تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-08-2015

کوئٹہ سے حال احوال

بدترین عالمی سازشوں‘بدعنوان سیاستدانوں‘ دہشت گرد گروہوں‘ جرائم پیشہ کاروباریوں کے باوجود ملک دلدل سے نکل رہا ہے۔ غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہے اور اسی وقت ہم غیر محتاط ہیں۔ 
سیاسی اعتبار سے بھی یہ برسات کا موسم ہے۔ ہر روز نئے کانٹے‘ نئے پھول اور نئی جھاڑیاں اگتی ہیں۔ الطاف حسین نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اوران کے ارکان سینٹ‘ قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے بھی مستعفی ہوگئے۔ ادھر بلاول بھٹو نے پیپلزپارٹی کا پرچم تھام لینے کا مژدہ سنایا ہے۔
رابطہ کمیٹی کیا بیچتی ہے کہ اپنے لیڈرکو مشورہ دے۔ حکم الطاف حسین کا چلتا ہے ۔ بظاہر وزیراعظم پر دبائو کا عزم ہے کہ ایم کیو ایم کے گرفتار شدگان رہا ہوں اور آپریشن میں نرمی۔ مگر یہ ممکن نہیں ۔ وزیراعظم کی خواہش ہوگی کہ نظام چلتا رہے۔ وہ قاتلوں کو رہا کیسے کریں۔ کراچی کے شہری شاد ہیں‘ رائے عامہ آپریشن کی پشت پر کھڑی ہے ۔ بیس برس سے ایسا امن کراچی کو نصیب نہ ہوا تھا۔
مغل عہد کا وہ منفرد لیڈر عبدالرحیم خانِ خاناں روپیہ لٹانے اور دعوتیں برپا کرنے کا بہت شائق تھا۔ تقریب میں کوئی رو پڑا۔ خلوت میں طلب کیا گیا تو اس نے کہا: حضور‘ شرمندہ ہوں‘ آنسو اس کے چھلک پڑے کہ کبھی میں آسودہ حال تھا‘ مہمانوں کا خیر مقدم کیا کرتا تھا۔ پوچھا گیا: مرغ میں سب سے زیادہ لذیذ حصہ کون سا ہوتا ہے۔ جواب ملا: پوست۔ کوئی دن بعد ایک اور خادم رویا پیٹا۔ تنہائی میں‘ اس نے بھی وہی داستان دہرائی۔ خان نے وہی سوال کیا: گائے میں سب سے زیادہ پسندیدہ چیز کیا ہوتی ہے۔ کہا: پوست۔
عمران خان نے اسمبلیوں سے الگ ہونا چاہا تو حکومت ہی نہیں‘ پیپلزپارٹی بھی لرز اٹھی۔ الطاف حسین کے مقابلے میں عمران خان کی اخلاقی پوزیشن بدرجہا بہتر ہے۔ ملک گیر پارٹی ہے۔ایک صوبے پر حکمرانی ہے۔ اس کا کوئی عسکری ونگ نہیں۔ قومی سلامتی کے ضمن میں اس پر کوئی بنیادی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ پارٹی میں سفاک قاتل نہیں پائے جاتے۔ وہ احتجاج برپا کرتا۔ الطاف حسین نہیں کر سکتے۔ آپریشن کو کراچی والوں نے اپنا لیا ہے۔ دیہی سندھ‘ پنجاب‘ پختونخوا اور بلوچستان کے عوام ایم کیو ایم سے نالاں ہیں۔ نیا کراچی ہی نہیں ایک نیا بلوچستان بھی جنم لے رہا ہے۔ قبائلی خطے میں فساد تحلیل ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے بعض علاقوں میں قومی پرچم لہرانا مشکل تھا۔ کل کوئٹہ کے شہری دن اور دلگداز شام میں قومی پرچموں کی خریداری کے چرچے تھے۔ امجد اسلام امجد‘ انور شعور‘ قاسم پیرزادہ‘ بشریٰ اعجاز اور راشدہ ماہین سمیت ملک بھر سے شعراء منگل کی شام جنرل ناصر جنجوعہ کے مہمان تھے۔ ایک سرکاری شخصیت سے ملاقات کے لیے پہنچا تو ایک بڑے قبیلے کے سردار کو براجمان پایا۔ وہ ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے شرائط پر تبادلہ خیال میں مصروف تھے۔ جب یہ سطور چھپیں گی تو چار سو باغی ہتھیار ڈال رہے ہوں گے۔ کل صوبائی حکومت اس وقت گڑبڑا گئی جب ان لوگوں کو معاوضہ ادا کرنے کے لیے 28 کروڑ روپے طلب کئے گئے۔ بعدازاں عسکری قیادت نے فیصلہ کیا کہ پہلی قسط فقط چار کروڑ ہو۔ قبیلے کے سردار کا مشورہ بھی یہی تھا کہ وفاداری جانچنے کے بعد ہی باقی اقساط اداہوں۔ علیحدگی پسند چھاپہ مار لیڈر اللہ نذر کی موت کی تصدیق نہیں ہو سکی مگر زندہ رہنے کی شہادت بھی نہیں مل رہی۔ پالیسی یہ ہے کہ اس معاملے کو بہت نمایاں نہ کیا جائے کہ انسانی حقوق کے چیمپئن بھارت‘ برطانیہ‘ امریکہ اور ان کی لے پالک بنیادی حقوق کی تنظیمیں فائدہ نہ اٹھائیں۔ بھاڑے کے اخبار نویس بھی۔ ماما قدیر کے مامے۔ خان آف قلات ذہنی طور پر واپسی کے لیے تیار ہیں اگرچہ کچھ گرہیں ابھی نہیں کھلیں۔ بلوچستان کی علیحدگی کے لیے بین الاقوامی تحریک چلانے اور عالمی عدالت میں مقدمہ برپا کرنے کا مشورہ دینے والے اب خود پچھتا رہے ہیں۔ سرکاری دفاتر کی راہداریوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ''sub- nationalism اب nationalism میں ڈھلے گا اور بتدریج ایک تحریک بن سکتا ہے‘‘ جنرل ناصر جنجوعہ نے شاعروں اور ٹی وی میزبانوں کو بتایا۔
ایسے میں بھارت کیا چین سے بیٹھے گا‘ جس کا ایجنڈا ہی پاکستان کا خاتمہ ہے۔ جس کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں خلفشار کے لیے اربوں روپے سالانہ خرچ کرتی ہے۔ بھارت میں تھنک ٹینک ہیں جو اسی کام پر مامور ہیں۔ جریدے‘ این جی اوز اور ویب
سائٹس ہیں۔ پاکستان میں ان کے مددگار ہیں۔ انسانی حقوق کی چیمپئن ایک تنظیم کے سربراہ بھارتی حکومت کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ بھارت پاکستانی اخبار نویسوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حیران کن یہ ہے کہ افغانستان میں انہوں نے خاک چھانی‘ بلوچستان کے علاوہ قبائلی علاقے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے محاذ پر بھی وہ پسپا ہے۔ اس کا ہدف اب بھی کراچی ہی ہو سکتا ہے‘ را جس کے لیے مستقلاً سرگرم ہے۔
برادرم کامران خان نے بلاول بھٹو کو مشورہ دیا ہے کہ جھنڈے کے ساتھ وہ ڈنڈا بھی اٹھالیں۔ بھائی کامران سے سوال ہے کہ یہ ڈنڈا وہ کس کے خلاف استعمال کریں گے۔ اخباری اشتہارات اور
سائن بورڈوں سے روپیہ بٹورنے والے شرجیل میمن اور دوسرے وزراء کے خلاف؟ کیا منظور کا کا ایسے کردار جناب آصف علی زرداری کی آشیر باد کے بغیر ہی اس کار خیر میں مصروف رہے؟ تو کیا وہ والد گرامی کا سامنا کریں گے؟ ان کے اس ارشاد کا مفہوم کیا ہے: پیپلز پارٹی نہیں مر سکتی۔ اب جھنڈا میں نے اٹھا لیا ہے۔ تو کیا اس سے پہلے یہ پرچم نالائق یا بدعنوان لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ ہمارے نئے لیڈر کس قدر ہولناک لسانی افلاس کا شکار ہیں۔ ریحام خان سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ مگر اخبار نویسوں کے سامنے دوستی کا فلسفہ بگھارنے کی انہیں کیا سوجھی؟ لیڈر بنو بی بی‘ مفکر بننے کی کوشش نہ کرو۔ علم کی دنیا دوسری ہے اور پوری کی پوری زندگی مانگتی ہے۔ یہ آپ نے کیا کہا کہ دوستی میں مرد اور عورت کی تمیز نہیں ہوتی۔ کپتان نے اور کتنی ہی حماقتیں کی ہوں مگر کوئی خاتون ان کی دوست نہیں اور ہو بھی نہیں سکتی۔ روایت پسند اس معاشرے میں یہ ممکن ہی نہیں۔ عورت ماں ہوتی ہے ‘ بہن‘ بیٹی ‘ بیگم اور محبوب ... ہر روپ‘ ہر کردار میں قابل صد احترام کہ اگر باوقار ہو تو ظاہر ہے کہ مخلص اورایثار کیش ہو گی؟ اعتماد حد سے بڑھ جائے توعامی فلسفی ہوجاتے اور بے تکی ہانکنے لگتے ہیں۔ علائوالدین خلجی نے اپنے مشیر سے کہا: نیا مذہب ایجاد کروں گایا اب ساری دنیا کو فتح کروں گا۔ مودٔ بانہ اس نے کہا حضور لشکر لے کر یہاں سے نکلے تو ہندوستان بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ رہا مذہب تو وہ ایجاد نہیں ہوتا ۔ اللہ اپنے پیغمبر بھیجتا ہے اور آخری پیغمبر سرکارؐ تھے۔
ایک مودبانہ درخواست کپتان سے۔ اپنے کارکنوں کو جنون کی بجائے اب حکمت کا درس دیجئے۔ موبائل پر بیہودہ پیغامات مجھے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے وتیرہ ہی بنا لیا۔ اس کا تازہ پیغام یہ ہے کہ میرے پسندیدہ آئی جی مشتاق سکھیرا سانحہ قصور کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ اس دوران یہ ارشاد ہوا‘ جب اس نجیب آدمی پر جوتا پھینکا گیا۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی پولیس افسروں کو
قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ ان کا جرم کیا ہے؟ سانحہ ان کے دور میں ہوا ہی نہیں۔ صبر کا ایسا مظاہرہ انہوں نے کیا کہ دو ڈی ایس پی افسروں سمیت بیس مظاہرین کے ہاتھوں زخمی ہوئے‘ تین کلاشنکوف رائفلیں چھین لی گئیںمگر جوابی کارروائی نہ کی۔مثالی افسر نہ سہی مشتاق سکھیرا سرتاپا شریف آدمی ہیں۔ کبھی ان پر کرپشن کا الزام لگا اور نہ اقربا پروری کا‘ ریاضت کیش بھی بہت ہیں۔ مستند اعداد و شمار یہ کہتے ہیں کہ سال گزشتہ کے مقابلے میں رواں برس کے اولین سات مہینوںمیں جرائم بیس فیصد سے زیادہ کم ہوئے۔ قتل کے 3500واقعات کے مقابلے میں 2600‘ اغوا برائے تاوان66کی بجائے 45‘ بڑی ڈکیتیاں 1400نہیں900۔چھوٹی ڈکیتی11500کی بجائے 10000۔دہشت گردی کے واقعات میں 42فیصد کمی آئی۔33کی بجائے 20واقعات ہوئے‘ 11کی بجائے 4خود کش حملے یعنی64فیصد کم۔ مذہبی فرقہ واریت سے ہونے والے واقعات 129کی بجائے 55۔ سب سے سنگین جرم وہ ہوتا ہے‘ ڈکیتی کے دوران جس میں قتل کا سانحہ رونما ہو۔ ان میں 45فیصد کمی آئی‘145کی بجائے 94۔ایسا آدمی کیا اس بات کا مستحق ہے کہ اس پر جوتا پھینکا جائے۔ اس کی توہین اور تذلیل کی جائے۔ پولیس کو حکمرانوں نے برباد کیا ‘ جہاں کہیں قانون کی حدود میں وہ آزاد ہے‘ وہاں وہ سرفراز اور آبرو مند ہے ‘ مثلاً موٹر وے پولیس۔ نوکر شاہی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ہر بار شہبازشریف ملبہ پولیس پر ڈال دیتے ہیں۔ میڈیا اور سیاسی جماعتیں بھی۔ پولیس تباہ حال ہے۔ اس کی مذمت برحق مگر جہاں وہ قصوروار ہو۔ جہاں وہ جائز‘ درست ‘ محتاط اور معقول ہو‘ وہاں گالی دینے کا مطلب چھچھورے پن کے سوا کیا ہے؟ 
بدترین عالمی سازشوں‘بدعنوان سیاستدانوں‘ دہشت گرد گروہوں‘ جرائم پیشہ کاروباریوں کے باوجود ملک دلدل سے نکل رہا ہے۔ غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہے اور اسی وقت ہم غیر محتاط ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved