تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     15-08-2015

کھایا پیا کچھ نہیں‘ گلاس توڑا بارہ آنے

الطاف بھائی نے اپنے اراکین اسمبلی سے استعفے دلوا کر‘ اپنے آپ کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور حکومت کو بھی۔ شاید ان کے سامنے تحریک انصاف کی مثال تھی‘ لیکن تحریکِ انصاف کے قانونی ماہرین کافی سمجھدار تھے۔ انہوں نے استعفے دینے کا طریقہ کار ایسا رکھا کہ اگر واپسی کا راستہ ڈھونڈنا پڑے‘ تو وہ بند نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ ان کے احتجاجی استعفے ایک قومی مسئلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ حکومت چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کر کے‘ قوم کو حقیقت جاننے کا موقع دے۔ اگر ان چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرا لی جائے‘ تو اس سے ثابت ہو جائے گا کہ دھاندلی ہوئی تھی یا نہیں۔ حکومت کو شایدمعلوم تھا کہ دوبارہ گنتی کا نتیجہ کیا ہو گا‘ اس لئے وہ دوبارہ گنتی کے سوال پر اڑ گئی اور تحریکِ انصاف کی مہم میں شدت پیدا ہوتی گئی۔ اس دوران مختلف تجاویز سامنے آئیں۔ دونوں فریقو ں میں مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ کئی اجلاسوں کے بعد ایک معاہدہ کیا گیا‘ جس میں ہمہ معنی ایک اصطلاح رکھ کر ‘ تحریکِ انصاف کو غچہ دے دیا گیا۔ عمران خان کی بدقسمتی کہ انہوں نے مذاکرات کے لئے اپنے جن دو ساتھیوں کا انتخاب کیا‘ وہ دونوں ہی روایتی سیاست کے عادی تھے اور دونوں صورتوں میں ان کی دلچسپی قومی اسمبلی کے اندر نشستیں برقرار رکھنے میں تھی۔
معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ اگر تحقیقات کے بعد منظم دھاندلی ثابت ہو جائے‘ تووزیراعظم استعفیٰ دے کر دوبارہ انتخابات کرائیں گے۔ ہماری طرز کے انتخابات میں یہ ثابت کرنا کہ ان میں منظم دھاندلی کی گئی‘ دن کو رات ثابت کرنے کے مترادف ہے۔ تحریک انصاف کی ساری سیاسی اور قانونی صلاحیتیں ‘ دھاندلی کو منظم نہیں ثابت کر سکتی تھیں اور ایسا نہیں کیا جا سکا۔ جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہی لکھا کہ منظم دھاندلی ثابت نہیں ہوئی جبکہ 40 جگہوں پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دھاندلی ہوئی تھی‘ جس کا نام کمیشن نے بدانتظامی لکھ دیا۔ حقیقت میں تحریکِ انصاف نے معاہدے پر دستخط کر کے اپنا کیس ہار دیا تھا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ علیحدہ علیحدہ حلقوں میں غیرمنظم دھاندلی کے شواہد موجود تھے مگر انہیں منظم دھاندلی میں بدلنا مشکل تھا‘ لیکن استعفے دینے میں انہوں نے آئینی پابندیوں کا خوب استعمال کیا۔ تحریک نے اپنے اراکین کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا استعفیٰ بنفس نفیس سپیکر کے حوالے کریں اور دو سوالوں کے جواب دیں کہ کیا یہ استعفیٰ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے؟ اور کیا وہ یہ استعفیٰ کسی دبائو کے تحت تو نہیں دے رہے؟ میں نہیں جانتا کہ یہ دوطرفہ رضامندی سے ہوا یا تحریک کے اراکین دائو لگا گئے‘ لیکن ہوا یہ کہ انہوں نے اپنے استعفے لکھ کر شاہ محمود قریشی کے حوالے کئے‘ انہوں نے سپیکر کو پہنچا دیئے اور استعفیٰ دینے کی شرائط آخر تک پوری نہ ہو سکیں۔ ایک بار سپیکر نے اصرار کیا کہ سارے مستعفی ارکان آئینی شرائط پوری کریں۔ سارے کے سارے ارکان سپیکر کے دفتر میں پہنچ کر بیٹھ گئے اور ان سے کہا کہ ہم سب آپ کے سامنے ہیں‘ آپ تصدیق کر لیں۔ اس میں نکتہ یہ تھا کہ اجتماعی تصدیق کی آئین میں وضاحت نہیں ہے۔ اس میں استعفیٰ دینے والے رکن کا سپیکر کو ذاتی طور پر مطمئن کرنا ضروری تھا۔ لہٰذا یہ استعفے منظور نہیں کئے جا سکے۔ 
حکومتی جماعت نے جب دیکھا کہ کمیشن کا فیصلہ تحریکِ انصاف کے حق میں نہیں آیا‘ تو اس نے اپنی فتح کا اعلان کر کے‘ شور مچا دیا کہ تحریک کے اراکین کی رکنیت ختم ہو چکی ہے۔ تحریک کے دو زبردست دشمن اس امید کے ساتھ میدان میں آ گئے کہ ایوان میں اس سوال پر بحث کی جائے اور اگر حاضر اراکین کی اکثریت اتفاق کر لے کہ وہ ایوان سے غیرحاضر رہ کر اپنی رکنیت گنوا چکے ہیں‘ تو حکومت کو موقع مل جائے گا کہ تحریک کے اراکین کو نااہل قرار دے کر‘ ان کی رکنیت ختم کر دے۔ لیکن حکومت کے قانونی مشیروں نے بتایا کہ استعفوں کی باقاعدہ منظوری کے بغیر رکنیت ختم نہیں کی جا سکتی۔ مخالفین نے دوسرا نکتہ یہ نکالا کہ 40دن کی غیرحاضری کی صورت میں رکنیت ازخود ختم ہو جاتی ہے‘ لہٰذا تحریکِ انصاف کے اراکین کی رکنیت بھی ختم ہو گئی۔ اگر اس نکتے پر بھی بحث ہوتی‘ تو سپیکر کے ساتھ ایک تنازعہ ہونے کی صورت میں ان کی غیرحاضری نہ اتفاقیہ تھی ‘ نہ احتجاجی۔ اس غیرحاضری کا سبب استعفوں کی نامنظوری تھی اور جب تک یہ فیصلہ نہ ہوتا‘ ان کا معاملہ متنازعہ تھا۔ اس لئے ایوان میں 40دن کی عدم حاضری کی شرط کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا تھا۔قرارداد لانے والی دونوں جماعتوں کے پاس ‘ اپنی قراردادیں پاس کرانے کے لئے مطلوبہ اکثریت موجود نہیں تھی۔ ستم یہ ہوا کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف‘ دونوں نے قراردادوں کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اب انہیں لینے کے دینے پڑ گئے۔ مولانا فضل الرحمن نے خود کہا کہ ہمارے پاس تو ووٹ نہیں تھے‘ قرارداد ناکام ہو جاتی تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا کہ ہماری تحریک ناکام ہو گئی ہے اور جس بھاری اکثریت نے تحریکِ انصاف کے خلاف ووٹ نہیں دیا‘ اس کا واضح مطلب یہ ہوتا کہ اس بھاری اکثریت نے تحریکِ انصاف کی حمایت کر دی ہے اور جن دو پارٹیوں نے تحریکِ انصاف کو ایوان سے نکالنے کی خاطر قراردادیں پیش کی تھیں‘ انہیں بری طرح سے شکست ہوتی۔ منطقی طور پر تحریکِ انصاف کامیاب و کامران نکلتی اور اسے ایوان سے باہر کرنے کے خواہش مندوں کی سبکی ہوتی۔ان کے پاس ایک ہی چارۂ کار رہ گیا تھا کہ اپنے آپ پر جبر کر کے‘ قراردادیں واپس لینے کی شرمندگی اٹھائیں اور تحریک کی نشستیں پکی ہو جائیں۔ 
ایم کیو ایم والے وہ دائو نہیں کھیل سکے‘ جو تحریکِ انصاف نے کھیلا تھا۔ ان خدا کے بندوں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے استعفے فرداً فرداً سپیکر کو پیش کئے اور جن دو سوالوں کا جواب دینا لازم تھا ‘وہ بھی دے دیا یعنی یہ کہ ان کا استعفیٰ اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور ان پر استعفیٰ دینے کے لئے کوئی دبائو نہیں ہے۔ اس طرح استعفے کی آئینی شرائط پوری ہو گئیں اور آئین کے مطابق یہ استعفے مکمل طور پر مؤثر ہو گئے اور ساتھ ہی ان کی رکنیت ختم ہو گئی۔ سپیکر نے دفتری مراحل طے کر کے یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجنا تھا‘ جس کے فوراً ہی بعد نشستیں خالی ہونے کا نوٹیفکیشن جاری ہو جانا تھا۔ آج بھی اگر سپیکر کے دفتر سے منظورشدہ استعفوں کی اطلاع الیکشن کمیشن کو بھجوا دی جائے‘ تو متحدہ کے تمام اراکین اپنی نشستوں سے محروم ہو جائیں گے۔ آئینی پوزیشن تو یہ ہے‘ لیکن سیاسی مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔ تحریکِ انصاف کو نکالا جاتا‘ تو ملک کے تین صوبوں میں 33 نشستیں خالی ہو جاتیں‘ جن میں زیادہ تر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تھیں۔ مولانا تو عام انتخابات میں ہی اپنا ڈیزل بہا بیٹھے تھے۔ ضمنی انتخابات میںبچا بچایا ڈیزل بھی ٹپک جاتا اور مولانا کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔ دوسری طرف حکومت کے ایک کولیشن پارٹنر کے دونوں ہاتھ خالی ہو جانا تھے۔ ایم کیو ایم کا معاملہ دوسرا ہے۔ وہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اگر اسے نکالا جائے‘ تو ضمنی انتخابات میں ایک دو نشستوں کے سوااسے کہیں خطرہ نہیں۔ وہ دوبارہ منتخب ہو کر ایوانوں میں آ سکتی ہے‘ مگر لوگ یہ ضرور پوچھتے کہ آپ نے استعفے دے کر کیا حاصل کیا؟ اور جو نشستیں آپ نے چھوڑیں‘ دوبارہ وہی حاصل کر کے ایوان میں آ گئے۔ بات وہیں کی وہیں رہ جاتی۔ سردار جی والا کام ہو جانا تھا‘ جنہوں نے ایک جنکشن پر جا کر گاڑی بدلنا تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر پہلے سٹیشن کی طرف روانہ ہو گئے۔ جنکشن پر جا کر اترے‘ تو واپسی کے لئے اسی ٹرین پر بیٹھ گئے‘ جو انہیں وہیں لے گئی ‘ جہاں سے چلے تھے۔ اب ایم کیو ایم کے لیے سیٹیں بچانا بھی آسان نہیں رہ گیا۔ آئینی اعتبار سے وہ استعفے مؤثر ہو چکے ہیں اور مستعفی اراکین کی رکنیت ختم ہو چکی ہے۔ یہ آئینی مسئلہ اب ایوان میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا فیصلہ اب عدالت میں ہو گا اور عدالتی فیصلہ ایم کیو ایم کے خلاف آ گیا‘ تو پھر کھایا پیا کچھ نہیں‘ گلاس توڑا بارہ آنے۔ ویسے تحریکِ انصاف نے بھی کچھ کھائے پیئے بغیر بارہ آنے دیئے ہیں۔ گلاس بھی نہیں توڑا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved