حال ہی میں اسمبلیوں سے دیئے گئے استعفے نئے ہیں مگر ان کی داستان پُرانی۔عمران خان کے استعفے اور اس پر با غیرت جمہوریت کے ترلے ابھی کل کی بات ہے۔یہی استعفے اس سے پہلے جنرل مشرف کو پیش کیے گئے تھے ۔اس سے بھی پہلے نواز شریف کی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب نے جواریوں کی زبان میںان استعفوں کے ''بلف‘‘ کو ''کال‘‘ کر لیا تھا۔یعنی ڈراوا دینے کے لیے جو استعفے دیے گئے تھے وہ ہزارے وال سپیکر نے منظور کر لیے۔تازہ کہانی مگر بالکل اورطرح کی ہے۔ہماری با غیرت جمہوریت خود ذرا سا اندرونی دباؤ بھی برداشت نہیں کر سکتی اور لمبی لیٹ جاتی ہے‘ لیکن فوج کو 24گھنٹے دباؤ میںرکھنا اس کی مجبوری ہے۔غلیل والے ،سیالکوٹ والے،نارووال والے جانے دیں۔اب کیا ہوااسے دیکھ لیں۔
1:کراچی کی سب سے طاقتورشہری جماعت اورسندھ حکومت دونوں شدید دباؤ میں تھے۔سندھ کی حکومت نے دباؤ سے نکلنے کے لیے اپیکس کمیٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔شہری سندھ کی لسانی پارٹی نے اپنی راہ چُن لی۔عمران خان کے استعفیٰ پر حکومت 5سال کھیلنا چاہتی تھی۔کپتان نے سرکار کے بلف کو کال کیا۔جس کے نتیجے میں با غیرت جمہوریت کے انتہائی با اصول سپیکر نے ترلہ پروگرام کے تحت لندن فون کیا۔
2:لندن فون پلان میں طے ہوا کہ حکومت شہری سندھ کی جماعت کو رینجرز کے دباؤ سے نکالے گی۔اگلے روز قومی اسمبلی میںایک طویل خطاب کو ریڈیائی اور نشریاتی لہروں کے ذریعے ملک بھر میں لائیو دکھایا گیا۔فاروق ستار کے خطاب میںنواز شریف کے خلاف ایک لفظ نہیں تھا۔یہ فوج بذریعہ رینجرز کے نام لمبی چوڑی ''چارج شیٹ‘‘ہے۔فوجداری جرائم بشمول ماورائے عدالت قتل کا الزام جس میں سرِ فہرست ہیں۔
3:فوج رولز آف بزنس کے مطابق وزارت ِ دفاع کے ما تحت ہے ۔با غیرت جمہوریت کی انتہائی با غیرت وزارتِ دفاع نے فلور آف دی ہاؤس پر مسلح افواج کے خلاف دی گئی چارج شیٹ کے خلاف منہ تک نہ کھولا۔منہ کھولنا تو درکنار پارٹ ٹائم وزیر ِ دفاع نقطہ اعتراض پر بھی نہیں کھڑا ہوا۔یہ وہی وزیرِ دفاع ہے جو اپوزیشن کے زمانے میں ہر اس وقت جمپ لگا کر کھڑا ہو جاتا تھا جب کبھی میں نے سابق سیاسی چیف جسٹس کا فلور پر نام بھی لیا‘حالانکہ آئین میںصرف عدلیہ نہیں بلکہ فوج کے خلاف بھی فلور پر اس کا میڈیا ٹرائل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
4:پارلیمان کے قواعد کے مطابق سپیکر کی مرضی، اجازت اور رضا مندی کے بغیر فلور آف دی ہاؤس پر ایک لفظ بھی نہیں بولا جا سکتا۔تازہ نورا کشتی میں سپیکر نے فلور پر اس کی اپنی فوج کے خلاف دی گئی چارج شیٹ کو نہ تو کارروائی سے حذف کیا اور نہ ہی اس طویل سیاسی خطبے کے دوران ''چُوں‘‘ تک کرنے کی ہمت کی۔
5:کون نہیں جا نتا کہ نون لیگ حکومت بچانے کے لیے کچھ بھی قربان کر سکتی ہے۔فوج کی عزت یا کوئی اور''چھوٹا موٹا‘‘ملکی ادارہ‘جو ان کے سیاسی ڈِنر ٹیبل پر چٹنی،اچار اور سلاد وغیرہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
6:اگر ''استعفیٰ کارڈ‘‘نورا کشتی نہ ہوتی تو اسی جماعت کے دو ارکان جو آزاد کشمیر اسمبلی کے بھی رکن ہیں اور جن کو اسی ہفتے آزادکشمیر کے وزیرا عظم نے کابینہ سے نکال باہر کیا، وہ بھی استعفیٰ دیتے۔ان دونوں ارکان کی سیٹیں کراچی سے آئی ہیں۔نیلم یا میرپور سے نہیں۔ان دونوں ارکان کو معلوم ہے کہ وہ جو نہی استعفیٰ کا لفظ منہ سے نکالیں گے،آزاد کشمیر اسمبلی کا سپیکر اسے منظور کرلے گا اور وہ گھر چلے جائیں گے۔غالباََ ہمیشہ کے لیے۔
7:استعفیٰ ایم کیو ایم نے دیا جس کے خلاف حکومت نے غداری کا ریفرنس برطانیہ بھیجنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ریفرنس کا اعلان حکومت نے کیا،چارج شیٹ فوج کو ملی،استعفیٰ ایم کیو ایم نے دیا‘ پاؤں میں حکومت پڑ گئی۔کیا اب بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت پاکستان میں کوئی پارلیمنٹ نہیں بلکہ با غیرت جمہوریت مفادات کا ایسا ''لنڈا بازار‘‘ہے جہاںہر چیز کا لنڈا ریٹ لگتا ہے۔اصول،آئین،قانون،ضابطہ،ریاست،دفاع سب شامل کر کے۔باغیرت جمہوریت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے بولو جی تم کیا کیاخریدو گے ۔اس صورتحال کے جو نتائج با غیرت جمہوریت نے پہلے دن ہی مرتب کیے ذرا انہیں دیکھ لیں۔
پہلا نتیجہ،آپ حکومت کو چھوڑ دیںریاست کو چھیڑ لیں‘ پارلیمنٹ کو گالی مت دیں باقی جس مرضی کی ایسی تیسی پھیر دیں۔جو کچھ مرضی چلا جائے کرسی قائم رہنی چا ہیے۔ہر چیز حسبِ ضرورت ،حسبِ قیمت ،حسبِ خواہش سودا بازی کے ذریعے خریدو یا بیچو ۔مُک مُکا کے اس نظام کو بچانے کے لئے با غیرت جمہوریت ہر چیز کا مُک مُکا کرنے کے لیے ہر وقت تیار بھی رہتی ہے اور موجود بھی۔
دوسرا نتیجہ،اس ایوان کے اندر اور باہر موجودہ حکومت نے دفاع وطن،کراچی میں امن کی بحالی ،دہشت و وحشت کے خلاف لڑنے والے شہیدوںاور غازیوں پر فخرو غیرہ کے جوبیانات دیئے وہ با غیرت جمہوریت کا مزاحیہ پروگرام تھا۔ ورنہ پارلیمنٹ میں یکطرفہ چارج شیٹ اور فوج جیسا ادارہ اپنے دفاع کے حق سے محروم...؟ظاہر ہے یہ افغانستان یا کویت کی بینڈ بجانے والی فوج نہیں ہے۔دنیا کی پانچویں بڑی لڑاکا،پروفیشنل ایٹمی فوج ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ فوج مسلسل بے توقیری برداشت کرتی رہے۔کیا باغیرت جمہوریت کے پاس دوسرا پلان''B‘‘بھی موجود ہے۔
تیسرا نتیجہ، بظاہر نورا استعفیٰ جس پرقوم، ریاست، سلطنت، ملک،عوام جائیں بھاڑ میں راج دربار‘سرکار،ٹھیکہ،جنگلہ، پرمٹ ،ڈیزل،میٹرو،قومی سلامتی ،عوامی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی کے قطب مینار بن چکے ہیں‘کیا فوج سنتے رہو ،برداشت کرتے رہو اور سنو ‘مزید برداشت کرو،صرف تم ہی سنو والی صورتحال کو خوش دلی سے قبول کر رہی ہے؟
چوتھا نتیجہ،کراچی کے امن کی بحالی پر عوام سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔سپیکر کے ٹیلیفون ،گھبرائے ہوئے اقتدارپرست وزیروں کی چال بازیوں کے بعد کراچی کے عوام پورے امن کی بحالی کا خواب دیکھیں یا آدھے بحال شدہ امن کا بھی کرسی کے عوض ٹھیکہ ہو چکا ہے؟
میں نے ڈان ٹی وی کوا نٹرویو دیتے ہوئے چار دن پہلے کہا‘ سرکاری چائے کی پیالی میںاگلے طوفان کا انتظار کریں ۔لوگوں کو قصور کے معصوم بچوں کی چیخیں بھول جائیں گی۔جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ میرے اندازے سے بھی پہلے سرپرائز کی شکل میں آپ سب کے سامنے ہو گا۔جالب نے گزرے ہوئے کل کے بارے میں کہا تھا یا آج کے لیے فیصلہ آپ کر لیں۔
اصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہ اہلِ وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں تھا‘ نہ ہو سکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو‘ بے ضمیر ہو تم