تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     13-08-2015

پاکستان کی کہانی، پاکستان کی زبانی

پاکستان کل اڑسٹھ برس کا ہو جائے گا۔ چار برس قبل ہم نے جشن آزادی کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا جس میںہم نے اس وقت تک کے حالات کے مطابق صورت حال کی خاکہ کشی کی تھی۔حالات گو اس وقت بھی دگرگوں تھے لیکن اپنی بقا کے لئے ہمارا عزم غیر متزلزل تھا۔کیا اس وقت کے مقابلے میں آج ہمارا ملک کچھ آگے بڑھا ہے؟ قارئین کرام، آپ کی اجازت سے ہم یہاں اپنا وہی کالم دوبار ہ پیش کرنا چاہیں گے تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ پاکستان میں کسی بہتر تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے ہیں یا نہیں۔ تو سنیے پاکستان کی کہانی، پاکستان کی زبانی!
اگرچہ اندرونی طور پر میں توڑ پھوڑ کا شکار ہوں لیکن میری روح مرنے والی نہیں۔ میری جیبیں بے شک خالی ہیں لیکن میرے پاس امیدوں کا ایک خزانہ ہے جو مجھے متحرک رکھتا ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میرا سارا نظام درستگی چاہتا ہے کیونکہ برسوں کی غفلت اور لاپروائی نے اسے کافی متاثر کیا ہے، لیکن میرا دماغ ہنوز سلامت ہے اور یہ توانائی کے وسائل کی کمی سے نمٹنے کا کوئی نہ کوئی طریق کار وضع کر لے گا۔ میں تاریکی میں ہی سہی کہ میری تمام توانائیاں خرچ ہو چکی ہیں، لیکن ہر تاریکی کے بعد روشنی آتی ہے۔ جلد ہی شاید میں پانی کی کمی کا بھی شکار ہو جاؤںگا کیونکہ میرے آبی وسائل ختم ہونے والے ہیں لیکن اگر وسائل کے تحفظ کے حوالے سے میں نے اپنی ہوشیاری ثابت کر دی تو مجھے خشک سالی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔مجھ میں خوراک کی بھی کمی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ میں ایک سوہنی دھرتی ہوں اور میلوں پر پھیلی میری زرخیز زمین میری بھوک کا خاتمہ کر سکتی ہے۔تو چلیں آئیں موم بتیاں جلا کر جشن کا آغاز کریں۔ 
بابائے قوم مجھے اس دنیا میں لائے اور انہوں نے میرا نام پاکستان رکھا۔میری پیدائش کا مرحلہ گو بڑی دشواری سے طے ہوا تھا لیکن وہ بہت خوش تھے۔لیکن قدرت نے انہیں اتنی مہلت نہیں دی کہ وہ مجھے پروان چڑھتے دیکھ پاتے، جلد ہی وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔مجھے انہوں نے یہ نصیحت کی تھی کہ میں سر اونچا رکھ کر دوسری اقوام کے ساتھ مستقبل کی جانب گامزن رہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بابائے قوم کی تصاویر تمام وی آئی پیز کے دفتروں میں آویزاں ہیں، ساتھ ہی ان (وی آئی پیز) کی اپنی تصاویر بھی ٹنگی ہوئی ہیں، لیکن میرے جھنڈے لہرا کر یا اپنی جیکٹوں کے کالروں پر اسے چسپاں کر کے یا اپنی بڑی بڑی تصویروں کی نمائش کے ذریعے یہ لوگ کسی کو بھی میرے تشخص سے آگاہ نہیں کر سکتے۔ سچ پوچھیے تو مجھے ایسی نمائش بہت نازیبا معلوم ہوتی ہے۔
چونسٹھ برس کی عمر میں بھی میرے چہرے کا جو حسن ہے، اس کے بارے میں مزید آپ جاننا چاہیںگے؟ چلیے تو پھر سنیے۔۔۔۔۔ میرا قدرتی حسن ایک عالم کے لئے باعث رشک ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے عالمی مقابلہ حسن میں مَیں نے دوسرا نمبر حاصل کیا تھا۔ دور دور سے لوگ میرے برف سے ڈھکے پہاڑوں کو دیکھنے اور انہیں سر کرنے آتے تھے۔ کوہ پیمائی کے شائق گویا کبھی تھکتے ہی نہیں تھے۔ ہر سال موسم سرما میں میری برفانی چوٹیوں کو سرکرنے وہ باقاعدگی سے آتے تھے اور واپس جا کر اپنے لوگوں کو رومانویت اور پراسراریت اور برف سے ڈھکے نظاروں میں منڈلاتی غیر مرئی ہستیوں کی داستانیں سناتے جہاں کا سکوت ہوا کی سیٹیوں سے ہی ٹوٹتا ہے۔ یہاں میرے حسن کو وقت بگاڑ سکتا ہے نہ ہی انسان۔ میرے سکون میں بھی یہاں کوئی خلل انداز نہیں ہو سکتا۔میرے خد و خال اور نقوش کے بارے میں آپ مزید جاننا چاہیںگے؟ میرے نقوش نہایت دلکش ہیں، سر سبز وادیاں جہاں چلغوزوں کے بڑے بڑے درخت ہیں، جنگلی پھول کھلے ہیں، جھرنے اور آبشاریں ہیں، کھیت کھلیان اتنے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں کہ آسمان کو چھوتے معلوم ہوتے ہیں۔اخباروں میں میری تصویریں دیکھ لیجیے۔ 
