ہمیں والٹن روڈ لاہورکے شاہد اکرام اللہ خان کا ایک مراسلہ موصول ہوا ہے جس میں صنعتی مزدوروں کی زبوں حالی کا رونا رویا گیا ہے جن کی پنشن صرف 4620روپے ہے جو کہ نہایت قلیل ہے اور اس سے ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔ حکومت ہر بجٹ میں پنشن کی رقم میں اضافے کا اعلان تو کرتی ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا جبکہ خیبر پختونخوا میں صنعتی مزدور کو 15000روپے بطور پنشن ادا کیے جاتے ہیں۔ موصوف نے اپنے خط کے ہمراہ مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے مکاتیب کے تراشے بھی ارسال کئے ہیں جن میں یہ مطالبہ پیش کیا گیا ہے۔ بادی النظر میں یہ مطالبہ بالکل جائز لگتا ہے لیکن جب ہم نے اس مسئلے پر پورا غور و خوض کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ شاہد اکرام اللہ صاحب کی کوئی چال نظر آتی ہے کیونکہ عوام کو پینے کے لیے جو پانی میسر ہے‘ گھروں تک پہنچتے پہنچتے پائپوں میں گٹروں کا پانی باقاعدہ شامل ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں بیمار پڑ جانے پر ہسپتال جائیں تو نہ وہاں دوا میسر ہے نہ ڈاکٹر کیونکہ ڈاکٹر حضرات نے یا تو ہڑتال کر رکھی ہوتی ہے یا سینئر ڈاکٹروں کے رویے کے خلاف استعفے دے رکھے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں تو لوگوں کے بوڑھا ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی کیونکہ وہ جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں تو ہمارے یہ معزز مکتوب نگار کن بوڑھوں کے لیے پنشن کے طلب گار ہیں؟ ہیں جی؟
واضح رہے کہ مکتوب میں صرف بوڑھوں کا ذکر کیا گیا ہے ؛ بوڑھیوں کا نہیں۔ چنانچہ دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ ایک عالمی طور پر طے شدہ اور مجرب مقولے کے مطابق مرد تو کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘ حتیٰ کہ یہ خوشخبری جابجا شہر کی دیواروں پر بھی لکھی نظر آتی ہے اور اس مقولے کی آج تک کسی نے تردید نہیں کی۔ بلکہ کچھ حضرات تو جوان ہونے سے پہلے ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں جیسا کہ ایک بہت بڑے شاعر نے کہہ رکھا ہے ؎
بوڑھا ہونے سے پہلے ہی
شکل پائی بوڑھی میں نے
اور یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ وہ بہت بڑا شاعر خاکسار ہی ہے اور میرا خیال ہے کہ شاعر نے یہ بینیفٹ حاصل کرنے کے لیے ہی ایسا کر رکھا ہو گا۔
نیزیہ کہ بوڑھوں کے شوق دیکھیں تو الگ سے عبرت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ منقول ہے کہ ایک نوے سالہ بوڑھے نے ایک پچاسی سالہ بڑھیا سے شادی کر لی۔ وہ ہنی مون منانے کے لیے نکلے اور جب اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو تین دن انہیں گاڑی سے نکلنے میں ہی لگ گئے۔ اب آپ بتائیے کہ ایسے بوڑھوں کے حق میں کیا آواز اٹھائی جا سکتی ہے حتیٰ کہ اسی بہت بڑے شاعر کا ایک شعر ہے ؎
چار پائی پہ یوں نہ بیٹھا کھانس
اٹھ کے بوڑھی سی کوئی مرغی پھانس
سو ان حالات میں بوڑھے حضرات کے لیے کسی کے دل میں کیا ہمدردی باقی رہ سکتی ہے۔ ایک اور سنیے‘ ایک نوے سالہ بوڑھے نے ایک سولہ سالہ لڑکی سے شادی کر لی۔ اس کے پوتے کو پتا چلا تو وہ بھاگا بھاگا آیا اور بولا۔
''دادا جان‘ یہ آپ نے کیا کیا ہے‘ یہ تو بہت خطرناک بات ہے ‘ آخر موت فوت آدمی کے ساتھ ہے ! تو بڑے میاں نے کھنکارتے ہوئے کہا‘
''موت فوت کا کیا ہے‘ یہ مرگئی تو میں اور کر لوں گا!‘‘
تو بوڑھے حضرات کے یہ تو لچھن ہیں۔ یعنی آپ انہیں باقاعدہ پنشن دلائیں اور یہ نئی شادی کا سوچنے لگ جائیں گے۔ پھر یہ ہے کہ ہر شہر میں اولڈ پیپل ہوم موجود ہیں اور اپنی نیک اولاد کو تنگ اور پریشان کرنے کی بجائے یہ بزرگ وہاں داخل ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسے ہی بوڑھے کا قصہ ہے کہ وہ کئی سال تک اس ادارے میں داخل رہا لیکن اس کی کوئی اولاد اس دوران اسے ملنے کے لیے نہیں آئی۔ اگرچہ وہ بار بار پیغام بھیجتا رہا۔ آخر وہ بہت بیمار پڑ گیا لیکن یہ اطلاع پا کر بھی اس کی خبر لینے کوئی نہ آیا۔ جب ڈاکٹروں نے اسے بتا دیا کہ اب وہ بس دو چار روز ہی کا مہمان ہے تو اس نے بچوں کو اطلاع بھجوائی کہ اب تو میں مرنے کے قریب ہوں‘ اب تو کوئی آ جائے جس پر اس کا ایک بیٹا ترس کھا کر آ گیا تو بڑے میاں نے اسے کہا کہ اس کمرے میں پنکھا نہیں ہے اور گرمی بہت تنگ کرتی ہے ‘ تم کم از کم اس میں پنکھا ہی لگوا دو تو بیٹا بولا۔''بزرگو! اب تو خود آپ کا یہاں سے چل چلائو ہے تو آپ پنکھے کے بارے میں کیوں فکر مند ہیں‘‘جس پر وہ بزرگ بولے‘ 'میں اپنے لیے پنکھا نہیں چاہتا‘ میرا مقصد یہ ہے کہ جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو تمہارے بیٹے تمہیں بھی یہاں چھوڑ جائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ گرمی میں تمہیں تکلیف کا سامنا کرنا نہ پڑے‘‘
شاہد اکرام اللہ خان صاحب بظاہر خاصے معقول آدمی لگتے ہیں اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ اس مطالبے کے پیچھے ان کے کوئی مخصوص مفادات نہیں ہوں گے اوراگر خدانخواستہ ان کے کوئی بزرگ ان پر بوجھ بنے ہوئے ہوں تو حکومت بیچاری کو خواہ مخواہ پریشان نہ کریں اور انہیں اولڈ پیپلز ہوم میں جا پھینکیں۔ حکومت تو پہلے ہی عوام کی خدمت میں اس قدر مصروف ہے اور اپنے دن رات اس طرح ایک کیے ہوئے ہے کہ اس کے پاس خود اتنا وقت نہیں ہے کہ ایک شادی ہی اور کر لے۔ ان حالات میں ہم بھی یہی عرض کریں گے کہ اگر کچھ لوگ جوانی میں مرنے سے واقعی بچ رہے ہوں تو ان کی پنشن پر وہ توجہ ضرور دے کہ دو چار چھ ماہ کی زحمت اگر اٹھا بھی لی جائے تو یہ لوگ زیادہ سے زیادہ اتنا عرصہ ہی اور جی سکتے ہیں ‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔
آج کا مطلع
مزا کچھ تو ملے گا موج کو منجدھار کرنے میں
بھلے میں ڈوب ہی جائوں یہ دریا پار کرنے میں