اگر کچھ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا فوج پر کیا جانے والا وار ہمارے وزیردفاع سے زیا دہ خطرناک ہے تو ایسے لوگ ہم سب کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اور نہیں بلکہ ہمارے وزیر دفاع دنیا کے سامنے الزام لگا رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہان جنرل پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام نے عمران خان اورڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کی مدد کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی حکومت گرانے کی سازش میں حصہ لیا تھا اور یہ کہ ان کے پاس ان کا مکمل ثبوت موجود ہیں لیکن خیال کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ان الزامات کی انکوائری یا اس معاملہ میں کسی بھی قسم کا کمیشن بنانے سے فوج کے مورال پر برا اثر پڑ سکتا ہے اور چونکہ فوج اس وقت حالت جنگ میں ہے اس لئے دہشت گردی کے خلاف ا س کی کارکردگی متا ثر ہونے کا خدشہ ہے‘ تو ہم نے یہی بہتر سمجھاہے کہ اس پر مٹی ڈال دی جائے۔ نہیں جناب جب آپ نے سر بازار با قاعدہ نشانہ لے کر پاک فوج پر کیچڑ اچھال ہی دیا ہے تو اب بھاگیں نہیں۔ اب مٹی ڈالنے والی بات چھوڑ دیں بلکہ جو سچ آپ کے پاس موجود ہے اسے سامنے لے کر آئیں‘ کیونکہ یہ چوہے بلی کا کھیل بہت ہو چکا۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ لڑکا ہے تو بہت ہی شریف لیکن اس میں فلاں فلاں خامیاں ہیں۔ وزیر موصوف کی طرف سے فوج کے جرنیلوں کے خلاف مسلسل الزام تراشی کی جا رہی ہے کہ وہ نواز شریف حکومت کے خلاف سازش کرتے ہوئے عمران خان کے دھرنے کومحض سپورٹ نہیں کرتے رہے بلکہ ہر طریقے سے اسے آگے بڑھاتے رہے اور عمران خان اپنے دھرنے کی تقریروں میں جس امپائر کی انگلی اٹھنے کااشارہ کرتا تھا وہ انہی جرنیلوں کی طرف تھا۔ وزیر دفاع نے بڑے وثوق سے کہا ہے کہ ان کے پاس جنرل ظہیر الاسلام کے دھرنے اور نواز شریف حکومت کو الٹنے کے مکمل ثبوت ہیں۔ انہوںنے تو یہ تک بھی کہہ دیا ہے کہ وہ سب ثبوت میڈیا کے چار یا پانچ لوگوں کو دینے کیلئے تیار ہیں۔ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آیا یہ جنرل ظہیر السلام وہی ہیں‘ جن کے خلاف حامد میر پر کراچی میں کی جانے والی مبینہ فائرنگ کے بعد ایک ٹی وی چینل نے کئی گھنٹے تک مسلسل الزامات کی بارش کئے رکھی تھی کہ اس فائرنگ میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ملوث ہیں اور جن کے بارے میں آپ کے ساتھی و زیر اطلاعات نے کھل کر کہا تھا کہ ''ہم دلیل والوں کے ساتھ ہیں غلیل والوں کے ساتھ نہیں‘‘۔
وزیر دفاع نے افواج پاکستان پر اپنا یہ الزام ایک بار نہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کئی کئی بار اپنے ٹی وی پروگراموں میں دہرایا اور یہ محض الزامات نہیں بلکہ ایک قسم کی فرد جرم ہے‘ جو کسی ایک جنرل کے خلاف نہیں بلکہ بظاہر پوری فوج کے خلاف ہے اور اصل میں اس کی ذمہ داری براہ راست آرمی چیف جنرل راحیل شریف پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ اس وقت وہی اس ملک کی افواج کے سربراہ ہیں‘ چنانچہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ جنرل ظہیر کی سرگرمیوں سے بے خبر ہوں کیونکہ ان کے پاس ملٹری انٹیلی جنس کا پورا سیٹ اپ مو جود ہے‘ جس سے انہیں ہر قسم کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ جب بھارت کے خلاف کارگل جنگ زوروں پر تھی تو اس وقت جنرل مشرف کی‘ جو کچھ دنوں کیلئے چینی قیا دت سے اہم بات چیت کیلئے چین گئے ہو ئے تھے ‘ راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل عزیز خان سے ہونے والی گفتگو بھارت کی ایجنسیوں نے ریکارڈ کر لی تھی اور اس گفتگو کی پوری تفصیل ریکارڈنگ کی صورت میں جناب نواز شریف نے سعودی عرب اور لندن میں بیٹھ کر ایک پاکستانی صحافی کو اپنے اور اپنے خاندان کے انٹر ویوز پر مبنی کتاب غدار کون؟ میں چھاپنے کیلئے دی تھی۔۔۔۔اور جب یہ گفتگو ریکارڈ کی گئی تو اس وقت جنرل ضیا الدین بٹ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے‘ تو جناب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آئی ایس آئی کو پتہ ہی نہ چلے کہ بھارت پاکستان کے آرمی چیف اور چیف آف جنرل سٹاف کی آپس میں ہونے والی گفتگو ریکارڈ کر رہا ہے؟۔کیا یہ گفتگو ریکارڈ کروانے میں بھارت کی مدد کی گئی تھی اور اگر واقعی ایسا کیا گیا تھا تو اس تشویشناک معاملے کے ذمہ دار اور کون لوگ تھے؟
جب کسی ملک کا وزیر دفاع کوئی بیان جاری کرتا ہے یا وہ کوئی انٹر ویو دیتا ہے تو دنیا بھر میں اس کی بات توجہ سے سنی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بھارت کے وزیر دفاع پالیکر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ بھارت کے خلاف کسی بھی کارروائی پر ہم کسی اور کو نہیں بلکہ پاکستان کو دہشت گردی سے جواب دیں گے ؟ وزیر دفاع اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارتی وزیر دفاع پاریکر کے اس بیان کا دنیا بھر میں اور خاص طور پر پاکستان میں کس قدر اور کتنے دن چرچا رہا۔ اسی طرح آئی ایس آئی کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی جو در پردہ کوششیں ہو رہی ہیں‘ وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ اگرکوئی بھارتی ٹی وی چینلز پرآئی ایس آئی کے خلاف وزیردفاع کی ان الزام تراشیوں پر مبنی ریکارڈنگ نہیں دیکھ رہا تو اس میں پاکستان کا تو کوئی قصور نہیں۔
سوال یہ ہے کہ آیا وزیر دفاع کے فوج پر الزامات کی تکرار، الطاف حسین کی حالیہ تقریر ،آصف علی زرداری کے بیانات اور الزامات اور وزیر اعظم کی خاموشی کسی ایک ہی معاملے کی کڑیاں تو نہیںہیں؟کیا یہ منظم شور شرابا کہیں پاکستان کے گرد حصار کی صورت میں کھینچاہوا فوج کا کمبل چرانے کیلئے تو نہیں؟ اگر کسی نے آئی ایس آئی کے کردار کی تحقیقات ہی کرانی ہے تو کیوں نہ سب سے پہلے آئی جے آئی کے قیام سے شروع کیا جائے؟ کیوں نہ یونس حبیب کے نواز شریف اور جاوید ہاشمی کو1988-90 ء میں مہران بینک سے تقسیم کئے جانے والے لاکھوں روپے کی بات کی جائے؟ کیوں نہ وہاں سے شروع کیا جائے جہاںپر عدالت ایئر مارشل اصغر خان کی مدتوں پرانی دائر کی جانے والی پٹیشن کو چھوڑ آئی ہے ؟ جناب وزیردفاع صاحب !وہ دوا شخاص جو پارلیمنٹ لاجز کے عقب کی سیڑھیاں چڑھ کر آپ کے پاس بیٹھتے ہیں‘ ان میں سے ایک نے کہیں آپ کے ہی کہنے پر تو نہیں کہہ دیا کہ'' بقر عید سے پہلے کسی کی قربانی ہونے والی ہے‘‘ ۔
مناسب ہوگا کہ اندر ہی اند ر پنپنے والی خوش فہمی کو اپنے اور اپنے دوستوں کے دل سے نکال دیں کیونکہ پاکستان کے85 فیصد سے بھی زیا دہ عوام آج اپنی فوج اور اس کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر کسی نے دو نشان حیدر کے وارث سے کسی بھی قسم کی کوئی نامناسب حرکت کرنے کی کوشش کی‘ تو اس ملک میں پہلی دفعہ وہ خوفناک عوامی رد عمل ہو گا کہ لوگ انقلاب فرانس اور انقلاب روس کو بھول جائیں گے۔