لیکن سنیے، میری ساری زندگی اتنی بھی حسین نہیں۔ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ جب کوئی اپنی اصل عمر سے کہیں زیادہ بوڑھا دکھائی دے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی دیرینہ مرض اسے لاحق ہے۔میرے خیر خواہ کہتے ہیں کہ مجھے اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری کر لینی چاہیے، لیکن میرے وزیر اعظم(یوسف رضا گیلانی) نے سالگرہ کے تحفے کے طور پرمجھے دینے کے لئے ایک بہتر چیزکا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے ممتاز قلم کاروں، شاعروں، دانش وروں، فن کاروں، اداکاروں ، ماہرین تعلیم ،سوشل ورکرزاور میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بلایا ہے تاکہ وہ انہیں بتا سکیں کہ آخر کونسی تکلیف مجھے کھائے جا رہی ہے۔ وزیر اعظم کی معاونِ ناگزیر نرگس سیٹھی صاحبہ کا خیال ہے کہ اس طرح حاصل کی گئی آرا کو اس خطاب کا ایک حصہ بنایا جائے گا جو میری سالگرہ والے دن وزیر اعظم فرمائیں گے تاکہ یوں مجھے''حقیقتاً جدید اور ترقی پسند‘‘ بنانے کا جو خواب بابائے قوم نے دیکھا تھا اسے شرمندۂ تعبیر کیا جا سکے۔میرے ایک ''اتفاقیہ‘‘ صدر بھی ہیں (آصف زرداری) ۔ ان کے لئے جب بھی میری حرارت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو یہ باہر کے سبز باغات کا رخ کر لیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ''نوٹس ‘‘ لینے اور انہی لوگوں سے بار بار مل کر وہ دہشت گردی ، اندھا دھند مقاتلوں، جرائم اور لوڈ شیڈنگ سے مجھے بچا سکتے ہیں۔
خاکیوں(جنرل کیانی) کا دعویٰ ہے کہ وہ میرے محافظ ہیں لیکن وہ بھی کہیں اور ہی مصروف ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساری دل چسپی صرف اپنے مفادات اور مراعات کی بقا پر ہی مرکوز ہے۔ مجھے تو وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ مجھے دہشت گردوں سے
پاک کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ تو چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے کہ ایسا کچھ نہیں۔ امریکہ میںہر و ہ انسان جو ذرا سا بھی اہم یا باخبر سمجھا جاتا ہے اس کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ خفیہ طور پر دہشت گرد گروہوں کی مدد کر کے ایک دہرا کھیل کھیل رہے ہیں۔ یعنی وہی دہشت گرد گروہ جومیری تباہی پہ تلے ہوئے ہیں۔سمندر پار سے میرے دوست کہتے ہیںکہ یہ کہنا ہمیں بہت تکلیف دیتا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ملک ہے جس نے باقی ترقی پسند دنیا سے خود کو الگ تھلگ کر لیا ہے۔ حقیقت یہی ہے پاکستانیوں پر جناح سے زیادہ ضیا کے اثرات پائدار ثابت ہوئے۔ کینیڈا کے منور میر بھی میرے ایسے ہی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیم جنوبی پنجاب کے ایک مدرسے میں شروع کی تھی، میٹرک انہوں نے پھر ایک اردو میڈیم سکول سے کیا اور ماسٹر کی ڈگری گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی۔ فوج میں بھرتی ہوتے ہی قسمت نے انہیںبھارت میں جنگی قیدیوں کی جیل میں قید کم عمر ترین افسر کا عزاز دلا دیا ! وہ کہتے ہیں:'' انسانیت کی خوبصورتی اور بد صورتی کو جاننے کے لئے قیدی کیمپ ایک بہترین جگہ ہوتی ہے‘‘۔ 1974-75ء میں بلوچستان میں باغیانہ سرگرمیوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں میں بھی وہ شامل تھے، بعد میں 1984-85ء کے دوران وہ سیاچن میں بھی لڑے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ''1985ء میں فوج سے میری راہیں جدا ہو گئیں۔ ہم دونوں اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ ہم ایک دوسرے کے لئے مناسب نہیں۔ منور میر نے کبھی پاکستان کو چھوڑنا نہیں چاہا تھا لیکن پھر انہوں نے سمجھ لیا کہ ان کے بچوں کا ایک ایسے ملک میں کوئی مستقبل نہیں ہو سکتا جہاں ''نفرت کوئی جذبہ نہیں بلکہ زندگی کا ایک فلسفہ ‘‘ ہے۔ چنانچہ انہوں نے کینیڈا ہجرت کر لی۔میرے مسائل کے حل کے لئے منور میر بہت جوش سے بولتے ہیں۔وہ کہتے ہیں: ''اختلاف اور تفرقہ پسندی کی قوتوں نے نفرت کا جو جال بچھایا ہوا ہے،اس کو محبت اور مفاہمت سے بد ل دینا چاہیے۔پاکستان کو ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو معاشرتی اقدار میں برابری اور قومی تشخص کی یکسانیت کو یقینی بنائے‘‘۔
موم بتیاں بجھا کر مجھے سالگرہ کی مبارکباد دینا مت بھولیے گا۔ساتھ ہی''جیو ہزاروں سال‘‘ کا نغمہ بھی سب میرے لیے گائیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved