تحریر : آغا مسعود حسین تاریخ اشاعت     14-08-2015

پاکستان کا 68یوم آزادی

آخر کار حکومت کرنے والوں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ جب تک ہم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے پاکستان کی تعمیر و تشکیل سے متعلق خیالات کو عملی جامہ نہیں پہنائیںگے ، ایک حقیقی جمہوری، اعتدال پسندپاکستان نہیںبنا سکیں گے۔ چنانچہ 12اگست کواقلیتوں کے حقوق کے دن کے موقع پر پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس کے مطابق بانی پاکستان کی 11اگست کی تقریر ‘جو انہوںنے آئین ساز اسمبلی میں پہلی مرتبہ کی تھی ‘پر عمل پیرا ہوکر پاکستان کو ایک جدید ریاست بنانے کی کوششیں کی جائیں گی۔ یہ قرارداد اقلیتوں کے نمائندے کامران مائیکل نے پیش کی تھی، جو اس وقت پورٹ اینڈ شپنگ کے وفاقی وزیر ہیں ۔ ہر چند کہ سیاست دانوں نے قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر کی طرف مراجعت بڑی دیر سے کی ہے لیکن پھر بھی دیر آید درست آید کے مصداق میں دیکھنا یہ ہے کہ اقلیتوں کے دن کے موقع پر پارلیمنٹ میں منظور کی جانے والی قرارداد پر واقعی عمل درآمد ہوسکے گا؟یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ مملکت کا کاروبار چلانے والوں نے کبھی بھی قائد اعظم کے افکار پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی یہ کوشش کی کہ پاکستان کو کسی حدتک ایسا ملک بنادیا جائے جیسا قائد اعظم نے سوچا تھاغالباً اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ قائد اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کوئی رہنما ایسا نہیں تھا جو اس ملک کو حقیقی جمہوریت سے روشناس کراتا یا پھراسے مضبوط معاشی ومعاشرتی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کرتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان طوائف الملوکی شکار ہوگیا۔ سیاست دانوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے پاکستان کا نظم و نسق چلانے کی کوشش کی جبکہ فوجی حکمراں بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان نیمے دروں نیمے بروں کی کیفیت سے دوچار ہے۔ جمہوریت عملی طورپر کبھی بھی پاکستان میںرائج نہیں ہوئی، صرف جمہوریت کا نام لیا جاتا رہا ہے، تاکہ عوام کو ''مطمئن‘‘ کیا جاسکے، اس کے علاوہ ملک کے وسائل پر چند سو افراد نے قبضہ کرلیا ہے، جنہوں نے لوٹ مار کرکے اپنی دولت وثروت میں اضافہ کیا ہے۔ اب یہ سیاست دان مالی ومعاشرتی طورپر اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ انتخابات میں یہی لوگ جیت کر آتے ہیں، اور نئے سرے سے لوٹ مار میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ مملکت کا کاروبار احسن طریقے سے نہ چلانے کی صورت میں، پاکستان اس خطے میں معاشی ترقی کے پس منظر میں سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ مزیدبرآں ترقی کرنے میںجو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ مقامی دہشت گردوں نے پوری کردی ، دہشت گردی اور بد ترین طرز حکمرانی کی وجہ سے جہاں قانون کی اہمیت و افادیت ختم ہوکر رہ گئی تھی وہیں ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ کیا یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے؟ کیا وہ یہی پاکستان ہے جس کے لئے غیر منقسم ہندوستان کے تیس لاکھ سے زائد مسلمانوں نے جان و مال کی قربانیاں دی تھیں؟ تاہم سیاست دانوں کو پاکستان کا یہ زوال نظر نہیں آیا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوںنے اپنے ذاتی مفادات پر مبنی ایجنڈے کے تحت اپنے کرتوتوں سے اس زوال کو مزید پھیلایا اور ترقی کے تمام راستوں پر ذاتی مفادات کے پہرے بیٹھا دیئے تاکہ اس کے خلاف مزاحمت کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا جائے، اگر عسکری قیادت اس صورتحال کی اصلاح اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا عملی آغاز نہیں کرتی تو اس صورت میں پاکستان واقعی ایک ناکام ریاست بن جاتا ، لیکن اب پاکستان میں معاملات کواسی رخ پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کا بھر پور استدلال پر مبنی اظہار قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے گیارہ اگست کو
آئین ساز اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں کیا تھا۔ ان کی تقریر کو بائیں بازوکے لوگوں نے سیکولرازم سے تعبیر کرنے کی کوشش کی تھی جس پر کئی سالوں تک بحث ہوتی رہی ۔ دائیں بازو کا نقطہ نظر اس کے بر عکس تھا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ قائد اعظم ؒپاکستان کو ایک اعتدال پسند‘ ترقی پسند اور فلاحی ریاست کی حیثیت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے، جہاں ریاست کا کام کسی فرد کے عقیدے سے متعلق باز پرس کرنا نہیں بلکہ ہر فرد کو مسجد، مندر اور دیگر عبادت گاہوں میں جانے اور عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہو یہ ریاست مذہب کے معاملات میں ایک غیر جانبدار فریق ہے ، قائد اعظم کی اس تقریر میں ماسوائے اعتدال اور رواداری پر مبنی معاشرے کی تعمیر اور تشکیل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ سیکولرازم ایک مغربی تصور ہے، جسے بھارت نے اپنانے کی کوشش کی تھی، مگر یہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔آج کا بھارت ذات پات میں تقسیم ایک انتہا پسند لوگوں کاملک بن چکا ہے، دوسری طرف پاکستان میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کو فرقہ بندی میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جواب بھی ڈھکے چھپے انداز میں جاری ہے۔ اگر ہمارے حاکم قائد اعظم کے خیالات وافکار سے مخلص ہوتے تو پاکستان کی یہ صورتحال نہ ہوتی جو آج ہو چکی ہے۔موجودہ حالات کی اصلاح کا سارا کریڈٹ عسکری قیادت کو جاتا ہے، جس نے پاکستان کو کرپشن سے پاک فلاحی ریاست بنانے کا عزم کرلیا ہے اور سیاست دانوں کو اسی راہ پر چلنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ حقیقی جمہوریت جسے جاگیرداروں اور نئے ابھرتے ہوئے صنعت کاروں نے اپنے مفادات کے ذریعہ بے راہ کردیا ہے، اب آہستہ آہستہ اس جانب آرہی ہے جس کاتذکرہ قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر میں نمایاں طورپر موجود ہے۔
پاکستان کا 68واں یوم آزادی مناتے ہوئے ہمیںخصوصاً سیاست دانوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں عوامی نمائندوں کا سخت ترین احتساب ہوتا ہے، قانون کی بالادستی کے ساتھ انصاف کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کرپشن کو ہر سطح پر ختم کرنے کا عہد کیا جاتا ہے، اس پر عمل پیرا ہوکر پاکستان کو ایک جدید فلاحی ریاست بنانے کی جدوجہد کی جانی چاہئے جو بانیٔ پاکستان کی دلی خواہش تھی۔کیا پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرارداد سیاست دانوں کے ضمیر کو مجبور کرے گی کہ وہ اپنی کوتاہیوں کو ختم کرکے پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لئے اپنی تمام توانائیاںصرف کریں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved