کی صورت میں بھاری بھرکم فیس وصول کرتا رہے۔ بس اسی ایک معاملے میں وہ کامیاب رہے۔ باقی نہ ان کا کوئی مقصد تھا اور نہ ہی ملکی مفادات کو آگے بڑھانے کی خواہش۔ مگر یہ سودا پاکستان کو بہت مہنگا پڑا۔ جو ڈالر آئے‘ وہ حکمران جرنیلوں اور ان کے حاشیہ برداروں کے کام آئے۔ جو اسلحہ آیا‘ وہ البتہ پاک فوج کے کام کی چیز تھی۔ لیکن ملکی دفاع کے لئے وہ ہمارے کسی کام کا نہیں تھا۔ کیونکہ ہر دس سال کے بعد اسلحہ پرانا ہو جاتا ہے اور جس چیز نے ہمارے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا‘ وہ ہمارا ایٹمی پروگرام تھا۔ اس میں کسی بیرونی طاقت نے کبھی ہماری مدد نہیں کی۔ اس کے برعکس جہاں تک کسی بڑی طاقت کا بس چلا‘ اس نے رکاوٹیں ہی ڈالیں۔
جنرل راحیل شریف کو جب موجودہ منصب کی ذمہ داریاں ملیں‘ تو دہشت گرد پورے ملک میں اپنا جال پھیلا چکے تھے اور بعض مقامات پر تو انہوں نے اپنے اڈے بھی قائم کر لئے تھے‘ جہاں حکومت پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ان اڈوں پر ‘ دہشت گردوں کو پناہ بھی ملتی۔ نئے بھرتی ہونے والے جنگجوئوں کی تربیت کا بھی انتظام تھا۔ اغوا برائے تاوان کے لئے رکھے گئے پاکستانی شہریوں کو قید بھی رکھا جاتا تھااور وہ اپنے محفوظ ٹھکانوں سے نکل کر‘ جب چاہتے پاکستان میں کسی بھی مقام پر تباہی پھیلا دیتے۔ یہ تھی وہ صورتحال جس میںجنرل راحیل شریف نے ذمہ داریاں سنبھالیں۔ کوئی بھی فوج اپنی دفاعی ذمہ داریاں موثر طریقے سے پوری نہیں کر سکتی‘ جب تک گھر محفوظ نہ ہو۔ جنرل راحیل شریف نے سب سے پہلے دہشت گردوں کے اڈوں کو نیست و نابود کر کے‘ انہیں ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا ۔ وہ بکھر کر
پاکستان میں ادھر ادھر چھپ تو گئے ہیں مگر کوئی بڑی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہ گئے۔ لیکن کراچی بدامنی کی وجہ سے30برسوں سے خطرہ بنا ہوا تھا۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ ایک سیاسی گروہ نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے اس شہر کو دہشت گردوں کی چھائونی میں بدل دیا تھا۔ انہوں نے جابجا قتل گاہیں بنا رکھی تھیں۔ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری‘ راہزنی اور قبضہ گیری عام ہو گئی۔ اس طاقت کا استعمال کر کے‘ شہر کے انتخابی عمل پر بھی قبضہ کر لیا گیا اور ووٹروں کو خوفزدہ کر کے‘ اسمبلیوں میں نشستیں بھی حاصل کی جانے لگیں۔ ملک کے اندر دہشت گردی ختم کرنے کی مہم کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے فوج کو کراچی پر توجہ مرکوزکرنا پڑی۔ بدنصیبی سے ایک سیاسی پارٹی کو دیکھ کر دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اپنے مسلح ونگ بنا لئے اور شہر پوری طرح سے غنڈہ گردی کی لپیٹ میں آ گیا۔ ماضی میں ہر حکومت نے کراچی کو سماج دشمن عناصر سے پاک کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سیاسی عناصر نے خواہ وہ خود حکمران تھے یا فوجی حکمرانوں کے حاشیہ بردار‘ امن کی ہر کوشش کوناکامی سے دوچار کیا۔ موجودہ فوجی قیادت کسی رو رعایت کے بغیر نتائج حاصل کرنے پر مصر ہے۔ مسلح گروہوں کو یقین ہو گیا ہے کہ اب ان کی دال نہیں گلنے والی۔ آپ جانتے ہیں کہ بہت سے مسلح گروہوں کے سرغنہ ملک چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔ بھاگنے والوں میں ایم کیو ایم کے مسلح عناصر بھی شامل ہیں۔ ایسے عناصر یا روپوش ہیں یا مفرور۔ ان حالات میں ایم کیو ایم دشواریوں سے دوچار ہے۔ رینجرز نے ماضی کی طرح کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں رہنے دی۔ فوج نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ ہر صورت کراچی کو امن کا شہر بنا کر رہے گی۔ ایم کیو ایم کو اب پرامن اور حقیقی سیاست کی طرف آنا پڑے گا۔ اس کی موجودہ دھمکیاں اور مختلف ہڑبڑائے ہوئے فیصلے‘ نئی صورتحال میں ڈھلنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ ایم کیو ایم کی بدقسمتی یہ ہے کہ الطاف حسین صحت اور مقدمات کی مشکلات میں‘ تبدیلی کے اس عمل کی قیادت کرنے کا وقت نہیں نکال پا رہے۔ نتیجے میں دوسرے درجے کی قیادت ہاتھ پائوں مارنے لگی ہے۔ جس پر الطاف بھائی اکثر غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم ایک سیاسی طاقت بھی بن چکی ہے۔ اگر یہ مکمل طور پر سیاسی جماعت بن جائے اور یہ تبدیلی الطاف حسین کی اپنی قیادت میں رونما ہو‘ تو قومی سیاست میں ایک اچھی طاقت کا اضافہ ہو جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ فوج یہی راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے۔ اسی لئے رینجرز نے بازوئے شمشیرزن کے ساتھ ساتھ ‘ سیاست کا راستہ مسلسل کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت اگر اس کھلے راستے کو اختیار کر لے‘ تو وہ ایک مثبت طاقت کی حیثیت سے‘ ملک میں اہم کردار اداکر سکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایم کیو ایم مکمل سیاسی تنظیم میں نہ بدلی تو صو رتحال انتہائی تباہ کن ہو گی۔ امن تو بہرحال قائم ہو گا۔ لیکن اسے مستحکم ہوتے ہوتے بہت تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ ایم کیو ایم خود بھی اس نئے دور میں ‘ نیا کرداراختیار کرنے کے عمل میں موجودہ اضطرابی فیصلے کر رہی ہے۔ میری تو دعا ہے کہ تبدیلی کے یہ مراحل ایم کیو ایم کامیابی کے ساتھ طے کرنے میں کامیاب ہو جائے۔تصادم کا راستہ ہم سب کے لئے خطرناک ہو گا۔